’’ویڈیوز دیکھی نہیں جاتیں۔ بچوں کی بے دھڑ، خون آلود کٹی پھٹی لاشیں… طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔‘‘ صائمہ کی طبع نازک متاثر تھی۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہو، ذہن پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید مایوسی طاری ہوجاتی ہے۔ اللہ بس اپنا رحم کردے۔‘‘عالیہ نے تائید کی۔
’’کل چھوٹے عمیر نے غلطی سے ایک وڈیو کھول لی، یقین جانو بچہ میرا سہم گیا۔ رات کو بھی میرے پاس ہی سویا، اتنا ڈر گیا تھا۔‘‘ وہ اپنے بچے کے لیے فکرمند تھی۔
’’اب یہ بائیکاٹ کا شور! ویسے تو میں فاسٹ فوڈ کے ہی خلاف ہوں لیکن بس ویک اینڈز پر میاں اور بچوں کا تھوڑی آئوٹنگ وغیرہ کا موڈ بن جاتا ہے تو کے ایف سی، میکڈونلڈ وغیرہ کھلا دیتے ہیں۔‘‘عالیہ نے بے زاری سے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا، ہم کون سا یہود کی محبت میں مرے جارہے ہیں! ہمیں بھی پتا ہے کہ یہود مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ یہ تو بس فیملی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہے، ایک برگر اور کوک ہی تو ہے۔‘‘صائمہ کو اب تک اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ ہضم نہیں ہورہا تھا۔ فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام ہر جگہ اسرائیلی مصنوعات کی تفصیل موجود تھی جسے دیکھ کر وہ دل پکڑ کر بیٹھ جاتی کہ غسل خانے سے لے کر باورچی خانے تک، اور بیڈ روم سے لے کر لیونگ روم، ڈرائنگ روم اور لان تک ان تمام مصنوعات سے بھرے ہوئے تھے، نہ ہی ان کا کوئی متبادل اس کے علم میں تھا اور نہ وہ کسی نئے تجربے سے گزرنا چاہتی تھی۔
…٭…
رات کا کون سا پہر تھا کہ عالیہ کی آنکھ شور کی کچھ آوازوں سے کھل گئی۔کمرے میں ہلکی سی روشنی محسوس ہوئی۔ آنکھیں پھاڑ کر جائزہ لیا تو میاں صاحب دوسری کروٹ پر لیٹے موبائل پر سرگرم عمل نظر آئے۔
’’اُف! سوئے نہیں آپ ابھی تک؟‘‘اس کی آواز میں غصہ نمایاں تھا۔
عادل صاحب چونک کر مڑے ’’ارے بھئی معذرت، تمہاری نیند خراب ہوگئی۔ بس خبریں ہی کچھ ایسی آرہی تھیں کہ نیند اُڑ گئی، شدید بم باری کی اطلاعات ہیں، معلوم نہیں مظلوموں کی صبح کس حال میں ہوگی۔‘‘
عالیہ حیرت سے میاں کا منہ تک رہی تھی۔ وہ آدمی جو کبھی کسی کے معاملے سے سروکار نہ رکھتا، بلکہ گھر کے بھی کتنے ہی مسئلوں سے عالیہ خود ہی نمٹتی رہتی، آج دور پرے سے آنے والی خبروں پر اتنا بے چین کہ اسے نیند ہی نہیں آرہی! حیرت کچھ ہی لمحوں میں ایک بے نام سی بے چینی میں تبدیل ہوگئی۔
’’اچھا اب سوجائیں، صبح آپ کو آفس بھی جانا ہے‘‘کہتے ہوئے وہ کروٹ بدل کر لیٹ گئی کہ صبح سے تو وہ خود بھی مصروف ہوجائے گی کہ اس کی عزیز از جان سہیلی کل اس کی طرف لنچ پر آرہی تھی جس کی اسے مکمل تیاری بھی کرنی تھی۔
…٭…
ہفتے کا دن یوں بھی بڑا مصروف ہوتا ہے، ایک تو بچے گھر میں ہوتے ہیں، پھر لانڈری، گروسری، بچوں کا ہوم ورک، پروجیکٹ، اسائنمنٹس… ایک ڈھیر ہوتا ہے کاموں کا۔ لیکن آج اس نے کئی کام کل کے لیے اٹھا رکھے کہ اس کی پیاری سہیلی سجیلہ جو آرہی تھی۔
’’پتا نہیں یہ کام والی کو مہمانوں کے آنے کا کیسے پتا چل جاتا ہے! چھٹی تو پکی ہے اس دن۔ سب کا مرنا جینا اسی دن ہونا لازمی ہے۔‘‘ عالیہ الجھی ہوئی جلدی جلدی برتنوں پر ہاتھ مار رہی تھی۔ کام والی کی اچانک چھٹی نے اسے پریشان کردیا تھا۔ ابھی توکھانا بھی تیار کرنا تھا۔ اس نے برابر والی مسز حمید کا نمبر ملایا۔
