جیت

319

وہاں گرد وغبار اور دھوئیں کے بادل تھے، فضا میں بارود کی بُو پھیلی تھی، لوگوں کی آوازیں تھیں، تباہی ہی تباہی تھی، مگر وہاں ایک چیز نہیں تھی، وہی جسے ابلیس لعین ڈھونڈتا ہی رہ گیا۔

…٭…

’’عائلہ، ابراہیم…‘‘شمامہ دونوں کو کئی بار آوازیں دے چکی تھی، مگر ان کے تو کھیل ہی ختم نہ ہوتے تھے۔ وہ بچوں کی دنیا تھی، بڑوں کی دنیا سے الگ۔ شمامہ نے دونوں کو ایک بار پھر کھانے کے لیے بلایا اور اپنی کمر میں اٹھتے درد کی لہر کو برداشت کرتی قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔

خیالوں کی دنیا اسے کچھ دیر کے لیے اِس دنیا سے بے خبر کر گئی۔ ’’کتنے دن رہ گئے؟‘‘ وہ دل ہی دل میں حساب لگانے لگی۔ ’’ہوں… شاید ایک ہفتہ‘‘ اس نے خود کلامی کی۔ ’’کیا میرا آنے والا بچہ بھی اسی آزمائش میں آنکھ کھولے گا؟ ابورافع نے کہا تھا ہم اس کا نام خالد رکھیں گے… اللہ کی تلوار، جو اسرائیلیوں کے سر پر کوندے گی۔‘‘

ایک ننھے خوب صورت وجود کا تصور شمامہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر چکا تھا، ابلیس نے ایک بار پھر اپنے بال نوچے۔

’’امی… امی! یہ مجھے تنگ کررہا ہے۔‘‘ وہ دونوں آگے پیچھے بھاگتے اس کے برابر میں آبیٹھے۔

’’اخی! امی مسکرا رہی ہیں۔‘‘ عائلہ نے اس کے گلے میں اپنے بازو ڈالے تو وہ چونک گئی۔ ’’ارے میں سوگئی تھی؟‘‘ اس نے بے اختیار آنکھیں مسلیں اور اپنے دونوں بچوں کو لے کر دستر خوان پر بیٹھ گئی جس پر بہ مشکل ہی پیٹ بھر کر کھانے کا سامان رکھا تھا۔ شمامہ نے بچوں کو بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی اور اپنے ننھے مجاہد کے لیے چند لقمے کھاکر ان برے حالات میں بھی ملنے والے رزق پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ ابلیس منتظر ہی رہا کہ اب اس کے کان کچھ شکوے بھرے جملے سن لیں۔

…٭…

دن بہ دن غزہ کے حالات بگڑتے ہی جارہے تھے، ظالم اسرائیلیوں کے سر پر خون سوار ہوچکا تھا۔ اُن کا ایک ہی مشن تھا کہ اہلِ غزہ اس مقدس سرزمین کو چھوڑ دیں جہاں وہ صدیوں سے آباد ہیں، جس کی حفاظت اُن کے ایمان کا حصہ ہے۔ روز غزہ کے کسی نہ کسی علاقے پر بمباری کی اطلاعات آتیں۔ خون کے پیاسوں اور شیطان کے ہرکاروں نے اسکولوں اور اسپتالوں تک کو نہ بخشا تھا۔ شہادتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ وہ فولادی جذبوں والے، جتنے جنازے اٹھاتے تھے اتنے ہی مضبوط ہوتے چلے جاتے۔ زمین اور آسمان ان کی استقامت پر حیران تھے اور شیطان پریشان تھا۔

اپنی طبیعت کے پیش نظر شمامہ کے لیے اب گھر سے نکلنا بہت مشکل ہوگیا تھا، وہ سارا دن اپنے بچوں کو آنے والے کسی بھی مشکل دن کے لیے تیار کرتی، کہیں دھماکے کی آواز سنائی دیتی تو انہیں حفاظتی تدابیر کے بارے میں بتاتی۔ وہ جب انہیں معاذ و معوذ کا واقعہ سناتی تو وہ خود کو اتنا طاقت ور سمجھتے کہ وقت کے ہر فرعون سے ٹکرا جائیں۔ وہ انہیں حضرت خالد بن ولیدؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی فتوحات کا بتاتی، اور کبھی مجاہدِ وقت ابوعبیدہ کے بیانات سنواتی، وہی ابوعبیدہ جو اس کے بچوں کا ہیرو تھا۔

