سوشمل میڈیاپر ہلچل

263

ملیر کینٹ جماعت اسلامی کی فتح:
ٹوئٹر پر ’ملیر کینٹ جماعت اسلامی کی فتح‘ کا ٹاپ ٹرینڈ یہی پیغام دے رہا تھا کہ کراچی میں جماعت اسلامی نے ایک مرتبہ پھر ضمنی انتخاب میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ عوامی حمایت کو بھی اپنی جانب متوجہ کرکے دکھادیا۔ یہ انتخاب جماعت اسلامی ہی کے ممبر ملیر کینٹ کے اچانک انتقال کے بعد خالی ہونے والی نشست کے لیے ہوا تھا۔ یہاں جماعت اسلامی، پاکستان پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار کے درمیان کڑا مقابلہ ہوا۔ یہ انتخاب ورکنگ ڈے میں ہوا تھا۔ پھر ملیر کینٹ کی ایلیٹ کلاس کا ووٹ کے لیے نکلنا، پھر جماعت اسلامی کا ساری سرکاری مشینری کو شکست دے کر کامیاب ہوجانا… یہ سب معنی رکھتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے اس کامیابی پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھاکہ ’’الحمدللہ! جماعت اسلامی نے کراچی ملیر کینٹ کا میدان مار لیا۔ ملیرکینٹ کے ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی کے امیدوار میجر زبیر کی ڈبل مارجن سے فتح۔ پہلے نمبر پر جماعت اسلامی، دوسرے پر آزاد امیدوار اور تیسرے پر پیپلزپارٹی‘‘۔کراچی کی سیاست پر ویسے بھی مختلف سائے منڈلا رہے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان مسلسل جلسوں کی گرمی سے اپنے ووٹ بینک کو جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے، وہ نون لیگ سے اتحاد کا صاف پیغام دے چکی ہے۔ نون لیگ کو کس نے پیغام دیا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جماعت اسلامی نے البتہ شہر بھر میں بینرزآویزاں کرکے کراچی کی سطح پر صاف بیانیہ دے دیا ہے کہ کراچی کی تباہی کے اصل ذمہ دار ایم کیو ایم، پی پی اور نون لیگ ہی ہیں۔

بے شرم گھٹیا ٹرینڈ:
تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے جیو نیوز کے اینکر شاہزیب خانزادہ اور میر شکیل کے خلاف چار دن تک سوشل میڈیا پر سخت مہم جاری رہی۔ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے ساتھ شاہزیب نے ایک انٹرویو نشر کردیا۔ اس انٹرویو میں عمران خان، خاور، بشریٰ کے ساتھ ساتھ فرح گوگی اور اس کے شوہر کے نجی معاملات ڈسکس کیے گئے۔ اس وجہ سے سخت ترین ردعمل آیا، گالم گلوچ سمیت تمام حربے اپنائے گئے۔ شاہزیب کو اس سے کیا فرق پڑنا تھا مگر عمران کے چاہنے والوں کو بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ’’سیاسی خدائوں‘‘کے حوالے سے رائے بدلنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ’عبادت‘ وہ کسی اور ہی کیفیت میں کرتے ہیں، اور اس بات سے بے پروا ہوتے ہیں کہ ان کا لیڈر کیا ہے؟ کیسا ہے؟کیا کرتا ہے؟ نہ اِس بنیاد پر وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں، نہ وہ ان کو اس لیے ساتھ رکھتا ہے۔ جواب میں نون لیگ نے جبران اسکینڈل متعارف کرا دیا۔ اس کے بارے میں بھی ٹرینڈ بنادیا گیا تاکہ بات بیلنس ہوسکے۔ ’’تحریک انصاف ایک بار پھر بری طرح سے ایکسپوز ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ہیڈ سی آئی اے کا ایجنٹ نکلا۔ یہ تو کہتے تھے کہ حکومت امریکا نے گرائی ہے، اور ان کا ہی سوشل میڈیا ہیڈ امریکی سی آئی اے کے لیے کام کررہا تھا۔‘‘عمران خان کی مقبولیت سوشل میڈیا پر اب بھی زندہ اور کھڑی نظر آرہی تھی۔ عین ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن سے تحریک انصاف میں فوری انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ اس لیے کرایا گیا ہو تاکہ اس میں ناکامی کو وجہ بناکر بلے کا نشان فروری الیکشن میں حذف کردیا جائے۔ سوشل میڈیا پر مستقل تجزیوں میں یہی سوال اشاروں کنایوں میں ڈسکس ہوتا رہتا ہے کہ عمران کو اس الیکشن میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ حامد میر کے ساتھ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی عمران خان کی 2028ء تک حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کا انکشاف کیا، اب ظاہر ہے کہ اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے عمران کو بالکل بھی گنجائش نہیں دی جائے گی، تبھی مقصد پورا ہوگا۔

