نماز جنازہ کے آداب

1033

-1 نماز جنازہ میں شرکت کا اہتمام کیجیے۔ جنازے کی نماز مردے کے لیے دعائے مغفرت ہے اور یہ میت کا اہم حق ہے۔ اگر اندیشہ ہو کہ وضو کرتے کرتے جنازے کی نماز ختم ہوجائے گی تو تیمیم کرکے ہی کھڑے ہوجائیں۔ نبیؐ کا ارشاد ہے جنازے کی نماز پڑھا کرو، شاید کہ اس نماز سے تم پر غم طاری ہو، غمگین آدمی اللہ کے سائے میں رہتا ہے اور غمگین آدمی ہر نیک کام کا استقبال کرتا ہے۔ (حاکم)

اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جس میت پر مسلمانوں کی تین صفیں نماز جنازہ پڑھتی ہیں اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ (ابودائود)

-2 نماز جنازہ کے لیے میت کی چارپائی اس طرح رکھیے کہ سر شمال کی جانب ہو اور پائوں جنوب کی جانب اور میت کا رخ قبلے کی طرف رکھیے۔

-3 اگر آپ نماز جنازہ پڑھا رہے ہوں تو اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ میت کے سینے کے مقابلے میں رہیں۔

-4 جنازے کی نماز میں صفوں کی تعداد ہمیشہ طاق رکھیے، اگر لوگ تھورے ہوں تو ایک صف بنایئے ورنہ تین (امام کے علاوہ اگرچھ آدمی ہوں تو بھی مستحب یہ ہے کہ تین صفیں بنائی جائیں پہلی صف میں تین افراد ہیں دوسری میں دو اور تیسری میں)، پانچ، سات جتنے افراد زیادہ ہوتے جائیں زیادہ صفیں بناتے جائیں لیکن تعداد طاق رہے۔

-5 نماز جنازہ شروع کریں تو یہ نیت کریں کہ ہم اس میت کے واسطے ارحم الراحمین سے مغفرت چاہنے کے لیے اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں، امام بھی یہ نیت کرے اور متقدی بھی یہی نیت کریں۔

-6 نماز جنازہ میں جو امام پڑھے وہی متقدی بھی پڑھیں۔ متقدی خاموش نہ رہیں، البتہ امام تکبیریں بلند آواز میں کہے اور متقدی آہستہ آہستہ۔

-7 نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھیے۔ پہلی تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک لے جایئے اور پھر ہاتھ باندھ لیجیے اور ثنا پڑھیے:

’’الٰہی تو پاک ہے اور برتر ہے اور اپنی حمد و ثنا کے ساتھ اور تیرا نام خیر و برکت والا ہے اور تیری بزرگی اور بڑائی بہت بلند ہے اور تیری تعریف بڑی عظمت والی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔

اب دوسری تکبیر پڑھیے لیکن تکبیر میںہاتھ نہ اٹھایئے اور نہ سر سے کوئی اشارہ کیجیے۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھیے:

’’الٰہی! تو محمد پر رحمت فرما اور ان کی آل پر رحمت فرما، جیسے تو نے رحمت فرمائی ابراہیم کی آل پر۔ بے شک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ الٰہی تو برکت نازل فرما محمد پر ان اور ان کی آل پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور ان کی آل پر، بے شک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے‘‘۔

اب بغیر ہاتھ اٹھائے تیسری تکبیر کہیے اور میت کے لیے مسنون دعا پڑھیے:

’’الٰہی! ہمارے زندوں، مردوں، ہمارے حاضروں، ہمارے غائبوں، ہمارے چھوٹوں، ہمارے بڑوں، ہمارے مردوں، ہماری عورتوں کی تو مغفرت فرمادے۔ الٰہی! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو تو موت دے تو اس کو ایمان کے ساتھ موت دے‘‘۔

اگر میت نابالغ لڑکے کی ہو تو یہ دعا پڑھیے:

’’الٰہی! تو اس لڑکے کو ہمارے لیے ذریعہ مغفرت بنا اور اس کو ہمارے لیے اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا اور ایسا سفارشی بنا جس کی سفارش قبول کرلی جائے‘‘۔

اگر اگر میت نابالغ لڑکی کی ہے تو یہ دعا پڑھیے۔ اس دعا کا مطلب بھی وہی ہے جو لڑکے کے لیے پڑھی جانے والی دعا کا ہے:

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا۔

-9 جنازے کے لیے جاتے ہوئے اپنے انجام کو سوچتے رہیے اور یہ غور کیجیے کہ جس طرح آج آپ دوسرے کو زمین کے حوالے کرنے جارہے ہیں، ٹھیک اسی طرح ایک دن دوسرے لوگ آپ کو لے جائیں گے۔ اس غم اور فکر کے نتیجے میں آپ کم از کم اتنے وقت کے لیے آخرت کے تصور میں گھلنے کی سعادت پائیں گے اور دنیا کی الجھنوں اور باتوں سے محفوظ رہیں گے۔

میت کے آداب:
-1 جب کسی قریب المرگ کے پاس جائیں تو ذرا بلند آواز میں کلمہ ’’لآإلٰــہَ إلَّا اللہُ مُـحَـمَّـدُ رَّسُـوْلُ اللہ‘‘ پڑھتے رہیں، مریض سے پڑھنے کے لیے نہ کہیں، نبیؐ کا ارشاد ہے کہ ’’جب مرنے والوں کے پاس بیٹھو تو کلمہ کا ذکر کرتے رہو۔‘‘ (مسلم)

-2 نزع کے وقت سورۂ یٰسین کی تلاوت کیجیے، نبیؐ کا ارشاد ہے کہ مرنے والوں کے پاس سورۃ یٰسین پڑھا کرو (عالمگیر 100، جلد1) ہاں دم نکلنے کے بعد جب تک مردے کو غسل نہ دیا جائے اس کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف نہ پڑھیے اور وہ آدمی جس کو نہانے کی ضرورت ہو اور حیض و نفاس والی عورت بھی مردے کے پاس نہ جائے۔

-3 موت کی خبر سن کر ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ پڑھیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے کہ جو آدمی کسی مصیبت کے موقع پر ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے لیے تین اجر ہوتے ہیں:

اول: یہ کہ اس پر اللہ کی طرف سے رحمت اور سلامتی اترتی ہے۔

دوم: یہ کہ اس کو حق کی تلاش و جستجو کا اجر ملتا ہے۔

سوم: یہ کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے اور اس کو فوت ہونے والی چیز کا اس سے اچھا بدلہ دیا جاتا ہے۔ (طبرانی)

-4 میت کے غم میں چیخنے چلانے اور بین کرنے سے پرہیز کیجیے، البتہ غم میں آنسو نکل جائیں تو یہ فطری بات ہے۔ نبیؐ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ کا انتقال ہوا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ اسی طرح آپؐ کے نواسے ابن زینبؓ کا انتقال ہوا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پوچھا گیا یا رسولؐ اللہ یہ کیا؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دی ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے انہی بندوں پر رحمت فرماتا ہے جو رحم کرنے والے ہیں‘‘۔

اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو منہ پر طمانچے مارے، گریبان پھاڑے، جاہلیت کی طرح بین کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔

-5 جان نکلنے کے بعد میت کے ہاتھ پیر سیدھے کردیجیے، آنکھیں بند کردیجیے اور ایک چوڑی پٹی ٹھوڑی کے نیچے سے نکال کر سر کے اوپر باندھ دیجیے اور پائوں کے دونوں انگوٹھے ملا کر دھجی سے باندھ دیجیے اور چادر سے ڈھک دیجیے اور یہ پڑھتے رہیے۔

