غزہ کی ایک رات

429

’’اُف اللہ آج تو تھکن سے برا حال ہوا جارہا ہے۔‘‘ بستر پر لیٹتے ہی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ شدید بمباری شروع ہوگئی۔ ’’اُف میرے خدا! رات کے اِس پہر کہاں جائیں؟ پتا نہیں یہ ظلم کی برسات کب ختم ہوگی؟ لگ رہا تھا پورا گھر ہل رہا ہے‘‘۔ اس نے مضبوطی سے بستر کے کناروں کو پکڑ لیا۔ خوف سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ ابھی وہ سمجھ بھی نہ پائی تھی کہ کہاں بمباری ہورہی ہے کہ کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔

بستر سے اٹھنے کی ہمت نہ تھی، دروازے تک کیسے جاتی! اپنے برابر لیٹے زید کو اس نے جھنجھوڑ دیا ’’دیکھو دروازے پہ کوئی ہے… دیکھو کون ہے؟‘‘

زید نے بھاگتے ہوئے دروازے تک کا سفر طے کیا… اور جب دروازہ کھولا تو تسلیم خالہ اور ان کا بیٹا… زخم زخم کھڑے تھے۔ ان کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا کیوں کہ وقاص انکل شدید زخمی تھے اور وہ دونوں انہیں سہارا دے کر لائے تھے۔ وقاص صاحب کا سر پھٹ گیا تھا اور جبڑا بھی شدید زخمی تھا۔

وقاص انکل گلی کے نکڑ پر پہلے مکان میں رہتے تھے۔ ان کا گھر تباہ ہوگیا تھا… اور تسلیم آنٹی اور ان کا بیٹا انہیں کسی طرح سہارا دے کر لائے تھے۔ زیادہ خون بہہ جانے سے ان پر غشی طاری ہورہی تھی۔

اس نے جلدی سے انہیں بستر پر لٹایا اور چولہے پر پانی گرم کرنے کے لیے رکھا، ساتھ دودھ بھی گرم کرکے لے آئی۔ بم باری اب بھی شدت سے ہورہی تھی۔ زید کے ساتھ مل کر اسما نے ان تینوں کے زخم صاف کیے، انہیں دودھ دیا، ساتھ کھجوریں پیش کیں۔ ایک ہفتہ پہلے گھر میں راشن ختم ہوچکا تھا، زید بے چارا راشن لینے کے لیے نکلتا مگر کوئی دکان سلامت نہ تھی۔ کل کی شدید بمباری نے پوری مارکیٹ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا تھا، اور وہ پلازہ بھی نیچے آگرا تھا جس کے نیچے دکانیں تھیں۔

’’آنٹی! آپ بھی لیٹ جائیں، رات کافی ہوچکی ہے، اب تو صبح ہی کوئی ڈاکٹر مل سکے گا۔‘‘

’’مگر بیٹا! وقاص صاحب کے زخم بہت گہرے ہیں۔‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو جمع ہورہے تھے۔ ان کی بیٹی بھی تو گھر کے ملبے میں ہی دفن ہوگئی تھی، وہ کیسے آرام سے لیٹ سکتی تھیں! وقاص صاحب کی جان بچ جانے کی امید دلا کر ارحم انہیں اسما کے گھر آنے پر آمادہ کرسکا تھا ورنہ اپنی بیٹی کو گھر میں چھوڑنے پر وہ آمادہ نہ تھیں، حالانکہ ان کی بیٹی نے ان کے سامنے کلمہ پڑھ کر شہادت کو گلے لگایا تھا مگر وہ اب بھی اُس کی زندگی کے لیے پُرامید تھیں… ماں کا دل تو پھر ماں کا دل ہے نا۔زید کو ڈاکٹر صاحب یاد آئے جو تین گھر چھوڑ کر رہتے تھے، وہ ارحم کو لے کر نکل پڑا۔