چینی سینی سائزیشن:
غزہ میں مسلمانوں پر بمباری کی خبروں کے درمیان موقع پاکر دیگر مقامات بھی توجہ پانے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ نہ سوچا جائے کہ صرف غزہ میں ہی مسلمان مر رہے ہیں۔ روہنگیا سے لے کر شمالی چین تک مسلمان ظلم کا ہی شکار ہیں۔ ہمیں لگا کہ غزہ مجاہدین کی کامیابی کی خبروں سے خوف زدہ چین نے سینی سائزیشن مہم تیز کردی، چین کے شمالی علاقوں میں سیکڑوں مساجد کو بند کرانا شروع کردیا۔ مسلمانوں کو جبری طور پر دین سے دور کرنے کی مہم چینی حکومت کی سرپرستی میں جاری ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سنکیانگ کے بعد صوبہ گانسو اورننگشیا میں حکام نے سیکڑوں مساجد بند یا ان کی عمارات تبدیل کردی ہیں۔ یہ سب کام چینی ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر کیا جارہا ہے۔ مساجد کے نقش و نگار، گنبد، مینار سے ظاہر ہونے والی تہذیب سے چین کو تکلیف لاحق ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے طویل عرصے سے چین کی مذہبی اقلیتوں پر اپنی مضبوط گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ چین نے 2016ء سے سینی سائزیشن کی مہم شروع کی ہوئی ہے، جس کا مطلب تمام مذہبی گروہوں کو اپنے عقائد، رسوم و رواج اور اخلاقیات سے دست بردار کراکر چینی ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ اس مہم کی وجہ سے دوکروڑ کے قریب مسلمانوں کو بدترین مذہبی تشدد کا سامنا ہے۔ اب آپ انتہائی مضحکہ خیز بات دیکھیں کہ بی بی سی لکھ رہا ہے کہ ’’ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ میں چینی حکام پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مسجدوں کو بند اور تباہ کرنے کے علاوہ عبادت گاہوں کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ اقدام چین میں اسلامی تعلیمات کو روکنے کی ایک ’’منظم کوشش‘‘ کا حصہ ہے۔‘‘ چین سرکاری طور پر کسی خدا پر یقین نہیں رکھتا لیکن اس کا کہنا ہے کہ ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی حاصل ہے، مگر وہ یہ سب چینی روایت و تہذیب کے اندر رہ کر کریں گے۔ یہ والا قانون 2016ء میں متعارف کرایا گیا۔ سوشل میڈیا پر ان مباحث کو چین یہ کہہ کر زائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ ساری خبریں چین کو بدنام کرنے کے لیے امریکا، اُس کے حلیف و سی آئی اے وغیرہ پھیلاتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکا اتنا بدنام ہے کہ اُس کی بات نہیں ماننی چاہیے، مگر ایسا کرنے کے لیے تو اس کی باقی خبروں کو بھی رد کرنا ہوگا نا؟ اب چین اپنی پریس ریلیز جاری کرتا ہے، کسی کو سچ تک رسائی دیتا ہی نہیں تو کیسے چین کا بیانیہ مان لیا جائے!

نیدرلینڈ سے بری خبر:
ملعون کی ٹوئٹ دیکھ کر اچھا نہیں لگا، مگر بتانا بھی ضروری ہے۔ نیدرلینڈ کے انتہائی متعصب، اسلام مخالف ملعون گیرٹ وائلڈرز نے نیدرلینڈ کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرلی۔ یورپی سیاسی تجزیہ کاروں نے اس کامیابی کو جنگِ عظیم دوم کے بعد نیدرلینڈ میں پہلا سیاسی زلزلہ قرار دیا ہے جو ملک کی سرحدوں سے باہر تک محسوس کیا جائے گا۔ 60 سالہ ملعون گیرٹ وائلڈرز کی ساری سیاست نفرت اور تعصب پر کھڑی نظر آتی ہے۔2004ء سے اس نے اسلام کو ہدف بنانا شروع کیا اور تعصب پر مبنی سیاست شروع کی۔ خاکوں اور اس کے مقابلے کے پیچھے یہی ملعون شخص تھا۔ اس نے اِس بار بھی اپنی انتخابی مہم میں قرآن پاک پر پابندی لگانے اور مساجد کو بند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔گزشتہ الیکشن 2021ء میں اس کی پارٹی 17سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی مگر اب 150 میں سے 37 سیٹیں جیت کر گیرٹ نے سب سے نمایاں پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ 2023ء میں امیگریشن معاملات پر نیدرلینڈزکابینہ ختم کردی گئی اور سابق وزیراعظم نے سیاست سے ہی ریٹائرمنٹ لے لی تھی، اس لیے یہ الیکشن قبل از وقت منعقد کیے گئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گیرٹ کسی کلیدی منصب پر آئے گا تو اس کے اثرات دنیا بھرمیں محسو س ہوں گے۔ اس ملعون کے نہ صرف سر کی قیمت، بلکہ سر قلم کرنے کے فتوے بھی جاری ہوچکے ہیں۔

شیخ کا خط اور امریکی تھرتھراہٹ:
کون سوچ سکتا ہے کہ قلندر اقبال ؒ کی یہ بات کس کس طرح حقیقت بن کر اُبھرتی رہے گی:

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

اقبال کے کلام میں جا بجا آپ کو یہ اوصافِ ایمانی قوت کے ساتھ نظر آئیں گے۔ میں نے ٹوئٹر پر جب ٹاپ ٹرینڈ میں letter to America اور اسامہ بن لادن کو دیکھا تو حیرت ہوئی کہ یہ کہاں سے آگئے، سب خیر تو ہے! جاکر دیکھا تو خوب لطف آیا۔ وہ امریکا جو دنیا کا طاقتور ترین ملک کہلاتا ہے، جو شیخ کی شہادت کا منظر لائیو دیکھتا ہے، تسلی کرتا ہے، پھر دنیا کو بتاتا ہے، وہ 21 سال قبل لکھے گئے ایک خط کے متن سے اتنا ہیبت زدہ ہے کہ رائی سے بھی چھوٹا ہوچکا ہے۔ شیخ نے یہ کھلا خط امریکا کے نام 2002ء میں لکھا تھا، جس کا ایجنڈا امریکہ کی اسرائیل حمایت پر سخت تنقید تھا۔ سی این این یہ سرخی لگا رہا ہے کہ ’’TikTok پر کچھ نوجوان امریکی کہتے ہیں کہ وہ اسامہ بن لادن سے ہمدردی رکھتے ہیں‘‘۔ مگر وہ یہ مانتا ہے کہ یہ ’’کچھ‘‘کتنے ہیں۔ ڈیلیٹ ہونے سے قبل تک وہ خط ٹک ٹاک پر کوئی 15 ملین ناظرین تک رسائی لے چکا تھا۔ یہ خط ٹک ٹاک پر جاری ہوا، گو کہ یہ چینی کمپنی ہے مگر شیخ کے معاملے میں اُس نے بعینہٖ امریکی پالیسی کو اپنایا۔ میں جانتا ہوں کہ ٹک ٹاک اس سے قبل کئی مرتبہ امریکی مفادات کے خلاف اور چینی مفاد میں کھل کر کام کرچکا ہے، یہاں تک کہ امریکا میں اس ایپلی کیشن پر پابندی تک کی بات ہوچکی ہے۔ اس کے بعد ہی ٹک ٹاک نے امریکا نوازی کا سلسلہ شروع کیا۔ یاد رہے کہ ٹک ٹاک اس وقت عالمی سطح پر سب سے مقبول پلیٹ فارم بن چکا ہے (امریکا میں بھی)۔ TikTok نے انتہائی دفاعی مؤقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس خط کو فروغ دینے والا مواد واضح طور پر دہشت گردی کی کسی بھی شکل کی حمایت کرنے سے متعلق ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رپورٹس غلط ہیں کہ یہ پلیٹ فارم پر ’’وائرل‘‘ تھا۔

بظاہر اس خط میں ان سوالات کے صاف اور واضح جواب تھے کہ ’’ہم آپ سے کیوں لڑتے ہیں، کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ ہم آپ کو کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں، اور ہم آپ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ خط کا متن دی گارجین کی ویب سائٹ پر بھی تھا، اُنہوں نے بھی اس کو وہاں سے یہ بیان دے کر ہٹا لیا۔

یعنی تین عالمی طاقتوں کو 12 سال قبل کے ایک خط نے اتنا خوف زدہ کیا کہ لوگوں نے اس کو پڑھ لیا تو اُن کے مطابق لازمی وہ ’’دہشت گردی‘‘ پھیل جائے گی جس کو امریکا دہشت گردی کہتا ہے۔ جن لوگوں نے خط کو پڑھا اور اس پر اپنے احساسات دیے، ان کی ایک 5 منٹ کی وڈیو صحافی یشر علی نے ٹوئٹر پر شیئر کی جس کو اب تک 38 ملین ویوز مل چکے ہیں۔ لوگوں نے صاف کہاکہ اس خط نے امریکا کے جھوٹے دعووں اور اسرائیلی جارحیت و ظلم کا پردہ چاک کیا ہے، جو آج ہم خود بھی دیکھ رہے ہیں۔

ان کے سارے اسٹرے ٹیجک ادارے یہ بتا رہے ہیں کہ اس خط کے بعد تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس خط کی تلاش میں 400 گنا تک اضافہ ہوا ہے۔اب آپ خود بتائیں کہ میں پہاڑوں کو سمٹ کر رائی بن جانا نہ کہوں تو کیا کہوں!ایک ایسا بیانیہ جسے آپ 23 سال سے پیٹ رہے ہیں، وہ ایک معمولی سے خط کے الفاظ سے تب ہی زائل ہو سکتا ہے جب اس کے پیچھے ایمانی قوت ہو، ہمارا تو عقیدہ ہے کہ شہید کبھی مرتا ہی نہیں، اور وہ جو امریکا کے ہاتھوں ماراجائے اس کی شہادت کے کیا کہنے۔

اچھا ایک بات اور… یہ جو برکات نظر آئی ہیں، ان کے پیچھے 12 ہزار شہدائے غزہ کا بھی وزن شامل ہے۔ دنیا نے لبرل ازم، انسانی حقوق، مساوات سمیت تمام باطل نظریات کا دجل و ابطال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔غزہ میں اسرائیلی جارحیت، امریکی پشت پناہی، اقوام متحدہ کی خاموشی، معصوموں کے لاشے، دنیا بھر میں شدید ردعمل کی فضا… یہ سب بہرحال اپنا وزن رکھ رہے ہیں۔ امت کے لیے وہی پیغام ہے جو شیخ نے اپنی زندگی میں بھی یاد دلایا اور آج 21 سال بعد حماس کی صورت یاد دلایا۔ بس یہی اصل بات ہے کہ آپ لڑرہے ہو یا نہیں، اور لڑ رہے ہو تو کس گروہ کے ساتھ ہو؟

بائیکاٹ مہم اور اسرائیل سے بدلہ:
پاکستان کے معروف کالم نگار، سینئر صحافی انصار عباسی نے اسرائیل سے بدلہ لینے کی جانب متوجہ کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل اور امریکا اپنی جنگی جارحیت میں 46 دن بعد بھی اپنا اعلان کردہ کوئی ایک نتیجہ حاصل نہیں کرسکے۔ دنیا بھر سے اسرائیل کے خلاف احتجاج و نفرت کی صدائیں ہی بڑھی ہیں۔ ایسے میں اسرائیل اور اُس کے ساتھیوں کومعاشی نقصان پہنچانا عالم اسلام میں مستقل موضوع بنا ہوا ہے۔ انصار عباسی نے اسلامی ممالک کی حکومتوں کے مایوس کن رویّے کو نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کو اسرائیل کو معاشی نقصان پہنچاکر بدلہ لینے پر ابھارا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی جانب سے اس معاملے کو مسلم فرنچائزر کے مالی نقصان کے بجائے ایمانی غیرت سے تشبیہ دے کر تذبذب کا شکار لوگوں کے لیے یہ مسئلہ سرے سے ختم کردیا۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلے کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو؟

حصہ