قلم کی گواہی ثابت کریں

218

کسی بھی معاشرے کی خوبیوں یا خامیوں کو اجاگر کرنے کے لیے کچھ ایسے افراد کو ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے جو اپنے حساس دل اور خوب صورت مثبت سوچ کے ذریعے لوگوں کے اندر غیر محسوس انداز سے تبدیلی لا سکیں۔ ایسے بااثر افراد میں سے ایک گروہ رائٹرز کا بھی ہوتا ہے جو اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کے دلوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی تحریریں معاشرے میں خوشگوار تبدیلی لانے کا سبب بنتی ہیں۔

ایسے ہی باصلاحیت اور پُرعزم افراد کی ایک محفل سجی، جمعہ کے مبارک دن حریمِ ادب پاکستان کی صدر عالیہ شمیم صاحبہ کی خوب صورت رہائش گاہ میں… جہاں پنجاب سے آئی ہماری معزز مہمان مشہور مصنفہ، مدرسہ، معلمہ قانتہ رابعہ صاحبہ کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کے لیے دعوت نامے بھیجنے کا کام کراچی حریم ادب کی نگران عشرت زاہد صاحبہ نے سنبھالا اور کیا خوب سنبھالا۔ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق کم وقت میں جہاں جہاں، جس جس کو دعوت پہنچا سکتی تھیں، پہنچائی۔

’’انسان کی زبان پھسل سکتی ہے لیکن اس کے قلم کو نہیں پھسلنا چاہیے۔ قلم کا لکھا انسان کو سولی پر بھی چڑھا سکتا ہے اور یہ قلم اس کو عرش پہ بھی بٹھا سکتا ہے، اور ذرا سی بے احتیاطی اسے اسفل السافلین کے درجے پر بھی پہنچا سکتی ہے۔ اسی لیے خدا کے حضور جواب دہی کا احساس آپ کے قلم کو محتاط کردیتا ہے۔‘‘ یہ کہنا تھا قانتہ رابعہ صاحبہ کا، جو کہ مختلف سوالوں کے جواب دے رہی تھیں۔

اس پُروقار نشست میں شرکت کے لیے کراچی کے کونے کونے سے خواتین رائٹرز قانتہ رابعہ سے ملاقات کے شوق میں وقت سے پہلے جمع ہوگئی تھیں۔ ان میں سے اکثر خواتین ایک دوسرے کو تحریروں کے حوالے سے ضرور جانتی تھیں لیکن چہروں سے ناواقف تھیں، اسی لیے آگے بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے خود ہی تعارف حاصل کررہی تھیں، اور پھر ہر کونے سے وقفے وقفے سے خوشی اور تحیر آمیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو ایک دوسرے سے تعارف حاصل ہونے کے بعد بے ساختہ منہ سے نکلتی تھیں۔

یہاں موجود خواتین رائٹرز دامے، درمے، سخنے اس معاشرے کو اصلاحی ادب فراہم کرنے کی کوششوں میں حریم ادب کے شانہ بہ شانہ کھڑی نظر آئیں، اور پروگرام کے اختتام پر اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ اصلاحی ادب کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

صدر حریم ادب عالیہ شمیم صاحبہ کے ہاتھوں کی بنی مزیدار نہاری، نفیس مٹر پلائو، سینڈوچز اور زعفرانی کھیر سے لطف اندوز ہونے کے بعد گفتگو کا سیشن ہوا، جس میں قانتہ رابعہ صاحبہ کی بہترین اور پُرمغز گفتگو نے سامعین کو مسحور کردیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ وقت کہیں تھم گیا ہے، دل نہیں چاہ رہا تھا کہ یہ محفل اختتام پذیر ہو۔

محفل میں ڈاکٹر عزیزہ انجم، ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی، افشاں نوید، نصرت یوسف، فریحہ مبارک، شہلا خضر، روبینہ فرید، افشاں مراد(راقم الحروف)، عینی عرفان، آسیہ عمران، طلعت نفیس، ثمینہ عابد، نگران حریم ادب عشرت زاہد، فرحی نعیم، بانی حریم ادب محترمہ عقیلہ اظہر، پاکیزہ ڈائجسٹ کی مدیرہ نزہت اصغر، معروف صحافی حمیرا اطہر، عالیہ زاہد بھٹی، حریم ادب کراچی کی پوری ٹیم اور بہت سی دوسری مصنفات جن کی تحریریں قارئین ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں، اس ایک چھت تلے جمع تھیں۔

کھانے کے بعد ڈاکٹرعزیزہ انجم نے باقاعدہ گفتگو کا آغاز کیا اور قانتہ رابعہ صاحبہ کا مختصر تعارف پیش کیا۔ قانتہ رابعہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے قلم کی شہسوار ہیں اور مختلف اخبارات، رسالوں اور فورمز پر اپنی تحریروں سے عوام کے دلوں پر راج کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے شہر میں اپنی تحریروں کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی قرآن کلاسز کے لیے مشہور ہیں۔ اللہ اللہ! یہ رتبہ اور یہ شان خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے کہ اس ربِّ کائنات کے کلام کے حوالے سے کسی کو پہچان مل جائے۔