’’آپ پلیز آج اپنی ماسی کو میری طرف بھی بھیج دیجیے گا، بس صفائی کروانی ہے۔‘‘ اس نے التجا کی۔
مسز حمید رحم دل خاتون تھیں، اس کی پریشانی سمجھ کر فوراً ہامی بھرلی۔
’’شکر ہے ایک طرف سے تو سکون ہوا۔‘‘ وہ تیزی سے باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی۔
کھانے کے بعد بچے کھیل میں مشغول ہوگئے تو دونوں سہیلیوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ عالیہ نوٹ کررہی تھی کہ سجیلہ کے چہرے پر کچھ اداسی چھائی ہوئی ہے۔ اس کی مسکراہٹ ایک تکلیف دہ مسکان محسوس ہورہی تھی۔ وہ بات تو عالیہ سے کررہی تھی لیکن دھیان کہیں اور تھا۔ عالیہ بغور اس کا جائزہ لے رہی تھی۔
’’عنزی جانی نے تو اپنی ماما کو تھکا ہی دیا…‘‘ اس نے دو ماہ کی گول مٹول سی عنیزہ کو گود میں لیتے ہوئے کنکھیوں سے سجیلہ کو دیکھا۔ ایک اداس سی مسکراہٹ نے سجیلہ کے ہونٹوں کو چھوا۔
’’ارے نہیں بھئی، یہ بے چاری کیا کہتی ہے! بس دودھ پیتی ہے اور سوتی رہتی ہے۔‘‘
’’پھر… پھر کیا بات ہے کہ تم پہلے جیسی فریش اور کھلی کھلی نظر نہیں آرہیں؟ کوئی مسئلہ ہے تو مجھ سے شیئر کرو، ہوسکتا ہے کوئی حل نکل آئے، اور کچھ نہیں تو دل کا بوجھ ہی ہلکا ہوجائے گا۔‘‘
’’امی! فریج سے کولڈ ڈرنک نکال کر سب کو دے دوں؟ سارے بچے گرمی میں کھیل کر تھک چکے ہیں۔‘‘ عالیہ کی بڑی بیٹی نمرہ نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔
’’اوہو! دیکھو میرے کام …کولڈ ڈرنک تو فریج میں ہی رکھی رہ گئی۔‘‘عالیہ نے سر پر ہاتھ مارا۔
’’ہاں بیٹا! دے دو سب کو…‘‘ یہ کہہ کر وہ سجیلہ کی طرف مڑی لیکن…
’’ہائیں! یہ کہاں غائب ہوگئی؟‘‘ پلٹ کر دیکھا تو وہ تیزی سے باورچی خانے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اب عالیہ کو اور بھی پشیمانی ہوئی کہ معلوم نہیں وہ کب سے کولڈ ڈرنک پینا چاہ رہی تھی، یا ہوسکتا ہے کہ اس کے بچوں کو عادت ہو۔ ’’واہ عالیہ بی بی، واہ، نہ آیا تمہیں مہمان نوازی کرنا۔‘‘ اب وہ باقاعدہ اپنے آپ کو کوستے ہوئے سجیلہ کے پیچھے ہی باورچی خانے میں آگئی۔
مگر یہ کیا…! یہاں تو کچھ اور ہی منظر تھا۔ سجیلہ کوک کی پوری بوتل سنک میں بہا چکی تھی اور اب بڑے اطمینان سے سیون اَپ کو کھول کر خالی کررہی تھی۔
’’ارر…ررے یہ کیا کررہی ہو؟‘‘عالیہ حیرت سے منہ کھولے کھڑی تھی۔ ’’یہ تو وہ بچے… پھر ضد کریں گے…‘‘ بے ربط سے جملے اس کے منہ سے نکل رہے تھے۔ وہ جانتی تھی اس کے بچے کوک کے عادی ہیں اور یہ تو وہ برداشت نہیں کر پائیں گے۔ تھوڑی دیر کے لیے اسے سجیلہ کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگا لیکن وہ تو بڑے اطمینان سے خالی بوتلیں ڈسٹ بن میں پھینک کر اسی کی طرف متوجہ تھی۔
’’آنٹی! آپ نے یہ اس لیے تو نہیں بہائیں کہ یہ اسرائیلی پراڈکٹ ہیں؟‘‘ نمرہ نے عقل کا گھوڑا دوڑایا۔
’’جی بالکل پیاری بیٹی…‘‘سجیلہ نے مسکراتے ہوئے نمرہ کے گال کو چھوا۔
’’یہ کیا بات ہوئی بھئی…! میں نہیں مانتی یہ بائیکاٹ وائیکاٹ… سب مقامی بزنس ہیں۔ ایک آدھ روپیہ اگر اسرائیل کو چلا بھی جاتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ سدا کی جذباتی عالیہ مہمان کے خیال سے غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی۔
