فلسطین اور مغرب

351

فلسطین دنیا کے دو بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں ہوچکی ہیں۔ اس مسئلہ نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ذہن اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس مسئلے نے مسلمانوں اور مغرب کے تعلقات کو زہر آلود کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عام طور پر اس مسئلے کو عرب اسرائیل تنازع کہا جاتا ہے مگر اس مسئلے کا ایک اور فریق بھی ہے۔ یہ فریق مغربی دنیا ہے۔ اس کی وجہ ہے۔

اسرائیل علامہ اقبال کے انتقال کے بعد وجود میں آیا مگر اس کے قیام کی سازش علامہ اقبال کی زندگی میں بھی موجود تھی چنانچہ اقبال نے کہا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں مغرب کی ایک فوجی چوکی کے سوا کچھ نہیں ہے اور اقبال کی یہ بات سو فی صد درست تھی۔ مغربی طاقتیں دنیا کے نقشے کو ایک کیک یا ایک میدان جنگ کے طور پر دیکھتی ہیں اور انہیں مشرقی وسطیٰ پر اثر انداز ہونے کے لیے ایک ایسی ریاست کی ضرورت تھی جو ان کے مفادات کے تحفظ کا کام کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے اسرائیل کے قیام کی صہیونی سازش میں صہیونیوں کا ساتھ دیا۔ اس سلسلے میں مغرب کے کردار کو عام طور پر ’’مجرمانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس مجرمانہ کردار کی نوعیت اتنی ہول ناک ہے کہ اس کے لیے لفظ مجرمانہ کم پڑتا ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے۔

اس بات کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان کو ہر فعل کے لیے ایک اخلاقی جواز کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا یہ فعل اخلاقی نہ ہو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن اسرائیل کے قیام کا کوئی اخلاقی جواز موجود نہ تھا۔ فلسطین عربوں کی ملکیت تھا اور وہ ڈھائی ہزار سال سے اس کے مالک چلے آرہے تھے۔ لیکن یہودی اس کے باوجود فلسطین کے مالک بن بیٹھے۔ یہاں کہ فلسطین کے حقیقی مالک قابض نظر آنے لگے اور قابضین نے حقیقی مالک کی صورت اختیار کرلی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی ابہام موجود نہ تھا مگر اس کے باوجود اہلِ مغرب نے کھل کر یہودیوں کا ساتھ دیا۔ چنانچہ اسرائیل کے قیام کے جتنے ذمہ دار یہودی ہیں اتنے ہی ذمہ دار اہل مغرب ہیں۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ڈھائی ہزار سال پہلے ارض فلسطین ان کی تھی اور یہاں ان کی حکومت تھی۔ یہ ارض فلسطین پر یہودیوں کا ایک تاریخی دعویٰ ہے۔ لیکن تاریخی دعوے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ زندہ ہو اور اس کا تسلسل برقرار ہو لیکن ارض فلسطین پر یہودیوں کی تاریخ نہ زندہ تاریخ ہے اور نہ اسرائیل کے قیام کے وقت اس کا تسلسل برقرار تھا چنانچہ اسرائیل کے قیام کی کوئی تاریخی بنیاد بھی موجود نہ تھی اور یہ بات یہودیوں کی طرح اہل مغرب کو بھی معلوم تھی۔ مگر اہل مغرب نے یہودیوں کے اسرائیل کے سلسلے میں سامنے آنے والے تاریخی دعوے کو بھی قبول کرلیا۔ اسرائیل کے قیام کا کوئی سیاسی اور جمہوری جواز بھی موجود نہ تھا۔ اسرائیل کے لیے کوئی سیاسی یا جمہوری جدوجہد موجود نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کی نہیں عربوں کی اکثریت تھی اور اقلیت اکثریت کے علاقے میں ایک الگ ملک کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ مگر یہودیوں نے اقلیت ہونے کے باوجود کسی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے بغیر اسرائیل قائم کرلیا اور اہل مغرب نے اسرائیل کو اس طرح تسلیم کرلیا جیسے اسرائیل طویل سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے بعد قائم ہوا ہو۔ دیکھا جائے تو اسرائیل کے قیام کا کوئی قانونی جواز بھی نہ تھا۔ عالمی قوانین میں کہیں بھی اسرائیل جیسی ریاست کے قیام کا جواز موجود نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عالمی قوانین عربوں کے نہیں اہل مغرب کے بنائے ہوئے ہیں مگر اہل مغرب نے اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں عالمی قوانین کی پامالی کی بھی پروا نہیں کی۔ انہوں نے اس سلسلے میں اعلان بالفور کو کافی جانا۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ اہل مغرب نے کسی اخلاقی، تاریخی، سیاسی اور قانونی جواز کے بغیر اسرائیل پر مہر تصدیق ثبت کی۔ اس منظر نامے میں نہ کہیں تہذیب موجود ہے۔ نہ علم اور نہ عقل۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب اسرائیل کے سلسلے میں اپنے تشخص کے ہر پہلو کی نفی کیے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہل مغرب نے اسرائیل کے سلسلے میں یہ روش کیوں اختیار کی؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کے بغیر مغرب، مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتا تھا کہ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب کے لیے اصل چیز نہ اخلاق ہے۔ نہ تاریخ۔ سیاست ہے نہ جمہوریت۔ قانون ہے نہ بین الاقوامی برادری کی رائے۔ اس کے لیے اگر کچھ اہم ہے تو اس کے مفادات۔

غور کیا جائے تو اسرائیل اور فلسطینیوں کے سلسلے میں مغرب کا ردعمل کئی مراحل سے گزرا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے سلسلے میں مغرب کے ردعمل کا پہلا مرحلہ اسرائیل کو مسلسل تقویت فراہم کرنا اور فلسطینیوں کو نظر انداز کرنا تھا۔ چنانچہ اہل مغرب نے ایک جانب جہاں اسرائیل کو تسلیم کیا بلکہ اس کو معاشی اور فوجی امدا بھی دی۔ دوسری جانب انہوں نے فلسطین کو اس حد تک نظر انداز کیا کہ اس نے پی ایل او کو ایک عرصے تک فلسطینیوں کی نمائندہ تسلیم نہ کیا بلکہ وہ یاسر عرفات اور پی ایل او کو دہشت گرد قرار دیتا رہا۔ حالاںکہ یاسر عرفات اور پی ایل او کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ سرد جنگ کے زمانے میں مغرب کے بجائے سوشلسٹ کیمپ کا حصہ تھے۔ لیکن وہ فلسطینی عوام کے نمائندے اور ان کی اکثریت کے ترجمان تھے۔ تاہم یہ بات اہل مغرب کے لیے اہم نہیں تھی۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے بارے میں اہل مغرب کی روش اور دوسرا مرحلہ وہ تھا جب اہل مغرب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کا قائل ہوا اور امریکا مشرق وسطیٰ میں مرکزی مصالحت کار بن کر سامنے آیا۔ اس مرحلے میں مغرب نے یاسر عرفات کو شیشے میں اتارا اور انہیں اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتے کی جانب مائل کیا۔ اس مرحلے میں یاسر عرفات مغرب کی نظر میں ’’ماڈریٹ‘‘ قرار پائے اور حماس پر انہوں نے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کردیا۔ اگرچہ یاسرعرفات نے اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط کر کے اپنی ساری زندگی کی ساکھ کو تباہ کرلیا مگر امریکا اور اس کے اتحادی اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ’’غیر جانب دار‘‘ نہ تھے۔ ان کا جھکائو واضح طور پر اسرائیل کے حق میں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل نے جب اوسلو امن سمجھوتے کو ناکام کر کے دفن کیا تو امریکا اور یورپ نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا ایک غیر جانب دار مصالحت کار کی ساکھ سے محروم ہوگیا اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم مزید جارحانہ ہوگئے۔ اس کا اظہار غزہ کے باشندوں پر مسلط کی گئی جارحیت ہے۔ اس جارحیت نے پچاس دن میں ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید اور 10 ہزار سے زیادہ کو زخمی کردیا۔ لیکن اس جارحیت اور اس کے مقابلے کے حوالے سے سامنے والے حماس اور غزہ کے لوگوں کے عزم اور استقامت نے یورپ کے بعض ملکوں میں ایک نیا ردعمل پیدا کیا ہے۔ اس ردعمل کے دائرے میں اسرائیل ایک وحشیانہ طاقت بن کر ابھرا ہے اور بعض یورپی ملک محسوس کررہے ہیں کہ دو ریاستی حل کو حقیقت بنائے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ چنانچہ برطانیہ کے دارالعلوم نے فلسطین کے حق میں ایک قراداد منظور کی تھی اور یورپ کے ایک اہم ملک سویڈن نے فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تھا۔ اسرائیل نے سویڈن کے اس طرزِ عمل کو افسوس ناک قرار دیا تھا اور امریکا نے اسے ’’قبل ازوقت‘‘ باور کرایا تھا لیکن غزہ کے لوگوں کی مزاحمت نے امریکی اثرات سے ایک حد تک محفوظ یورپی معاشروں کو فلسطین کے حوالے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کی ایک علامت سویڈن کی خاتون وزیر خارجہ مارگوٹ وال اسٹروم کا ایک مضمون ہے۔ اس مضمون میں مارگوٹ وال اسٹروم نے بتایا ہے کہ ان کے ملک نے کن وجوہ کے باعث فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ ان کے مطابق فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سویڈن فلسطین میں انتہا پسندوں کے مقابلے پر ’’ماڈریٹ‘‘ عناصر کو تقویت فراہم کرنا چاہتا ہے۔ فسلطین کو تسلیم کرنے کی دوسری وجہ سویڈن کی وزیر خارجہ نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ فریقین کو کم غیر مساوی بنانا چاہتا ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ فلسطین کے لوگوں میں مستقبل کے حوالے سے امید پیدا کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ صرف تشدد ان کا مستقبل نہیں بلکہ اس کا متبادل بھی موجود ہے۔ یہ متبادل اور ریاستوں کی متوازی صورت میں موجودگی ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں اہل یورپ کا یہ طرز عمل گہرا، ہمہ گیر اور بہت بلند آہنگ نہیں ہے مگر اس کی موجودگی بجائے خود معنی خیز ہے اور اس سے کم از کم اتنا معلوم ہورہا ہے کہ اسرائیل کی مکمل اندھی حمایت اہل یورپ کے لیے بوجھ بننے لگی ہے۔

غزہ میں حماس کی تازہ ترین مزاحمت نے مغرب میں بڑے بڑے مظاہروں کی راہ ہموار کی ہے۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں لاکھوں افراد مظلوم فلسطینیوں کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں اور انہوں نے اسرائیل کی بدترین جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔ مگر بدقسمتی سےیہ ردعمل صرف عوام میں موجود ہے۔ مغرب کا حکمران طبقہ ابھی تک صہیونیت کی محبت میں گرفتار ہے ۔ لیکن حماس کی مزاحمت نے امریکہ کے صدر جوبائیڈن تک سے کہلوادیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا حل در ریاستی فارمولا ہے۔ حماس کی بے مثال مزاحمت نہ ہوتی تو مغرب کا یہ ردعمل بھی سامنے نہ آتا۔

حصہ