جمادی الاول کے اہم واقعات

2443

اسلامی سال کا پہلا مہینہ جمادی الاوّل کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جامد ہوگیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے حساب سے قمری مہینے گرمی سردی میں تبدیل ہو کر نہیں آتے تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر قمری مہینے چاند سے منسلک ہیں تو لازمی بات ہے کہ یہ مہینے گرمی اور سردی تبدیل ہو کر آئیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ جس وقت انہوں نے ان مہینوں کو نام دیے تو اس وقت پانی سردی کی وجہ سے جم چکا تھا، جمادی کی جمع عربی زبان میں ’’جمادیات‘‘ آتی ہے جیسے کہ ’’حباری‘‘ کی جمع ’’حباریات‘‘ آتی ہے ۔ عربی زبان میں ’’جمادی‘‘ کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔

غزوہ عشیرہ:
آنخضرت ؐنے ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد مخزوی کو مدینہ منور ہ میں اپنا قائم مقام بنایا اورخود ایک سو پچاس اور بقول بعض دو سو مہاجرین کی معیت میں قریش کے ایک تجارتی قافلے کے تعاقب میں نکلے۔ شام سے آنے والا یہ قافلہ نکل چکا تھا اس لیے جنگ نہیں ہوئی۔ آپ ؐ نے چند دن وہاں قیام فرمایا وہاں بنولج‘ بنو ضمرہ کے لوگوں سے معاہدہ فرمایا اور صحیح سلامت واپس ہوئے۔

غزوہ ذات الرقاع:
5ھ بقول بعض 7ھ مدینہ منورہ میں حضر ت عثمان غنیؓ کو اپنا جانشین بنا کر چار سو‘ سات سو یا آٹھ سو صحابہؓ ساتھ لیے اس میں حضرت موسیٰ ـاشعری ؓبھی شامل تھے۔ دشمن بھاگ کھڑے ہوئے البتہ مسلمانوں کو دشمن سے خوف کا اندیشہ تھا اس لیے آنحضرت ؐنے نماز خوف پڑھائی۔

سریہ موتہ :
8ھ ملک شام کا معروف شہر جو دمشق سے ادھر بلقاء کی عمل داری میں تھا حضوراقدسؐ نے بنی لعب کے ایک فرد الحرث بن عمیر الازوی کو ایک پیغام دے کر بھیجا لیکن راستے میں شرحبیل بن عمرو الفسانی نے ان کو روک کر شہید کروا دیا جس کی خبر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا رنجیدہ کیا۔ آپؐ نے ایک لشکر تیار کیا جس کے سپہ سالار حضرت زید بن حارثہؓ کو بنایا اور فرمایاکہ اگر زید شہید ہو جائیںتو بالترتیب حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ کو امیر بنانا۔ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو اپنا امیر خود بنا لینا تو ان سب کی شہادت کے بعد حضرت خالد بن ولید ؓامیر مقرر ہوئے۔ شاہ روم (ہرقل) اڑھائی لاکھ کا لشکر لے کر آیا اور مسلمان صرف تین ہزارتھے۔ مسلمانوں میں صرف بارہ صحابی شہید ہوئے اور کفار کے اتنے آدمی ڈھیر ہو ئے جس کی تعداد اللہ کو معلوم ہے۔
دربار نبوتؐ سے حضرت خالد ؓکو ’’سیف اللہ‘‘ (اللہ کی تلوار) کا خطاب عطا ہو ا۔

واقعہ اجنادین:
’’اجنادین‘‘ ارض فلسطین پر الرملہ (رام اللہ) اور بیت جبرین کے درمیان واقع ہے۔ اس جنگ میں حضرت عمرؓ بن العاص‘ حضرت شرحبیل ؓ بن حسنہ اور حضرت ابی عبیدہ ؓبن جراح شریک ہو ئے۔ رومیوں کی قیادت القبتلاء (اووردان) نے کی مشرکوں کو شکستِ فاش ہوئی اور ان کا قائد بھی مارا گیا۔

