گزشتہ ہفتے فیروزناطق خسرو کی رہائش گاہ ملیر کینٹ کراچی میں بہاریہ مشاعرہ تربیت دیا گیا جس کی مجلس صدارت میں ساجد رضوی اور عباس رضوی شامل تھے۔ ائر کموڈور (ر) رضوان ظفر مہمان خصوصی اور طارق جمیل مہمانِ اعزازی تھے۔ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض دیے۔ اشعال محسن نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ موسیٰ عابدی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ بزمِ ناطق بدایونی کے روح رواں فیرزناطق خسرو نے خطبۂ استقبالیہ میںکہا کہ ان کے والد ناطق بدایونی قادرالکلام شاعر و ادیب تھے وہ اپنی زندگی میں اپنا مجموعۂ کلام شائع نہیں کراسکے تھے میں نے اپنی نگرانی میں شعری مجموعہ شائع کرایا جس کی پزیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ بزم ناطق بدایونی ایک غیر سیاسی ادبی تنظیم ہے جس کے تحت ہم ہر ماہ باقاعدگی سے مشاعرے منعقد کر رہے ہیں۔ کئی شان دار پروگرام ہمارے کریڈٹ پر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری ہماری روحانی غذا ہے‘ مشاعرے بھی ہماری ذہنی آسودگی کا حصہ ہیں شعرائے کرام ہر معاشرے میں عروج و زوال کے ذمہ داروں میں شامل ہیں اس وقت دبستانِ کراچی میں بہت شان دار شاعری ہو رہی ہے غزل کے مروجہ مضامین کے ساتھ ساتھ جدید لفظیات و استعارے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ائر کموڈر (ر) رضوان ظفر نے کہا کہ مشاعرے بھی مشرقی تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں یہ ادارہ ہر زمانے کی ضرورت ہے وقت و حالات کے ساتھ ساتھ شاعری کے مضامین وعنوانات بدلتے رہتے تھے شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے‘ وہ اپنے ماحول پر گہری نظر رکھتا ہے اور زندگی کے ہر مسائل پر قلم اٹھاتا ہے لوگوں کو فکر و آگاہی سے روشناس کراتا ہے۔ آج کے مشاعرے میں کراچی کے بہت سے اہم شعرا شریک ہیں ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام پیش کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کی ہم فیروز ناطق خسرو کے ممنون و شکر گزار ہیںکہ انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر خوب صورت تقریب سجائی اور ہم مشاعرے سے لطف اندوز ہوئے۔ طارق جمیل نے کہا کہ شعر و ادب کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہو کر اردو کو سرکاری حیثیت دلوائیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ شاعری کی ترقی کا سفر جاری ہے اس وقت بھی شعرائے کرام زندگی سے بھرپور شاعری کر رہے ہیں۔ عباس رضوی نے کہا کہ اردو غزل وہ صنفِ سخن ہے جو کہ ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے اس میں نئے نئے تجربات ہوتے رہتے ہیں آج کل جدید غزل کا زمانہ ہے‘ آج کے مشاعرے میں بھی بہت سی نئی اصطلاحات اور استعارے سامنے آئے ہیں‘ یہ مشاعرہ بہت کامیاب ہے جس کا سہرا فیروز ناطق خسرو کے سر ہے۔ مشاعرے میں ساجد رضوی‘ عباس رضوی‘فیروز ناطق خسرو‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ یاسر سعید صدیقی‘ ضیا حیدر زیدی‘ شاہد علی اور تاجور شکیل نے اپنا کلامِ نذر سامعین کیا۔
ادبی تنظیم شہ نشین کا مذاکرہ اور مشاعرہ
ادبی تنظیم شہ نشین نے مذاکرے اور مشاعرے کا اہتما م کیا۔ ڈاکٹر نثار مہمان خصوصی تھے۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے میں ’’کسی شاعر کی سنیارٹی کس طرح طے کی جائے‘‘ کے عنوان پر مذاکرہ ہوا جس میں تنویر سخن نے کہا کہ سنیارٹی فکس کرتے ہوئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کب سے شاعری کر رہا ہے۔ یاسر سعید صدیقی نے کہا کہ سنیارٹی طے کرتے ہوئے شاعر کی عمر‘ اس کا اسلوب اور شاعری کی عمر دیکھتے ہیں۔ سرور چوہان نے کہا کہ کسی بھی شاعر کی سنیارٹی کے ہم اس کے منصب اور عہدے کا بھی لحاظ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نورسہارن پوری نے کہا کہ فی زمانہ بہت سی ادبی تنظیمیں ایسے شعرا کو بھی مشاعرے کا صدر بنا لیتی ہیں جن سے کچھ مالی مفادات وابستہ ہوں اس طریقۂ کارکو ختم ہونا چاہیے۔ انجم جاوید نے کہا کہ وہ طویل عرصے سے شاعری کر رہے ہیں ان کا مشاہدہ ہے کہ شاعر کی سنیارٹی کے لیے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس قسم کا کلام کہہ رہا ہے۔ مقبول زیدی نے پروگرام کی نظامت کے ساتھ ساتھ خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ شہ نشین ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جو تواترکے ساتھ ادبی پروگرام مرتب کر رہی ہے ہم مشاعرے سے پہلے مذاکرہ بھی رکھتے ہیں تاکہ مکالمے کی شکل میں کوئی بات طے ہو جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زبان و ادب کی عروج میں ہم بھی شریک ہوں۔ آج کا موضوع ہر دور میں زندہ رہتا ہے تقدیم و تاخیر کے مسائل سے ادبی ماحول متاثر ہوتا ہے۔ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ سنیارٹی فکس کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ وہ کب سے مشاعرے پڑھ رہا ہے یہ نہیں دیکھا کہ وہ کب سے شعر کہہ رہا ہے‘ وہ کیسے اشعار کہہ رہا ہے اس سے سنیارٹی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ صدر مشاعرہ نے کہا کہ کراچی کے ادبی منظر نامے میں سنیارٹی کا مسئلہ بہت تکلیف دہ ہے‘ یہ مسئلہ طے نہیں ہو رہا جب کہ متشاعر اور متشاعرات کا جھگڑا بھی موجود ہے۔ مذاکرے کا بعد مشاعرہ ہوا جس میں صاحب صدر‘ مہِمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کی علاوہ فیاض علی فیاض‘ زاہد حسین جوہری‘ انجم جاوید‘ جمال احمد جمال‘ آسی سلطانی‘ مرزا عاصی اختر‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ ڈاکٹر نور سہارن پوری‘ سرور چوہان‘ شبانہ شابی شہاب‘ کاوش کاظمی اور ہما ساریہ نے اپنا کلام پیش کیا۔