جہاد فلسطین : چند امید افزا پہلو

385

ارضِ فلسطین جسے ’’انبیا کی سرزمین‘‘ بھی کہا جاتا ہے، آج لہولہان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں سے آنے والی زخمی بچوں اور لاشوں کی تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اسی امتِ مسلمہ کے جگر گوشے ہیں اور یہ امت ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ ان حالات میں ایک جنگ وہ بھی ہے جو سوشل میڈیا پر لڑی جارہی ہے، آپ اسے ’’نظریات کی جنگ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ حماس پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسے کیا ضرورت تھی اپنے سے بڑی طاقت یعنی اسرائیل سے پنگا لینے کی؟ بعض لوگ حماس کو شیعہ تنظیم ثابت کررہے ہیں، اور کچھ تو اسے اسرائیل کی اپنی تیار کردہ جماعت کا نام دے رہے ہیں۔ حقیقت ان سب مفروضوں سے بالکل مختلف ہے۔ ’’حماس‘‘ کا اصل نام ’’حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ‘‘ ہے۔ یہ ایک سنّی تنظیم ہے جس کی بنیاد ’’شیخ احمد یاسین‘‘ نے 1987ء میں رکھی تھی اور انھوں نے شہید ہونے سے قبل پیش گوئی کی تھی کہ اسرائیل 2025ء تک اِن شاء اللہ ختم ہوجائے گا۔ حماس کی حالیہ جدوجہد اسی نصب العین کی طرف پیش رفت ہے۔ فلسطینی مسلمان کئی برس سے اسرائیلی ظلم کا نشانہ ہیں لیکن ’’قبلۂ اوّل بیت المقدس‘‘ کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ 7 اکتوبر سے جہاد کی نئی لہر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ناجائز تسلط سے آزادی کی تحریک ہے جو فلسطینیوں کا حق ہے۔ اس تحریک کو ایک نئی انتفاضہ کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ اس کے چند امید افزا پہلوؤں کو سامنے لانا بہت ضروری ہے تاکہ معاملے کو درست رُخ میں دیکھا جا سکے۔ اوّل یہ کہ حماس نے غاصب قوت اسرائیل سے برسرِ پیکار ہوکر اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا امیج ختم کردیا ہے۔ دوم یہ کہ اسرائیل کی ٹیکنالوجی حفاظتی شیلڈ کا تصور بھی ختم کردیا ہے۔ سوم، اپنے خودساختہ ہتھیاروں یاسین 105، تارپیڈو وغیرہ سے اسرائیل کی جدید ٹیکنالوجی کو شکست اور ہزیمت سے دوچار کردیا ہے۔ یہودی خود اپنی انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں۔

’’موساد‘‘ کے سابق چیف نے لکھا کہ ’’شاید موسیٰ کا خدا ہم سے ناراض ہوگیا ہے۔‘‘ چہارم، تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کے شہریوں نے خوف زدہ ہوکر ملک سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پنجم، اسلامی ممالک میں سے جو ممالک بیرونی دباؤ کے زیرِ اثر اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے، اب وہ اپنے اس ارادے میں ناکام ہوگئے ہیں بلکہ عوام میں فلسطین کی حمایت دیکھ کر غزہ میں جنگ بندی کا مؤقف اپنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ششم، فلسطین میں جاری جہاد نے مومنین اور منافقین کی پہچان واضح کردی ہے اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم نے ثابت کیا ہے کہ ’’امتِ مسلمہ‘‘ کا ضمیر ابھی زندہ ہے اور وہ اپنے بھائیوں کے خون کی قیمت پر تجارت نہیں کرے گی۔ ہفتم، حماس کے جہاد نے دنیا بھر میں جدوجہدِ آزادی کی دیگر تحاریک کو تقویت بخشی ہے۔ قرآن پاک کی اس آیت کے مصداق ’’کتنی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت، بڑی جماعت پر غالب آگئی اللہ کے حکم سے، اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ 249)

بہرحال یہ جہاد ابھی جاری ہے اور ہر مسلمان کو اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے، کیوں کہ فلسطینی اپنے رب کے ہاں سرخ رو ہوچکے، اصل امتحان تو ہمارا ہے کہ ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں! بقول اقبال

آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

حصہ