بِسْمِِ اللّٰہِ وَعَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ’’اللہ کے نام سے اور رسولؐ اللہ کی ملت پر‘‘ اور لوگوں کو وفات کی اطلاع کرادیجیے اور قبر میں اتارتے وقت بھی یہی دعا پڑھیے۔

-6 میت کی خوبیاں بیان کیجیے اور برائیوں کا ذکر نہ کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کیا کرو اور ان کی برائیوں سے زبان کو بند رکھا کرو‘‘۔ (ابودائود) اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جب کوئی شخص مرتا ہے اس کے چار پڑوسی اس کے بھلا ہونے کی گواہی دیتے ہیں تو خدا فرماتا ہے میں نے تمہاری شہادت قبول کرلی اور جن باتوں کا تمہیں علم نہیں تھا وہ میں نے معاف کردیں‘‘ (ابن حبان)

ایک بار نبیؐ کے حضور صحابہؓ نے ایک جنازے کی تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اس کے لیے جنت واجب ہوگئی لوگو! تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو، تم جس کو اچھا کہتے ہو اللہ اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور تم جس کو برا کہتے ہو اللہ اس کو دوزخ میں بھیج دیتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جب کسی مریض کی عیادت کو جائو یا کسی جنازے میں شرکت کرو ہمیشہ زبان سے خیر کے کلمات کہو کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے جاتے ہیں‘‘ (مسلم)

-7ہمیشہ موت پر صبر و استقلال کا مظاہرہ کیجیے، کبھی زبان سے کوئی ناشکری کا کلمہ نہ نکالیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’جب کوئی شخص اپنے بچے کے مرنے پر صبر کرتا ہے تو اللہ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے، کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔ فرشتے جواب دیتے ہیں، پروردگار ہم تیرا حکم بجالائے۔ پھر خدا پوچھتا ہے تم نے میرے بندے کے جگر گوشے کی جان قبض کرلی؟ وہ کہتے ہیں جی ہاں۔ پھر وہ پوچھتا ہے تو میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں پروردگار اس نے تیری حمد کی اور ’’انا اللہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا تو خدا فرشتوں سے کہتا ہے میرے اس بندے کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد (شکر کا گھر) رکھو‘‘۔ (ترمذی)

-8 مردے کو نہلانے دھلانے میں دیر نہ کیجیے، غسل کے پانی میں بیری کے پتے ڈال کر ہلکا گرم کرلیجیے تو اچھا ہے۔ مردے کو پاک صاف تختے پر لٹایئے، کپڑے اتار کت تہبند ڈال دیجیے۔ ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر پہلے چھوٹا بڑا استنجا کرایئے اور خیال رکھیے کہ تہبند ڈھکا رہے۔ پھر وضو کرایئے، وضو میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں، غسل کراتے وقت کان اور ناک میں روئی رکھ دیجیے تاکہ پانی اندر نہ جائے۔ پھر سر کو صابن یا کسی اور چیز سے اچھی طرح دھوکر صاف کردیجیے۔ پھر بائیں کروٹ لٹا کر دائیں جانب سر سے پائوں تک پانی ڈالیے، پھر اسی طرح بائیں طرف پانی سر سے پائوں تک ڈالیے۔ اب بھیگا ہوا تہبند ہٹا دیجیے اور سوکھا تہبند ڈال دیجیے اور پھر اٹھا کر چارپائی پر کفن میں لٹا دیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’جس نے کسی میت کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپایا، اللہ ایسے بندے کے چالیس کبیرہ گناہ بخش دیتا ہے اور جس نے کسی میت کو قبر میں اتارا تو گویا اس نے میت کو روز حشر تک کے لیے رہنے کا امکان مہیا کیا‘‘(طبرانی)