قانتہ رابعہ صاحبہ کا کہنا تھا کہ ہم سب اللہ کے سپاہی ہیں، وقتِ آخر سب کچھ ختم ہوجائے گا صرف قلم باقی رہ جائے گا۔ قیامت میں جب قلم کی سیاہی اور شہید کے خون کو تولا جائے گا تو دونوں برابر ہوں گے اور پھر قلم کی سیاہی کا پلڑا جھک جائے گا۔ قلم کی حرمت کی قسم تو رب نے بھی کھائی ہے۔ قلم کی لغزش انسان کو سولی پہ لٹکا سکتی ہے اور قلم کی گواہی اسے عرش پہ بٹھا سکتی ہے۔

’’آپ کس احساس کے تحت لکھتی ہیں؟‘‘ اس سوال کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ جب بھی خیالات کی آمد ہوتی ہے تو ان کو فوراً لکھ لیتی ہوں۔ جب خیالات کی آمد ہو تو ان خیالات کو فوراً لکھ لیں ورنہ وہ دوسرے کے پاس چلے جاتے ہیں۔ خیالات اللہ کی طرف سے لہریں ہوتی ہیں جنہیں فوراً لکھ لیں تو وہ آپ کے قابو میں آجاتی ہیں ورنہ دوسرے کے پاس چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی کے دن عین بارات کی آمد کے وقت ان کے ذہن میں افسانہ آیا اور انہوں نے اُسی وقت اس کو لکھ لیا۔ بارات دروازے پر کھڑی تھی اور انہوں نے اپنے خیالات کو صفحہ قرطاس کی زینت بنا ڈالا۔

’’اتنا کیسے لکھ لیتی ہیں؟‘‘ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نمازیں اوّل وقت میں ادا کرنا شروع کردیں، آپ کے سارے کام وقت پر ہونا شروع ہوجائیں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں تک حق اور اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا مطالعہ بھی وسیع ہو۔ جتنا زیادہ مطالعہ ہوگا اتنا ہی آپ کی تحریر میں پختگی آئے گی۔ اپنی تحریر میں سچائی اور دیانت داری لائیں تو وہ خود بہ خود قاری کے دل میں اترے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر لوگوں تک سنت کو پہنچانا ہے تو اس کے لیے سیرت کا بھرپور اور گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ اتنا مشہور ہونے، صاحبِ کتاب ہونے اور پہچان لیے جانے پر کیا محسوس کرتی ہیں؟کیا کبھی اپنے آپ پر فخر ہوا؟

انہوں نے کہا کہ میں کیا میری اوقات کیا! یہ صرف اللہ کی توفیق اور کرم ہے جو میں یہ سب کر پاتی ہوں، لیکن میں اس شہرت کو خوشی سے آگے نہیں بڑھنے دیتی، کیوں کہ پھر اس کے آگے غرور اور تکبر آجاتا ہے جو کہ اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اس سے بچنے کے لیے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعائیں پڑھتی ہوں اور اپنی اوقات یاد رکھتی ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اس طرح اپنی تحریروں کو منظم رکھتی ہیں کہ شائع شدہ تحریروں کی الگ فائل اور غیر شائع شدہ کی الگ فائل بناتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی کچھ ہی دن میں ان کی تین کتابیں مارکیٹ میں آنے والی ہیں جن کی پرنٹنگ کا کام جاری ہے۔

اس محفل میں سینئر رائٹر، افسانہ نگار اور شاعرہ ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی بھی موجود تھیں۔ افشاں نوید صاحبہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی کتنی کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں اور آئندہ کتاب کب آرہی ہے؟

اس کے جواب میں ڈاکٹر سلیس نے بتایا کہ ان کی تین کتابیں چھپ چکی ہیں اور ابھی آئندہ کتاب کا ارادہ نہیں، کیوں کہ یہ سارے کام میرے مرحوم شوہر ذاتی دل چسپی سے کرتے تھے اور کتاب چھپوانے کے سارے معاملات کو وہی سلجھاتے تھے۔ میرے ہاتھوں میں تو بس کتاب آجاتی تھی۔ اس لیے اب نئی کتاب کے بارے میں سوچا نہیں۔

ایک رائٹر کا قانتہ صاحبہ سے سوال تھا کہ اب تو قلم سے نہیں لکھا جاتا، اب تو سب کچھ ڈیجیٹل ہوگیا ہے تو کیا ہمارا لکھا معتبر کہلائے گا؟ ہمارے حق میں گواہی بنے گا؟ وہ جو قلم کے تصور کے ساتھ گواہی کا تصور ہے!

اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بالکل، جدید دور کے جدید تقاضے ہیں۔ اگر آپ حق، سچ اور مثبت لکھ رہی ہیں تو وہ آپ کے حق میں گواہی بنے گا، چاہے اسے آپ نے موبائل، لیپ ٹاپ یا کاغذ قلم پر لکھا… بس قلم کی گواہی کو ثابت کریں۔

اسی کے ساتھ یہ خوب صورت محفل اختتام پذیر ہوئی۔

حصہ