-1 سورج یا چاند میں گرہن (سورج اور چاند گہن لگنے کو کسوف کہتے اور چاند میں گہن لگنے کو خسوف کہتے ہیں اور جب خسوف کے مقابلہ میں یا اس کے ساتھ کسوف بولتے ہیں تو اس سے مراد محض سورج گہن ہوتا ہے۔)
لگ جائے تو اللہ کی یاد میں لگ جایئے، اس سے دعائیں کیجیے، تکبیر و تہلیل اور صدقہ و خیرات کیجیے۔ ان اعمال صالحہ کی برکت سے خدا مصائب و آفات کو ٹال دیتا ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں، کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے ان میں گہن نہیں لگتا، جب تم دیکھو کہ ان میں گہن لگ گیا ہے تو اللہ کو پکارو، اس سے دعائیں کرو اور نماز پڑھو، یہاں تک کہ سورج اور چاند صاف ہوجائے‘‘ (بخاری، مسلم)
-2جب سورج میں گرہن لگے تو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیے، البتہ اس نماز کے لیے اذان و اقامت نہ کہیے یوں لوگوں کو دوسرے ذرائع سے جمع کرلیجیے اور جب چاند میں گرہن لگے تو اپنے طور پر نوافل پڑھیے، جماعت نہ کیجیے۔
-3کسوف شمس میں جب جماعت کے ساتھ دو رکعت نفل پڑھیں تو اس طویل قرأت کیجیے اور اس وقت تک نماز میں مشغول رہے جب تک کہ سورج صاف نہ ہوجائے اور قرأت بلند آواز سے کیجیے، نبیؐ کے دور میں ایک بار سورج گرہن پڑا، اتفاق سے اسی دن آپؐ کے شیر خوار بچے ابراہیمؓ کا بھی انتقال ہوا۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ چونکہ حضرت ابراہیمؓ بن محمدؐ کا انتقال ہوا ہے اس وجہ سے یہ سورج گرہن پڑا ہے تو نبیؐ نے لوگوں کو جمع کیا، دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس نماز میں آپؐ نے نہایت طویل قرأت کی، سورۂ بقرہ کے بقدر قرآن پڑھا، طویل رکوع اور سجود کیے، نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہوچکا تھا۔ اس کے بعد آپؐ نے لوگوں کو بتایا کہ ’’سورج اور چاند اللہ کی دو نشانیاں ہیں، ان میں کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے گہن نہیں لگتا۔ لوگو! جب تمہیں کوئی ایسا موقع پیش آئے تو اللہ کے ذکر میں مصروف ہوجائو، اس سے دعائیں مانگو، تکبیر و تہلیل میں مشغول رہو، نماز پڑھو اور صدقہ و خیرات کرو‘‘ (بخاری، مسلم)
حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ کے مبارک زمانے میں ایک بار سورج گہن لگا۔ میں مدینے کے باہر تیر اندازی کررہا تھا، میں نے فوراً تیروں کو پھینک دیا کہ دیکھوں آج اس حادثے میں نبیؐ کیا عمل کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ اپنے ہاتھ اٹھائے اللہ کی حمد و تسبیح، تکبیر و تہلیل اور دعا و فریاد میں لگے ہوئے تھے۔ پھر آپؐ نے دو رکعت نماز پڑھی اور اس میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھیں اور اس وقت تک مشغول رہے جب تک سورج صاف نہ ہوگیا۔
صحابہ کرامؓ بھی کسوف اور خسوف میں نماز پڑھتے، ایک بار مدینے میں گرہن لگا تو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے نماز پڑھی۔ ایک اور موقع پر گرہن لگا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے لوگوں کو جمع کیا اور جماعت سے نماز ادا فرمائی۔
-4 نماز کسوف میں پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ عنکبوت پڑھیے اور دوسری رکعت میں سورۂ روم پڑھیے۔ ان سورتوں کا پڑھنا مسنون ہے البتہ ضروری نہیں، دوسری سورتیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔
-5کسوف کی نماز باجماعت میں اگر خواتین شریک ہونا چاہیں، کرنے کی سہولت ہو تو ضرور شریک کیجیے اور بچوں کو بھی ترغیب دیجیے تاکہ شروع ہی سے ان کے دلوں میں توحید کا نقش بیٹھے اور توحید کے خلاف کوئی تصور راہ نہ پائے۔