…٭…

’’امی! ہم اسکو ل کب جائیں گے؟ میں اپنی دوستوں سے کب ملوں گی؟‘‘ آج بھی سوتے ہوئے عائلہ کے سوالات شروع ہوچکے تھے۔

عائلہ کا سوال سن کر شمامہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی کہ کیا کہے۔ کہیں اسکول تھا تو پڑھنے والے بچے نہیں بچے تھے، کہیں چند ایک بچے تھے تو اسکول زمیں بوس ہوچکا تھا۔ ’’بیٹا جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تب۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔

’’اچھا امی! آپ روز رات کو عبایا پہن کر کیوں سوتی ہیں؟ آپ رات کو کہیں جاتی ہیں کیا ہمیں چھوڑ کر؟‘‘

’’ارے عائلہ کتنے سوال کرتی ہو‘ اَب دعا پڑھو اور سو جاؤ۔ دیکھو بھائی سو بھی گیا۔‘‘ وہ اس ننھی بچی کو کیا سمجھاتی کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے۔ اسے اپنا حجاب بہت عزیز تھا۔ عائلہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ اسے دعا پڑھانے لگی۔ دوسری طرف ابراہیم نیند میں اپنے بچھڑ جانے والے دوستوں کے نام لے رہا تھا۔ شمامہ نے ہلکے سے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے سینے پر رکھ دیا۔ ابورافع کو آج گھر سے گئے ہوئے چوتھا دن تھا، وہ اسپتال میں زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔

شمامہ کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں کہ اسے دروازے پر دستک محسوس ہوئی۔ کروٹ لے کر اٹھتے ہوئے بھی اس کے منہ سے آہ نکل گئی، بس اب گنتی کے چند دن ہی ہیں۔ اس درد کے باوجود وہ مسکرا اٹھی۔

ابو رافع ان کے لیے کھانے پینے کا کچھ سامان لایا تھا۔ شمامہ کو زبردستی دودھ کا ڈبہ پکڑایا اور اس کے ختم ہونے تک اس کا ہاتھ تھام کر بیٹھا رہا۔ تھکن کے آثار اس کے چہرے سے نمایاں تھے۔ ’’مسلسل تیسری رات ہے جو ہم سب جاگ رہے ہیں، بہت لوگ زخمی ہیں‘ اُن کی تکلیف کا احساس بیٹھنے بھی نہیں دیتا، لگتا ہے اِس بار ان ظالموں نے ہمیں ختم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، لیکن اللہ زندگی دے ہمارے شیروں کو، جنہوں نے اس ارضِ مقدس کے لیے اپنی جانوں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ شمامہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو میرے بچے بھی اس مقدس سرزمین کی حفاظت کریں گے۔‘‘ ابو رافع نے اس کا ہاتھ دبایا۔

’’ابورافع! میں روز اپنے بچے کو یاد دلاتی ہوں کہ تمہارا نام خالد ہے اور تمہیں بیت المقدس کی حفاظت کرنا ہے۔ دیکھو اسی لیے میں نے یہ پورا ڈبہ خالی کردیا ہے۔‘‘ شمامہ نے دودھ کا خالی ڈبہ ابو رافع کے ہاتھ میں پکڑایا۔

ابو رافع کی مسکراہٹ نے جہاں شمامہ کو اندر تک طاقت دی تھی وہیں شیطان جل بھن کر خاک ہوچکا تھا۔