سجیلہ کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ نمرہ اور عالیہ کو لے کر وہ دوبارہ لائونج میں آگئی۔ پرس میں سے موبائل نکال کر آن کیا۔ اب ایک فلم ان سب کے سامنے تھی۔ ہفتے کے دن کا سورج کن تباہیوں اور بربادیوں کے ساتھ فلسطین میں طلوع ہوا تھا۔ کل رات کی شدید بمباری، عمارتوں کا ملبہ اور اس میں دب کر مر جانے والی عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان اور بچے… انسانی جسموں کے جابجا بکھرے چیتھڑے، خون آلود کٹی پھٹی لاشیں، زخمیوں کی چیخ پکار… ایک آدمی کی گود میں اس کا بچہ تھا جس کا آدھا سر اور ٹانگیں غائب تھیں۔
’’اُف خدایا! بس کردو، اس سے زیادہ میں نہیں دیکھ سکتی۔ میری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے… پلیز بند کرو اسے۔‘‘عالیہ باقاعدہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے چلّا رہی تھی۔
سجیلہ نے موبائل بند کرکے اس کا ہاتھ ہٹایا۔ نمرہ خوف آنکھوں میں لیے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ہارر مووی کی شوقین تھی لیکن وہ تو فلم ہوتی ہے نا، اور یہ حقیقت۔ اس نے اِس سے پہلے ایسی فلم کبھی نہیں دیکھی تھی… جسم آہستہ آہستہ کانپ رہا تھا۔ عالیہ نمرہ کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئی۔
’’نمو بیٹا! میری جان…!‘‘ اس نے اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔
’’امی امی…! جلدی آئیں عمیر کھیلتے ہوئے گرگیا ہے، اُسے چوٹ لگ گئی ہے، جلدی آئیں۔‘‘ اسما پھولی ہوئی سانسوں میں اسے چیختے ہوئے بتا رہی تھی۔ ’’ہائے اللہ میرا بچہ!‘‘ وہ تیزی سے اٹھی لیکن سجیلہ نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھا لیا۔
’’میرا ہاتھ چھوڑو، عمیر گر گیا ہے، تم نے سنا نہیں۔‘‘وہ چلاّئی۔
’’اسے دیکھ کر تمہاری طبیعت خراب ہوجائے گی، خدانخواستہ اگر خون بھی نکل رہا ہوا تو تم سے برداشت نہیں ہوگا۔‘‘
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے… وہ میرا بچہ ہے، اس کی تکلیف میں کیسے برداشت کرسکتی ہوں!‘‘ عالیہ ہاتھ چھڑاتے تیزی سے باہر کی طرف بھاگی۔
’’ہاں وہ بھی کسی کے بچے ہیں۔‘‘ سجیلہ کی آواز اس کا تعاقب کررہی تھی۔
’’شکر ہے چوٹ گہری نہیں تھی لیکن عمیر ڈر زیادہ گیا تھا، رونا اب ہچکیوں میں تبدیل ہوگیا تھا۔ چھن سے دماغ کی اسکرین پر ایک بچے کی تصویر نمایاں ہوئی جو بمباری کے وقت سوتے سے جاگا تھا اور اس کے تمام گھر والے شہید ہوچکے تھے جس کی ہچکیاں بند نہیں ہورہی تھیں، وہ کپکپاتے لبوں کے ساتھ اپنی پوری ہمت مجتمع کرکے ایک پیرامیڈک کو اپنے بارے میں بتارہا تھا، اور پھر آخر ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ اس نے عمیر کو غیرارادی طور پر مزید مضبوطی سے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ سجیلہ بھی سب بچوں کو لے کر اس کے پاس کمرے میں ہی آبیٹھی تھی۔ ماحول اچانک ہی سوگوار ہوگیا تھا۔ جیسے کسی ہارر مووی میں قتل کے بعد موت کا سناٹا چھا جاتا ہے، فضا خون آلود لگنے لگتی ہے… ایسا ہی خوف آج نمرہ کو اپنے آس پاس محسوس ہورہا تھا۔
’’میں ہر روز رات کو غزہ کی صورتِ حال دیکھ کر اور بچوں کو بھی دکھا کر سوتی ہوں۔‘‘ طویل اور گہری خاموشی میں سجیلہ کی آواز نے ارتعاش پیدا کردیا ’’تاکہ غزہ کے حالات خواب میں بھی ہمارا پیچھا کریں، ہمارے حواسوں پر چھا جائیں تاکہ دشمن ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے رہے… نہ کوئی کوک کی بوتل، نہ کوئی سرف، صابن کا پیکٹ اور نہ کوئی برگر اور چپس اسے ہماری نظروں سے اوجھل کرسکے۔ ہم سوچیں کہ کیسے اپنے بچوں کو دشمن سے مقابلے کے لیے تیار کرنا ہے۔‘‘