شہادت سیدنا حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ:
سیدنا حصرت عبداللہ بن زبیرؓ نے 17جمادی الاوّل 73ھ کو جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ ؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نواسے ’حضرت سیدنا عائشہ ؓ کے بھانجے‘ آپ حضرت زبیر بن عوام ؓ اور حضرت اسمہ بنت ابو بکر ؓ کے صاحبزادے تھے۔ ہجرت کے بعد صحابہ کرامؓ کے یہاں سب سے پہلے انہی کی ولادت ہوئی تھی۔

حضرت سیدنا اسمہ بنت ابو بکر ؓ کی وفات :
ایک قول کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے 10دنوں بعد 27 جمادی الاوّل 73ھ کو آپ ؓ کا انتقال ہوا۔

قسطنطنیہ کی فتح :
قسطنطنیہ کی یہ فتح دنیا کا نہایت ہی اہم او ر عظیم الشان واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ یورپی مورخین کی اصطلاح میںاس کے بعد زمانہ ’’وسطی‘‘ختم ہو جاتا ہے۔ اس محلِ وقوع پر 667ء سے قبل بالی زینتم نامی ایک شہر خانہ بدوشوں نے آباد کیا تھا۔ پھر اس شہر کو سکندر یونانی نے فتح کیا۔ اس کے بعد یہ شہر مختلف لوگوں کا تختۂ مشق بنا رہا۔ بعدازاں قیصر قسطنطین اوّل نے اسے فتح کیا اور اس کا نام ’’روما جدید‘‘ رکھا ۔ جو بعد میں اپنے بانی کے نام پر ’’قسطنطنیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو ا۔ صحیح معنوں میں یہ شہر 327ء میں آباد ہو ا قسطنطین کے آبا و اجداد بت پرست تھے۔ وہ عیسائی ہوا اور یہ شہر عیسائی سمجھا جانے لگا۔ جب روما دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو قسطنطنیہ مشرقی سلطنت کا دارالسلطنت قرار پایا۔ مشرقی روم کو کامل عروج قیصر جشین کے عہدِ حکومت(527ء تا565ء) میں ہوا۔

مسلمانوں نے اوّل ہی اوّل بنو امیہ کے زمانے میں اس پر چڑھائی کی اور حضرت ابوایوب انصاری ؓفصیل شہر کے نیچے مدفون ہوئے۔ خلفائے عباسیوں کے زمانے میں بھی کئی بار اس کو فتح کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کو ئی نہ کوئی امر مانع ہوتا چلا گیا ۔سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں فاتح سلطان محمد خان ثانی کو احساس ہوا کہ جب تک قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت جو سلطنت عثمانیہ کے بیچ واقع ہے‘ قائم رہے گی‘ خطرات اور مصائب کا سدباب نہ ہو گا۔ محمد خان ثانی جو کہ سکندر یونانی اور نپولین فرانسیسی سے زیادہ قوی القلب اور ارادہ کا مالک تھا‘ تمام رکاوٹوں کے باوجود قسطنطنیہ پر حملہ کردیا اور 19جمادی الاوّل 857ھ مطابق 28 مئی 1453ء کو فتح کرلیا۔سلطان مرادخان ثانی806ھ میں پیدا ہوئے ا ور اٹھارہ برس کی عمر میںدارالسلطنت ایڈریا نوپل میں باقاعدہ تخت سلطنت پر جلوس کیا۔

القصریا وادی الخازن کا واقعہ:
یہ واقعہ ملک مراکش ‘جسے ’’مراکو‘‘ بھی کہتے ہیں‘ کل ملک مراکش کو عرب مغرب الاقصیٰ بھی کہتے ہیں۔ مسلمانوں اور پرتگالیوں میں986ھ 1578ء میں جنگ ہو گئی جس میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب کی اور دشمنوں کو ان کے بادشاہ ’’سبیشیان‘‘ سمیت نیست ونابود کر دیا۔

حصہ