آج اس نفسانفسی اور مادہ پرست دور میں ہر دوسرا بندہ اپنے نفس کا غلام بنا ہوا ہے جسکی وجہ سے اپنے منصب اور فرائض کو ایمانداری سے انجام دینے سے بھی قاصر ہے معذرت کے ساتھ یہاں تک کہ حکمران طبقے کی کارکردگی سے بھی لوگ مایوس ہوچکے ہیں _ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اسکے حکمران بھی مسلمان ہیں ایک مسلمان حکمران کا کیا عمل و کردار اپنے ملک اور اپنی عوام کے مفاد کے لئے ہونا چاہیے ؟ ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں ،مسلمان حکمرانوں کا اگر تذکرہ کریں تو ویسے تو تمام خلفائے راشدین اور بہت سے دوسرے حکمران قابل ذکر اور قابل تعریف ہیں لیکن اس وقت فوراً میری نظروں کے سامنے حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز وغیرہ جیسے حکمرانوں کے نام سامنے آجاتے ہیں جن کی بلند پایا شخصیات کی تاریخ بھی گواہ ہے اور یہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے منصب حکمرانی پر فائزہوتے ہی اپنی زاتی مفادات کی نفی کرکے رب کی رضا حاصل کرنے کے لئے صرف۔ اپنے آپ کو عوام اور ریاست کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیا ماشاءاللہ
میں جب بھی ان حکمرانوں کی دیانت داری اور فرض شناسی کے بارے میں پڑھتی ہوں تو دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ کاش ہمارے حکمرانوں میں بھی کوئی ایک خوبی ہی ان اعلی مقام و عظیم و معتبر حکمرانوں جیسی پیدا ہوجائے تو یہ ملک ریاست مدینہ بن جائے آمین ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز جنہیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے بیشک آپ کی شخصیت میں حضرت عمر رضی تعالٰی عنہ جیسی ہی خوبیاں پائی جاتی ہیں _حکمران بنتے ہی اپنے آرام وسکھ کو نظرانداز کر دیا صرف اور صرف عوام اور ریاست کی بھلائی کو ترجیح دی اس سلسلے میں نہ صرف تمام عملداروں کا بلکہ اپنی اولاد کا بھی تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیتے رہتے کہ کہیں ان کی وجہ سے کسی کو تکلیف یا نقصان تو نہیں ہورہا ہے یا کسی کے ساتھ ناانصافی تو نہیں ہوگئی _ پہلی مرتبہ جب مسند خلافت پر چڑھ کر خطاب کر رہے تھے تو فورا مسند سے نیچے اتر ائے کہ کہیں مجھ میں اس عہدے کی وجہ سے تکبر نہ پیدا ہوجائے۔
تاریخ کی کتابوں میں آپ کےدورہ خلافت میں آپ کی ایمانداری اخلاص انکساری فرض شناسی کے بہت واقعات ملتے ہیں۔
بلکہ منصف خلافت پر فائز ہوتے ہی آپ کی شخصیت کی یہ اعلی خوبیاں سامنے آتی گئیں، جب اپ اپنے پیش رو خلیفہ عبدالملک بن سلیمان کی قبر پر مٹی ڈال کر واپس آرہے تھے تو اپ کو واپس لانے کے لئے سرکاری سواری اور پروٹوکول کا انتظام کیا گیاتھا
لیکن اپنے بڑی عاجزی سے معذرت کی اور کہا میرے لئے میرا خچر کافی ہے بلکہ اپنے آگے چلنے والےسیکورٹی گارڈ کمانڈر کو دیکھ کر کہا میرا ان سے کیا کام؟ میں تو اس امت مسلمہ کا ایک عام فرد ہوں جیسے دوسرے زندگی بسر کرتے ہیں ویسے ہی میں بسر کرتا ہوں