-6 جن اوقات میں نماز پڑھنے کی شرعی ممانعت ہے یعنی طلوع آفتاب، غروب آفتاب اور زوال کے اوقات میں اگر سورج گرہن ہو تو نماز نہ پڑھیے البتہ ذکر و تسبیح کیجیے۔ غریبوں اور فقیروں کو صدقہ و خیرات دیجیے اور اگر سورج کے طلوع ہوجانے اور زوال کے وقت نکل جانے کے بعد بھی سورج گرہن باقی رہے تو پھر نماز بھی نماز بھی پڑھیے۔
رمضان المبارک کے آداب
-1 رمضان المبارک کا شایان شان استقبال کرنے کے لیے شعبان ہی سے ذہن کو تیار کیجیے اور شعبان کی پندرہ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھیے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبیؐ سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔
-2 پورے اہتمام اور اشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے اور چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھیے:
’’خدا سب سے بڑا ہے، الٰہی! یہ چاند ہمارے لیے امن و ایمان و سلامتی اور اسلام کا چاند بناکر طلوع فرما اور ان کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اور پسند ہیں۔ اے چاند! ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے‘‘۔
اور ہر مہینے کا نیا چاند دیکھ کر یہی دعا پڑھیے (ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ)
-3 رمضان میں عبادات سے خصوصی شغف پیدا کیجیے، فرضی نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لیے کمربستہ ہوجایئے۔ یہ عظمت و برکت والا مہینہ اللہ کی خصوصیت عنایت اور رحمت کا مہینہ ہے۔ شعبان کی آخری تاریخ کو نبیؐ نے رمضان کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیئے ہیں اور قیام اللیل (مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے، جو شخص اس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا اللہ اس کو دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔
-4 پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیے اور اگر کبھی مرض کی شدت یا شرعی عذر کی بنا پر زورے نہ رکھ سکیں تب بھی احترام رمضان میں کھلم کھلا کھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے، اور اس طرح رہیے کہ گویا آپ روزے سے ہیں۔
-5 تلاوت قرآن پاک کا خصوصی اہتمام کیجیے، اس مہینے کو قرآن سے خصوصی مناسبت ہے۔ قرآن پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں نازل ہوئیں۔ حضرت ابراہیم کو اسی مہینے کی پہلی یا تیسری تاریخ کو صحیفے عطا کیے گئے، حضرت دائود کو اسی مہینے کی 12 یا 18 کو زبور دی گئی، حضرت موسیٰ پر اسی مہینے کی 6 تاریخ کو تورات نازل ہوئی اور حضرت عیسیٰ کو بھی اسی مہینے کی 12 یا 13 تاریخ کو انجیل دی گئی۔ حضرت جبریلؑ ہر سال رمضان میں نبیؐ کو پورا قرآن سناتے اور سنتے تھے اورآخری سال آپ نے دو بار رمضان میں نبیؐ کے ساتھ دور فرمایا۔
-6قرآن پاک ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کثرت تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور اثر لینے کا بھی خاص خیال رکھیے۔
-7 تراویح میں پورا قران سننے کا اہتمام کیجیے، ایک بار رمضان میں پورا قرآن پاک سننا مسنون ہے۔
-8تراویح کی نماز خشوع اور خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے اور جوں توں بیس رکعت کی گنتی پوری نہ کیجیے بلکہ نماز کو نماز کی طرح پڑھیے تاکہ آپ کی زندگی پر اس کا اثر پڑے اور اللہ سے تعلق مضبوط اور خدا توفیق دے تو تہجد کا بھی اہتمام کیجیے۔