’’زید بم باری ہورہی ہے، ذرا دھیان کرنا۔‘‘ اسما کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔

وہ مسکرایا ’’یہ جان تو اُس کی امانت ہے۔‘‘ اُس کی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں۔ ڈاکٹر صاحب اتنی رات کو بھی اٹھ کر بھاگے چلے آئے۔ یہاں سب کے دکھ سانجھے تھے۔ یہ غزہ کی پٹی تھی، دیوانوں متوالوں کی بستی… جہاں ہر طرف خون ہی خون ہے… زخمی ہی زخمی… اپنے زخموں سے پیار کرنے والے، بڑے بڑے دکھوں پر صبر کرنے والے، ہر فیصلہ اوپر والے پر چھوڑ دینے والے، بغیر دوائیوں کے علاج کرنے والے… ان کو شفا دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔

باپ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں کو دفن کررہے ہیں… اور مائیں گودوں میں بچوں کے چہروں سے خون پونچھ رہی ہیں۔ آج صبح ہی ایک معصوم بچے کے سب گھر والے شہید ہوگئے تو وہ پکار رہا تھا کہ ’’کہاں ہیں عرب…؟ کہاں ہیں مسلمان…؟ کہاں ہیں سب…؟ ہمیں تمہاری ہمدردی نہیں چاہیے… ہمیں صرف اللہ چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب نے دوا کے ساتھ وقاص صاحب کی ڈریسنگ بھی کردی۔ تسلیم آنٹی نے ہمت کرکے پوچھا ’’کیا خون رُک پائے گا اس ڈریسنگ سے؟‘‘

’’ہاں کیوں نہیں… جو خون دینے والا ہے یہ خون بھی وہی روکے گا، یقین کیجیے بہن! اسرائیل کے اس حملے نے جس طرح اللہ سے ہمیں قریب کردیا ہے کوئی بڑے سے بڑا تربیتی کیمپ نہیں کرسکتا۔ ذرا سی معمولی دوائیں بڑے بڑے زخم بھر رہی ہیں۔ کتنے ہی موت کے قریب مریض میں واپس زندگی کی طرف آتے دیکھ چکا ہوں۔ یہ تو خود اللہ کی جنگ ہے، وہی لڑے گا۔ ہم آپ تو بہت معمولی لوگ ہیں… ہم کیا مقابلہ کریں گے! اب دیکھیے کوئی یقین کرے گا کہ اتنے زبردست دفاعی سسٹم کو یہ معمولی راکٹ توڑ کر اندر پہنچ جائیں گے، ایک دو نہیں ہزاروں…! پھر سب نشانے پر لگے۔ یہ تو میدانِ بدر کا سماں ہے۔ ایک ایک صحابیؓ کا حملہ فرشتے نشانے پر بٹھاتے جاتے ہیں۔ اور پھر اسرائیلیوں کے دل میں خوف اور رعب بھی تو وہی بڑھا رہا ہے۔ فلسطینیوں کا کیا ہے، ہم نکلے ہی سر سے کفن باندھ کر ہیں۔‘‘

ڈاکٹر صاحب واپس چلے گئے۔ رات گزرتی جا رہی تھی، بم باری رک چکی تھی۔ جذبوں اور حوصلوں کی صبح طلوع ہو رہی تھی۔ سچ ہے جن کا اللہ ہوتا ہے وہ کبھی بے سہارا نہیں ہوتے۔

اذان کی آواز بہت پیاری لگ رہی تھی۔ اسما نے سر سجدے میں رکھ دیا۔ خدایا! تُو ہمیں نہ چھوڑنا، ہم بھوکے ہیں تو کیا ہوا… ظالم ہمارا پانی بند کررہے ہیں تو کیا ہوا… ساری کائنات تو تیری ہے، بحرو بر سب تیرے ہیں… بس ہمیں بھی اپنا بنا لے۔ بے شک! ’’طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔‘‘

حصہ