-9 کفن اوسط درجے کے سفید کپڑے کا بنایئے، نہ زیادہ قیمتی بنایئے اور نہ بالکل گھٹیا بنایئے، مردوں کے لیے کفن میں تین کپڑے رکھیے، ایک چادر، ایک تہبند اور ایک کفنی یا کرتا۔ چادر کی لمبائی میت کے قد سے زیادہ رکھیے تاکہ سر اور پائوں دونوں جانب سے باندھا جاسکے اور چوڑائی اتنی رکھیے کہ مردے کو اچھی طرح لپیٹا جاسکے۔ عورتوں کے لیے ان کپڑوں کے علاوہ ایک سر بند رکھیے، جو ایک گز سے کچھ کم چوڑا اور ایک گز سے زیادہ لمبا ہو اور بغل سے لے کر گٹھنے تک کا ایک سینہ بند بھی رکھیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جس نے کسی میت کو کفن پہنایا تو اللہ اس کو جنت میں سندس اور استبرق کا لباس پہنائے گا‘‘ (حاکم)

-10 جنازہ قبرستان کی طرف ذرا تیز قدموں سے لے جایئے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’جنازے میں جلدی کرو‘‘۔ حضرت ابن مسعود نے نبیؐ سے پوچھا یا رسولؐ اللہ! جنازے کو کس رفتار سے لے جایا کریں؟ فرمایا: ’’جلدی جلدی دوڑنے رفتار سے کچھ کم، اگر مردہ صاحب خیر ہے تو اس کو انجام خیر تک جلدی پہنچائو اور اگر صاحب شر ہے تو اس کے شر کو اپنے سے جلد دور کرو‘‘ (ابودائود)

-11 جنازے کے ساتھ پیدل جایئے، نبیؐ ایک جنازے کے ساتھ چلے اور آپؐ نے دیکھا کہ چند آدمی سوار ہیں۔ آپؐ نے ان سے کہا: ’’تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھ پر ہو‘‘۔ البتہ جنازے سے واپسی پر سواری پر آسکتے ہیں۔ نبیؐ ابوواحدی کے جنازے میں پیدل گئے اور واپسی میں گھوڑے پر سوار ہوکر آئے۔

-12 جب آپ جنازہ آتے دیکھیں تو کھڑے ہوجائیں، پھر اگر اس کے ساتھ چلنے کا ارادہ نہ ہو تو ٹھہر جایئے کہ جنازہ کچھ آگے نکل جائے۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’جب تم جنازہ کو دیکھو تو کھڑے ہوجائو اور جو لوگ جنازے کے ساتھ جائیں وہ اس وقت تک نہ بیٹھیں جب تک جنازہ نہ رکھا جائے‘‘۔

-13 نماز جنازہ پڑھنے کا بھی اہتمام کیجیے اور جنازے کے ساتھ جانے اور کندھا دینے کا بھی اہتمام کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ وہ جنازے کے ہمراہ جائے‘‘۔ اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو شخص جنازے میں شریک ہوا اور جنازے کی نماز پڑھی تو اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے، نماز کے بعد جو دفن میں بھی شریک ہو اس کو دو قیراط کے برابر ثواب دیا جاتا ہے‘‘۔

کسی نے پوچھا دو قیراط کتنے بڑے ہوں گے؟ فرمایا: ’’دو پہاڑوں کے برابر‘‘ (بخاری، مسلم)

-14 مردے کی قبر شمال جنوب لمبائی میں کھدوایئے اور مردے کو قبر میں اتارتے وقت قبلے کی طرف رکھ کر اتاریئے۔ اگر مردہ ہلکا ہو تو دو آدمی اتارنے کے لیے کافی ہیں ورنہ حسب ضرورت تین یا چار آدمی اتاریں، اتارتے وقت میت کا رخ قبلے کی طرف کردیجیے اور کفن کی گرہیں کھول دیجیے۔

-15 عورت کو قبر میں اتارتے وقت پردے کا اہتمام کیجیے۔

-16 قبر پر مٹی ڈالتے وقت سرہانے سے ابتدا کیجیے اور دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر پر تین بار قبر پر ڈالیے۔ پہلی مرتبہ مٹی ڈالتے وقت پڑھیے:

مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ’’اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا‘‘۔ دوسری بار مٹی ڈالتے وقت پڑھیےوَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ’’اسی زمین میں ہم تمہیں لوٹا رہے ہیں‘‘ اور تیسری بار جب مٹی ڈالیں تو پڑھیےوَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی’’اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے‘‘۔

-17 میت کی قبر کو نہ زیادہ اونچا کیجیے اور نہ چوکور بنایئے، بس اتنی ہی مٹی قبر پر ڈالیے جو اس کے اندر سے نکالی ہے اور مٹی ڈالنے کے بعد تھوڑا سا پانی چھڑک دیجیے۔

-18 دفن کرنے کے بعد کچھ دیر قبر کے پاس ٹھہریئے اور لوگوں کو بھی توجہ دلایئے کہ استغفار کریں۔ نبیؐ دفن کے بعد خود بھی استغفار فرماتے اور لوگوں سے بھی فرماتے ’’یہ وقت حساب کا ہے اپنے بھائی کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو اور مغفرت طلب کرو‘‘ (ابودائود)

-19عزیزوں، رشتہ داروں یا پاس پڑوس میں کسی کے یہاں میت ہوجائے تو اس کے یہاں دو ایک وقت کا کھانا بھجوادیجیے۔ اس لیے کہ وہ غم میں پریشان ہوں گے۔ جامع ترمذی میں ہے کہ جب حضرت جعفرؓ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کردو، وہ آج مشغول ہیں‘‘۔

-20 تین دن سے زیادہ میت کا سوگ نہ کیجیے، البتہ کسی عورت کا شوہر مر جائے تو اس کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔ جب ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے والد ابوسفیان کا انتقال ہوا تو بی بی زینبؓ ان کے پاس تعزیت کے لیے گئیں۔ حضرت ام حبیبہؓ نے خوشبو منگوائی، اس میں زعفران کی زردی وغیرہ ملی ہوئی تھی۔ ام المومنین نے وہ خوشبو اپنی باندی کے ملی اور پھر کچھ اپنے منہ پر ملی اور پھر فرمانے لگیں: ’’خدا شاہد ہے مجھے خوشبو کی کوئی (باقی صفحہ ؟؟پر)

ضرورت نہیں تھی مگر میں نے نبیؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتی ہے وہ کسی مردے کا سوگ تین دن سے زیادہ نہ منائے، البتہ شوہر کے سوگ کی مدت چار مہینے اور دس دن ہے‘‘ (ابودائود)

-21 میت کی طرف سے حسب حیثیت صدقہ اور خیرات بھی کیجیے۔ البتہ اس معاملہ میں غیر مسنون رسموں سے سختی کے ساتھ بچنے کی کوشش کیجیے۔

قبرستان کے آداب

-1جنازہ کے ساتھ قبرستان بھی جایئے اور میت کے دفنانے میں شریک رہیے اور کبھی ویسے بھی قبرستان جایا کیجیے۔ اس سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور موت کی بعد کی زندگی کے لیے تیاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ نبیؐ ایک جنازے کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں ایک قبر کے کنارے بیٹھ کر آپؐ اس قدر روئے زمین تر ہوگئی۔ پھر صحابہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’بھائیو! اس دن کے لیے تیاری کرو‘‘ (ابن ماجہ)

اور ایک مرتبہ قبر کے پاس بیٹھ کر آپؐ نے فرمایا ’’قبر روزانہ انتہائی بھیانک آواز میں پکارتی ہے، اے آدم کی اولاد تو مجھے بھول گئی! میں تنہائی کا گھر ہوں، میں اجنبیت اور وحشت کا مقام ہوں، میں کیڑے مکوڑوں کا مکان ہوں، میں تنگی اور مصیبت کی جگہ ہوں، ان خوش نصیبوں کے علاوہ جن کے لیے خدا مجھ کو کشادہ اور وسیع کردے، میں سارے انسانوں کے لیے ایسی ہی تکلیف دہ ہوں‘‘۔ اور آپؐ نے فرمایا ’’قبر یا تو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے‘‘ (طبرانی)

