ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے

261

شعروادب کسی بھی عہد کاسب سے بڑا اور معتبر حوالہ ہے اس کے باوجود شاعری اور افسانوی ادب نے اس کا دعویٰ کبھی نہیں کیا،مگر کچھ قداور شعراء جمالیات،صداقت اور فن کی تمام تر یکجائی کے باوصف کسی خطے کسی جغرافیے کسی عہد کے اسیر نہیں ہوتے جس کی بڑی مثال عظیم شاعر علامہ اقبال ہیں ایک صدی بعد بھی ان کا کلام ویسے ہی تروتازہ ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس کی اب وتاب میں اضافہ ہی ہورہا ہے واضح رہے کہ یہاں مراد علمی اور ادبی حلقے ہیں سوشل میڈیا نہیں ۔

اقبال ہی کے شہر سیالکوٹ میں جنم لینے والے اور انہی کے استاد میرحسن سے شاگردی اختیار کرنے والے منفرد لب و لہجے کے شاعر فیض احمد فیض ہیں جنھوں نے ظلم و جبرکے خلاف انقلابی شاعری میں چیختے ہوئے نعرے کے بجائے ایک دھیمی رومانویت کو بڑی عظمت کے ساتھ منسلک کیا۔

شعری روایت کو قائم رکھتے ہوئے نئی تراکیب سے معنویت کاحق ادا کیا ۔اسی حسن اور صداقت کی یکجائی نے تمام اختلاف کے باوجود انھیں اقبال کے بعد دوسرا بڑا شاعر قرار دیا۔

انسانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں جس طرح جکڑ لیا گیا ایک طبقاتی کش مکش سامنے آئی وہ اس کے خلاف ایک توانااواز تھے ان کی شاعری امید کے نئے درکھولتی ہے۔ان کی معرکت الارہ نظمیں آج بھی مظلوم طبقات کے آنسو پونچھتے ہوئی ان کا ہاتھ تھامتی ہیں ان میں بیداری اور مزاحمت کی نئی روح پھونکتی ہیں خصوصاً یہ جو گزشتہ چند سال پہلے سے اب تک بھارت میں مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظلم ہوا جودرندگی برتی گئی تو مظلوموں کے پاس دعا اور احتجاج کے ہتھیار کے علاوہ ایک دھمکی نما اسلحہ بھی تھا یہ فیض صاحب چھوڑگئے۔

ہم دیکھیں گے ۔کورباطن دشمن طاقت کے نشے میں چور ہوکر بھی لرز گیا اور بلوے شروع ہوگئے مگر صدا گونجی کہ

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
پوری نظم ہرطرف گونج رہی تھی غور سے دیکھیں ایک سچا یقین بولتا ہے۔

یہ سورۂ نور کی ایک آیت کا یقین پکاررہا تھا کہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میںسے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا ۔

وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے

خاص طور پہ یہ

جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے

بھارت کے وحشیانہ بربری رویے اور آل سعود کی یہودنوازی پہ غم زدہ مسلمانوں کی اشک شوئی کرتی نظم نے انھیں حوصلوں کا جہان عطاکیا اور دشمن اس کی نغمگی سے خائف ہوتے گئے۔

یہ بےشک کلام پاک کی ترجمان نظم ہے

پھر شورش و بربط نے بول
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
تم یہ سمجھے ہو کوئی چارہ نہیں

پڑھ کر دیکھیے آپ بےفیض نہیں رہیں گے۔

اس کے علاوہ بھی کئی نظمیں اور غزلیں ہیں جن کے اشعار انفرادی اور اجتماعی اتار چڑھاؤ میں امید حوصلے اور عزم کے گیت گاتے ہوئے ہاتھ تھامتے ہیں ۔کئی بار دھاندلی سے گذرنے والوں کا حوصلہ بڑھانے کو غزل کا یہ شعر بہت کام آیا ہے

گربازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

جب بنگلہ دیش میں پاکستانیت کے جرم میں ظالم حکومت نے پھانسی کی سزادی
تو اسی غزل کا شعر ترجمان بن کر ہرجانب گونج اٹھا

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

یا

سر مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحان عشق کی تدبیر بسم اللہ
اور ہر بار المیہ مشرقی پاکستان پہ
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر کراچی کی بربادی میں
شورش وبربط نے
کی گونجتی دواوازوں کے سوال وجواب دیکھیے

جب خون جگر برفاب بنا جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں
اس دیدہء تر کا کیا ہوگا اس ذوق نظر کا کیا ہوگا
جب شعر کے خیمے راکھ ہوئے نغموں کی طنابیں ٹوٹ گئیں
یہ ساز کہاں سر پھوڑیں گے اس کلکِ گہر کا کیا ہوگا

مایوس ریزہ ریزہ ہوتے گروہوں میں جان سی پڑنے لگتی ہے اور فنی محاسن الگ کمال پہ نظرآتے ہیں۔ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ۔آزمائی ہوئی نظم آنسو پونچھتی ہے دھیرے دھیرے بتاتی ہے کہ جذبات کیاہیں ۔مگر اب تباہی کے بعد حوصلے سے اٹھ جاؤ اور آگ لگانے اور بجھانے والے گروہوں کو پہچان کر بجھانے والوں میں شامل ہوجاو چند روز اور میری جان جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں

فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اس سے آگے کہتے ہیں

لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

انقلاب کو رومانس میں ضم کرنے کا کارنامہ فیض نے انجام دیا
وہ ایک خاص طبقہء فکر کی وجہ سے متنازع رہے مگر شاعری پڑھیے تو تسلیم کرنے میں کیا بات ہے۔پھر کشادگی کے ساتھ اسلام پسند حلقوں نے انھیں سراہا بلکہ ان کے اشعار میں اپنا مدعا بیان کیا

متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
لبوں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
پرایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے

گویا جسم و زباں قید ہوجائے فکروشعور آزاد ہیں
وہ انسان کو آزادی اور عظمت کی سطح پہ دیکھنا چاہتے ہیں

آج بھی ظلم کے خلاف ڈٹ جانے اور محدود وسائل میں اندھیروں سے لڑنے کا حوصلہ بڑی خوبصورتی سے دیتے ہیں۔ آج کے حالات میں روشنی کی کوششیں کرتے اندھیروں سے لڑتے شہر کے لیے فیض صاحب کہتے ہیں۔

جس نور سے ہےشہر کی دیوار درخشاں
یہ خون شہیداں ہے کہ زرخانہء جم ہے
حلقہء کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہرچند کہ کم ہے

اعتذار

اسماء صدیقہ کے گزشتہ آرٹیکل ”علامہ محمد اقبال“میں لفظ ’’غلام‘‘ جو کہ متن کا حصہ تھا سرخی میں شامل ہو گیا اس سہو پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔

حصہ