-9 صدقہ اور خیرات کیجیے، غریبوں، بیوائوں اور یتیموں کی خبر گیری کیجیے اور ناداروں کی سحری اور افطار کا اہتمام کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے یہ مواسات (یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمدردی سے مراد مالی ہمدردی بھی ہے اور زبانی ہمدردی بھی، ان کے ساتھ گفتار اور سلوک کی نرمی برتیے۔ ملازمین کو سہولتیں دیجیے اور مالی اعانت کیجیے) کا مہینہ ہے، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ سخی اور فیاض تو تھے ہی مگر رمضان میں تو آپؐ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی۔ جب حضرت جبریلؑ ہر رات کو آپؐ کے پاس آتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور سنتے تھے تو ان دنوں نبیؐ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ فیاض ہوتے تھے۔
-10 شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کیجیے اور قرآن کی تلاوت کیجیے۔ اس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس رات میں قرآن نازل ہوا۔ قرآن میں ہے: ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو شب قدرکیا ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور حضرت جبریلؑ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر کام کے انتظام کے لیے اترتے ہیں۔ سلامتی ہی سلامتی یہاں تک کہ صبح ہوجائے۔ (القدر)
حدیث میں ہے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے اس رات کو یہ دعا پڑھیے:
’’الٰہی! تو بہت ہی زیادہ معاف کرنے والا ہے کیونکہ معاف کرنا تجھے پسند ہے پس تو مجھے معاف فرمادے‘‘۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں ایک سال رمضان آیا تو نبیؐ نے فرمایا۔ تم لوگوں پر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا اور اس رات کی خیر و برکت سے محروم وہی رہتا ہے جو واقعی محروم ہے۔ (ابن ماجہ)
-11 رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیجیے، نبیؐ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ: رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبیؐ راتوں کو زیادہ سے زیادہ جاگ کر عبادت فرماتے اور گھر والیوں کو بھی جگانے کا اہتمام کرتے اور پورے جوش اور انہماک کے ساتھ اللہ کی بندگی میں لگ جاتے۔
-12 رمضان میں لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا سلوک کیجیے، ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیجیے اور فراخدلی کے ساتھ ان کی ضرورتیں پوری کیجیے اور گھر والوں کے ساتھ بھی رحمت اور فیاضی کا برتائو کیجیے۔
-13 نہایت عاجزی اور ذوق و شوق کے ساتھ زیادہ دعائیں کیجیے، درمنشور میں ہے کہ جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو نبیؐ کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف بہت زیادہ غالب ہوجاتا تھا۔
اور حدیث میں ہے کہ، خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادت چھوڑ دو روزہ رکھنے والوں کی دعائوں پر آمین کہو۔
-14صدقہ فطر دل کی رغبت کے ساتھ پورے اہتمام کے ساتھ ادا کیجیے اور عید کی نماز سے پہلے ادا کردیجیے بلکہ اتنا پہلے ادا کیجیے کہ حاجت مند اور نادار لوگ بہ سہولت عید کی ضروریات مہیا کرسکیں اور وہ بھی سب کے ساتھ عیدگاہ جاسکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ نبیؐ نے صدقہ فطرات کے لیے اس لیے ضروری قرار دیا تاکہ وہ ان بے ہودہ اور ان فحش باتوں کا، جو روزے میں روزہ دار سے سرزد ہوگئی ہیں، کفارہ بنے اور غریبوں اور مسکینوں کے کھانے کا انتظام ہوجائے۔ (ابودائود)
-15 رمضان کے مبارک دنوں میں خود زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نہایت سوز، تڑپ، نرمی اور حکمت کے ساتھ نیکی اور خیر کے کام کرنے پر ابھاریئے تاکہ پوری فضا پر خدا ترستی، خیر پسندی اور بھلائی کے جذبات چھائے رہیں اور سوسائٹی زیادہ سے زیادہ رمضان کی بیش بہار برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