ابو رافع نے اپنے سوتے ہوئے بچوں کو پیار کیا۔ ’’آج میں نے اپنے بچوں کی آواز بھی نہیں سنی، کل فون کروں گا، میری بات ضرور کروا دینا… چلو اب میں چلتا ہوں، وہاں میری بہت ضرورت ہے، بہت زخمی ہیں، بہت شہدا ہیں، مگر ایک بات ہے جو ہماری امیدیں بندھاتی ہے کہ پوری دنیا میں لوگ ہمارے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، کوئی ملک ہمارا ساتھ دے نہ دے مگر اہلِ ایمان اور اہل احساس ہمارے ساتھ ہیں، تم دیکھنا بس اب یہ اسرائیلی اور ان کا ظلم عنقریب اپنے اختتام کو پہنچے گا‘ اِن شاء اللہ۔‘‘

وہ دروازے تک آچکے تھے، ابو رافع نے اپنی شریکِ حیات کا ماتھا چوما اور گھر سے نکل گیا، اور وہ دروازہ بند کرکے اپنے بچوں کے درمیان آکر لیٹ گئی۔

…٭…

رات کے آخری پہر آسمان پر ہونے والی شدید گڑگڑاہٹ سے اس کی آنکھ کھلی۔ وہ انہونی کے احساس کے ساتھ دھڑکتے دل کو سنبھالتے دعاؤں کا ورد کرنے لگی۔ دونوں بچوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے وہ سجدے کی صورت میں ان کے درمیان جھک گئی۔ ایسا لگا جیسے آسمان ٹوٹ گرا ہو… ’’اللہ اکبر… اللہ اکبر…لا الٰہ الا اللہ…‘‘ اس کے حلق سے یہ آخری الفاظ نکلے اور وہ سب اپنے ہی گھر کے ملبے تلے دفن ہوگئے۔ خونی دشمن نے ایک بار پھر معصوم جانوں سے اپنی پیاس بجھانی چاہی اور جنتوں کے راہی اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔

صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیل چکی تھی۔ ابو رافع اپنے دونوں ہاتھوں سے ملبے کو ہٹاتا، شمامہ اور بچوں کو آوازیں دیتا اور ملبے کو کھودنے لگتا۔ اس کے ہاتھ زخمی ہوچکے تھے، بازو شل ہوچکے تھے اور آواز بیٹھ چکی تھی، مگر وہ امید کیسے کھو دیتا؟ ’’یہ…یہ میری عائلہ کا ہاتھ ہے… یہ میری ننھی شہزادی…‘‘ وہ دیوانہ وار ملبے کو اِدھر اُدھر ہٹانے لگا۔ کئی ہاتھ اس کے ساتھ شامل تھے۔ عائلہ پر سے ملبہ ہٹاتے اسے شمامہ کا خون میں لت پت سر نظر آیا… اس کی آنکھوں میں نمکین پانی کا سمندر اُمڈ آیا، وہ ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو رگڑتا اپنے دونوں بچوں کے جسموں کے بعد شمامہ کو بھی باہر نکال چکا تھا۔

لوگ اسے تسلی دے رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس سے بہت آگے جنت کی جانب روانہ ہوچکے ہیں لیکن… اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا… اس نے شمامہ کو ایمبولینس میں ڈالا اور اسپتال جا پہنچا، شاید کوئی معجزہ ہوجائے۔

شمامہ کے بے جان جسم میں زندگی کا منتظر وہ ننھا جسم جسے وہ ’’غزہ کا ننھا مجاہد‘‘ کہتی تھی، باہر آنے کا منتظر تھا۔ ڈاکٹروں کے فوری آپریشن کے نتیجے میں ننھے خالد نے غزہ میں پہلی سانس لی… ’’الحمدللہ…الحمدللہ‘‘ کہتے ابورافع نے اپنے شہزادے کو پیار کیا، گھر کے تین افراد کھونے کے بعد بھی دونوں باپ بیٹا مسکرا رہے تھے۔

شیطان نے ایک نظر ان پر ڈالی اور اپنا نام پکارا… ابلیس… ہمیشہ کے لیے مایوس۔ بھلا ایسے ایمان والوں کو کون سی طاقت شکست دے سکتی ہے جو کبھی مایوس ہی نہیں ہوتے!

حصہ