پھرآپ نے مسجد میں پہنچ کر اپنے خطاب میں بھی یہی کہا کہ لوگوں میری رائے کے بغیر مجھ پر خلافت کا بوجھ ڈال دیا گیا میری طرف سے آپ کو اجازت ہے کہ جسے چاہیں اپنا خلیفہ بنا سکتے ہیں لیکن سب نے اپ کو ہی خلافت کے لئے ترجیح دی اس موقع پر اپنے جو الفاظ بیان کیے وہ تاریخ ساز ہیں اور سمجھو کہ حکمران کے چناو کی کسوٹی اور پیمانہ ہے اپنے بڑے دلسوز رندھی آواز میں عاجزی سے فرمایا تھا کہ جو حکمران اللہ کا فرمانبردار ہو اس کا کہا مانو اور جو اللہ کا نافرمان ہو اسکی بات ماننا تمہارے لئے ضروری نہیں، لوگوں سنو جب میں اللہ تعالٰی کا فرمانبردار رہوں میری بات مانتے رہنا اور جب کبھی نافرمانی پر اتر اوں توتم میرے احکامات کو ٹھکرادینا، یہاں حکمران اور عوام دونوں کا اطاعت الہی کو ترجیح دینے کو اہم قرار دیا گیا
یہ وہ سنہری الفاظ ہیں جن کا اپنے تمام زندگی خیال رکھااور پاس رکھا کبھی کسی معاملے میں کوتاہی نہیں برتی ان جملوں سے یہ بھی واضح ہے کہ سیاست کو دین سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ہر بات ہر معاملے میں اپنے رب العالمین کی اطاعت لازمی ہے۔ اپنے اپنی اولاد پر بھی نظر رکھی کہ میرے اقتدار میں انے سے ان میں تکبر اور خود پسندی نہ اجائے کہ جس کی وجہ سے انکا رعایا کے ساتھ برتاو بدل جائے حالانکہ آپ کے ہی بچے نیک اور عبادت گزار تھے یہاں تک کہ آپ اپنے سب سے نیک اور صالح و عبادت گزار بیٹےپر بھی نظر رکھتے اور ان نصیحت کرتے رہتے کہ ان میں خود پسندی کی عادت نہ پیدا ہوجائےبیشک آپ نے حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کے خاندانی چشم وچراغ ہونے کا حق ادا کردیا تھا انہی خصوصیات کی بناء پر اپ کو عمر ثانی کہا جانا حق بجانب ہےکیونکہ یہی خوبیاں بحیثیت خلیفہ حضرت عمر رضی تعالٰی عنہ میں بھی موجود تھیں
میں یہ تحریر لکھتے ہوئے موجودہ دور کے حکمرانوں کا موازنا ان مسلمان حکمرانوں سےکر رہی تھی کیا پاکستان کے نصیب میں اس قسم کا حکمران نہیں ہوسکتا جو صرف ریاست اور عوام کے مفادات کو ترجیح دے
معذرت کے ساتھ آج کے حکمران مسلمان بن کر ملک کی باگ دوڑ کی ذمہ داری نہیں سنبھال رہے ہیں بلکہ اس فرض اہم کی طرف اپنا زاتی کاروبار سمجھ کر اتے ہیں اور بزنس مین بھی ایسے جو حلال حرام کی تمیز کئے بغیر صرف اپنا اور اپنی اولاد کا بھلا چاہتے ہیں انہیں عوام کی بھلائی سے کوئی سروکار نہیں اگر اس طرف کوئی مخلص اور دیانت دار شخص آگے بڑھنا بھی چاہتا ہے تو اسکے راستے میں کانٹے بچھا دیئے جاتے ہیں یہ صورتحال ملک اور عوام کی فلاح کے بالکل منافی ہے اور اس صورتحال میں عوام بھی برابر کی شریک ہے جیسی عوام ویسے حکمران۔
حکمران کو منتخب کرنے میں ہم بھی کسی حد تک قصور وار ہیں ,یا تو ایسے حکمرانوں اور عہدیداروں کے سامنے حسن بصری رحمت اللہ جیسے شخص کی ضرورت ہے جو ظالم وجابر گورنر عراق حجاج بن یوسف اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے بننے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے سامنے ڈٹ گئے تھے اور انکے ظلم سرکشی کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی جس پر اس زمانے میں آواز اٹھانا اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف تھا آج پاکستان کوبھی ایسی باہمت اور بلند کردار وعمل کے مالک عوام کی بھی اشد ضرورت ہے جو صرف ذہن میں خوف خدا کو رکھتے ہوئے ظلم کے خلاف اواز اٹھا سکیں اللہ رب ہم سب کو اور ہمارے حکمرانوں کو اللہ کی فرمانبرداری کرنے اور۔ رائے راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین