جمہوریت کے اسٹیج پر کٹھ پتلی تماشا

364

برصغیر کے عوام یورپ، امریکا اور جاپان سے درآمد شدہ اشیا کو نہ صرف بے حد پسند کرتے ہیں بلکہ ان کے پیچھے دیوانہ وار لپکتے بھی ہیں اور اپنے معیار زندگی کو اعلیٰ و ارفع سمجھتے ہیں۔

صدیوں سے پوری دنیا میں بادشاہت کا ظالمانہ نظام قائم تھا مگر کچھ سلاطین اور بادشاہ نہایت ہی رعایا پرور اور انصاف پسند گزرے ہیں جن کی مثالیں تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی ہیں۔ یورپی عوام صدیوں سے بادشاہت اور پاپائیت کی چکی میں پس رہے تھے۔ عوام میں ان کے خلاف لاوا پک رہا تھا۔ مذہب بے زاری کے ساتھ ساتھ بادشاہت پر بھی حد درجہ غم و غصہ موجود تھا۔

فرانس کے انقلاب اور صنعتی انقلاب سے یورپی اقوام کو بیک وقت دونوں مظالم سے آزادی ملی۔ لہٰذا ایک نئی طرزِ حکمرانی وجود میں آئی جو براہِ راست عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل تھی جسے ’’جمہوریت‘‘ کا نام دیا گیا۔ گو کہ دوسری عالمی جنگ تک برطانیہ کا سکہ چلتا تھا، لہٰذا برطانیہ نے اس نظامِ حکمرانی کو اپنے زیر تسلط ممالک میں رائج کرنا شروع کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے بعد ان دونوں ملکوں میں یہ طرزِ حکمرانی قائم ہوئی۔ آج ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ امریکا، یورپ اور تیسری دنیا میں یہ جمہوری طرزِ حکمرانی ہے، مگر پاکستان کی جمہوریت ہمیشہ سے دیگر اقوام کی نظروں میں مشکوک رہی ہے۔ گو کہ جمہوریت دیگر اشیائے ضروریہ کی طرح ایک پُرکشش امپورٹڈ طرزِ حکمرانی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے درست کہا کہ

اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا جو کہ بر صغیر کے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔

اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں یہ سحرِ فرنگیانہ
تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہلِ نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

یہ مدینہ کی پَرتو ریاست شروع دن سے کالے انگریزوں کی اولادوں کی سازشوں کا شکار رہی۔ جو جرنیل میسر ہوئے انہیں بھی انگریزوں کی کاسہ لیسی پسند تھی اور آج تک ہے۔ قائداعظم جو کہ اپنی لاعلاج بیماری کو مخفی رکھے ہوئے تھے اور ڈاکٹر کے مطابق ان کی زندگی کا چراغ کسی وقت بھی گُل ہوسکتا تھا اور ہوا بھی یہی، 11 ستمبر 1948ء کو انہیں دنیا سے پراسرار طریقے سے اللہ کے پاس بھیج دیا گیا۔ اُس دن سے آج تک جمہوریت اور آمریت کا سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ اور ایک بار پھر ’’شفاف انتخابات‘‘ کے نام پر اگلے سال فروری کی سرد ہواؤں میں قوم کو امیدوں کی چکی میں پیس کر باقی ماندہ لہو نچوڑا جائے گا۔

سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں ہارنے والا صرف کھلاڑی ہے کے مصداق ہر بار عوام ہار جاتے ہیں اور جرنیل کے مہرے کٹھ پتلی کی طرح دو چار سال سیاسی ناچ دکھا کر اپنا معاوضہ وصول کرکے نئی چنری، نئے نام اور رنگ برنگے پرچموں کے ساتھ جرنیلوں کے حسبِ منشا جمہوریت کے اسٹیج پر عوام کو محظوظ کرنے کے لیے آجاتے ہیں۔

یہ تماشا 1954ء سے شروع ہے جب اسکندر مرزا (غدارِ ملّت اور انگریزوں کے دلال میر جعفر کا پڑ پوتا) نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا۔ جمہوریت ابھی نوزائیدہ بچے کی طرح پاؤں پاؤں ہی چل پائی تھی کہ ایک زوردار طمانچے کے بعد گھر بھیج دی گئی۔ جرنیل کا صبر جواب دے گیا اور ایوب خان 1956ء میں آئین معطل کرکے اقتدار پر قابض ہوگیا اور غدار ابنِ غدار اسکندر مرزا کو اُس کے حقیقی آقا برطانیہ میں جلا وطن کردیا گیا۔ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘

ایوب خان کا اقتدار 1969ء تک قائم رہا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی اور اسی کی نرسری میں پلنے والے ذوالفقارعلی بھٹو کی شمولیت کے بعد اس جرنیل نے انتخابات کرانے کے بجائے اقتدار ایک بدترین اور بدکردار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی چھ نکاتی تحریک زوروں پر تھی جو دراصل ملک توڑنے کا ایجنڈا تھا۔ اسی ہما ہمی میں ستمبر 1970ء میں انتخابات ہوئے اور یحییٰ خان اور بھٹو کی ملی بھگت اور مجیب الرحمن کے بھارت سے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ 90 ہزار فوج ہتھیار ڈال کر ملت کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے رسوائی کا داغ لگا گئی، مگر تمام تحقیقات اور حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کے باوجود قومی مجرمان معتبر ٹھیرے۔

باقی ماندہ ملک کے اقتدار پر قابض ہوکر بھٹو سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر بن گئے اور گسٹاپو کی طرز پر ملک چلانا شروع کیا۔ انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ 1977ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے نتیجے میں بھٹو کے خلاف تحریک شروع ہوئی، پھر بھٹو حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوئے، ابھی معاہدہ ہونے ہی والا تھا بلکہ تقریباً ہوچکا تھا کہ جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر شب خون مارتے ہوئے ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگا دیا اور 90 دنوں میں انتخابات کروانے کا وعدہ کرکے گیارہ سال اقتدار پر قابض رہے۔

افغانستان میں روسی مداخلت اور اس کے خلاف امریکا، مسلم دنیا اور پاکستان کے اشتراک سے مجاہدین کے روس کے خلاف جہاد میں پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ 1985ء میں انتخابات کے بعد جرنیلی سرپرستی میں جونیجو لیگ کی حکومت قائم ہوئی۔ روس کے ساتھ فوجی پالیسی کے برخلاف وزیراعظم جونیجو کے معاہدے نے ضیا الحق کو اس بات پر مجبور کیا کہ ان کی حکومت تحلیل کردی جائے۔ پاکستان میں تخریب کاری اور روس کی پسپائی نے امریکی پالیسی کو نیا رُخ دیا اور ضیا الحق 17 اگست 1988ء کو جرنیلوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ دنیا سے رخصت کردیے گئے۔

جب نئے چیف نے بے نظیر بھٹو کے گھر جاکر ان کے ہاتھوں سے بنی چائے پی اُسی وقت سے پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنائے جانے کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں، اور ہوا بھی یہی… بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنادی گئیں۔ جمہوریت کے اسٹیج پر سیاسی کٹھ پتلیاں نچانے والوں کے اشارے پر ناچتی رہیں اور پھر کھیل ختم پیسہ ہضم کے مصداق 6 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ دی اور پیپلزپارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اب جمہوری تماشے کے لیے نیا کردار جو ضیا الحق کی نرسری میں پل بڑھ کر جوان ہوا تھا، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کی صورت میں اسٹیج پر آیا۔ 1990ء تا 1993ء پھر 1997ء تا اکتوبر 1999ء نوازشریف وزیراعظم رہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویزمشرف نے شب خون مارا اور مارشل لا لگا کر صدر بھی بنے۔ انہوں نے 9/11 کے بعد امریکا کو افغانستان میں جارحیت کے لیے پاکستان کا سب کچھ حوالے کیا۔ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کی صورت میں دینی جماعتوں کا اتحاد وجود میں لایا گیا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس سے قبل 27 دسمبر 2007ء کو پنڈی میں بے نظیر بھٹو کو قتل کیا جا چکا تھا جن کے قاتل آج بھی ’’نامعلوم‘‘ ہیں۔ پرویزمشرف نے جامعہ حفصہ میں جو قتل عام کیا اس نے پورے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا اور تخریب کاری کی ایک نئی لہر، ملکی تنصیبات پر حملوں اور TTP کے خلاف فوجی آپریشن، پھر عدالتی بحران کے بعد پرویزمشرف کے خلاف وکلا تحریک، کراچی میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے استقبال کے لیے نکلنے والے سیاسی کارکنوں اور وکلا کے ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے ذریعے قتل نے پرویزمشرف کو استعفیٰ دے کر گھر جانے پر مجبور کردیا۔

مگر یہ سوچنا بے وقوفی ہوگی کہ جرنیلوں کی گرفت کمزور ہو گئی تھی۔ نہیں، بالکل نہیں۔

پھر 2013ء کے انتخابات، نوازشریف کا برسراقتدار آنا اور جرنیلوں کو آنکھ دکھانا تھا کہ پہلے سے تیار مہرے عمران خان کی حکومت کے خلاف اچھل کود شروع ہوگئی۔ پھر کیا تھا، ایک برانڈڈ مولوی طاہرالقادری کے ساتھ مل کر 2014ء میں اسلام آباد کا طویل ڈسکو ڈانس والا دھرنا شروع ہوا، ہر طرف عمران خان کی جانب سے ’’چور ہیں چور ہیں، نواز اور زرداری چور ہیں…‘‘ کی صداؤں کے بیچ پاناما لیکس کا پنڈورا باکس کھلا، اقامہ کیس میں نوازشریف کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا اور وہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالتی جارحیت کے تحت عمر بھر کے لیے نااہل ہوگئے۔ یہ جرنیلوں کی سیاست کا ایسا کرشمہ تھا کہ دنیا تھو تھو کرنے لگی۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے تمام سیاسی لوٹوں اور رسّاگیر سیاست دانوں کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی، مگر ایک بار پھر:

اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتا ہے، ادب بکتا ہے، فن بکتا ہے
ملاؤں کے سجدے بکتے ہیں
پنڈت کے بھجن بک جاتے ہیں

کے مصداق طیارے بھر بھر کے منتخب لوٹے لائے گئے اور لاڈلے کی حکومت بنائی گئی۔ پھر کیا تھا، ہر وعدے کا جنازہ اس طرح نکلا کہ غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔
ان حالات میں بین الاقوامی تنہائی کے خطرات بڑھتے چلے گئے۔ لاڈلے کے نخروں نے لانے والوں کے کان گرم کرنے شروع کردیے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بکھری ہوئی بے جان اپوزیشن میں جان ڈال کر پی ڈی ایم کی صورت میں ’’ملک بچائو‘‘کے عنوان سے عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور لاڈلے کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ جرنیلوں کا سیاسی تماشا دیکھ کر دل یہی کہتا ہے:

آپ پوچھتے ہیں کہ درد کہاں ہوتا ہے
ایک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہوتا ہے

9 مئی کے واقعے نے تو ریاست کو اس طرح بے توقیر کیا کہ اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

جرنیلوں کی نرسری میں کنونشن لیگ، جونیجو لیگ، نواز لیگ، قائد لیگ، مشرف لیگ، آئی جے آئی، پی ڈی ایم اور اب استحکام پاکستان پارٹی جیسے سیاسی بلونگڑے اور کٹھ پتلیاں وجود میں آتی ہیں اور انتخابات کا ڈراما رچایا جاتا ہے۔ یہ ڈراما ایک بار پھر 8 فروری 2024ء کو ہونے والا ہے۔ دیکھیے اس بار نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کی حکومت کس طرح کا سرکس دکھا کر بنائی جائے گی اور اس میں آئی ایم ایف کا کردار کتنا ہوگا۔

بنگلہ دیش بن جائے، سیاچن پر قبضہ ہوجائے ، کارگل کے پہاڑوں پر پاکستانی فوج کی لاشیں حنوط ہوجائیں، کشمیر کا سودا ہوجائے مگر ماتھے پر شکن نہ آئے۔ نہ غیرت جاگے نہ ہوش آئے، اور عالمی بساط پر چاہے جتنی جگ ہنسائی ہوجائے، مگر اقتدار پر قبضہ برقرار رہے ملک جائے بھاڑ میں… اللہ اللہ خیر صلا۔

حصہ