-2 قبرستان جاکر عبرت حاصل کرو اور تصور کی قوتیں سمیٹ کر موت کے بعد زندگی پر غور و فکر کرنے کی عادت ڈالو۔ ایک بار حضرت علیؓ قبرستان میں تشریف لے گئے، آپؐ کے ہمراہ حضرت کمیلؓ بھی تھے۔ قبرستان پہنچ کر آپ نے ایک نظر قبروں پر ڈالی اور پھر قبر والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اے قبر کے بسنے والو! اے کھنڈروں میں رہنے والو! اے وحشت اور تنہائی میں رہنے والو! کہو تمہاری کیا خیر خبر ہے؟ ہمارا حال تو یہ ہے کہ مال تقسیم کرلیے گئے، اولادیں یتیم ہوگئیں، بیویوں نے دوسرے خاوند کرلیے، یہ تو ہمارا حال ہے اب تم بھی اپنی خیر خبر سنائو۔ پھرآپ کچھ دیر خاموش رہے، اس کے بعد کمیلؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’کمیلؓ اگر ان قبر کے باشندوں کوبولنے کی اجازت ہوتی تو یہ کہتے:’’بہترین توشہ پرہیز گاری ہے‘‘۔ یہ فرمایا اور رونے لگے، دیر تک روتے رہے پھر بولے: ’’کمیل! قبر عمل کا صندوق ہے اور موت کے وقت ہی یہ بات معلوم ہوجاتی ہے‘‘۔

-3 قبرستان میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھیے:

’’سلامتی ہو تم پر اے اس بستی کے رہنے والو اطاعت گزار مومنو! ان شاء اللہ ہم بھی بہت جلد تم سے ملنے والے ہیں، ہم اپنے اور تمہارے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے عذاب اور غضب سے بچائے‘‘۔

-4قبرستان میں غافل اور لاپروا لوگوں کی طرح ہنسی مذاق اور دنیاوی باتیں نہ کیجیے۔ قبر آخرت کا دروازہ ہے ، اس دروازے کو دیکھ کر وہاں کی فکر اپنے اوپر طاری کرکے رونے کی کوشش کیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں قبرستان جانے سے روک دیا تھا (کہ عقیدۂ توحید تمہارے دلوں میں پوری طرح گھر کر جائے) سو اب اگر تم چاہو تو جائو کیونکہ قبریں آخرت کی یادتازہ کرتی ہیں‘‘ (مسلم)

-5 قبروں کو پختہ بنانے اور سجانے سے پرہیز کیجیے۔ نبیؐ پر جب نزع کی کیفیت طاری تھی، درد کی تکلیف سے آپؐ انتہائی مضطرب تھے۔ کبھی آپؐ چادر منہ پر ڈالتے اور کبھی الٹ دیتے، اسی غیر معمولی اضطراب میں حضرت عائشہؓ نے سنا، زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے ’’یہودی نصاریٰ پر اللہ کی لعنت انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا‘‘۔

-6قبرستان جاکر مردوں کے لیے ایصال ثواب کیجیے اور اللہ سے مغفرت کی دعا کیجیے۔ حضرت سفیانؓ فرماتے ہی جس طرح زندہ انسان کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں اسی طرح مردے دعا کے انتہائی محتاج ہوتے ہیں۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ خدا جنت میں ایک نیک بندے کا مرتبہ بلند فرماتا ہے تو وہ بندہ پوچھتا ہے پروردگار مجھے یہ رتبہ کہاں سے ملا؟‘‘ خدا فرماتا ہے ’’تیرے لڑکے کی وجہ سے کہ وہ تیرے لیے استغفار کرتا رہا۔