’’سر! میری بہن کی آج شادی ہے‘ وہ دلہن بنی ہوئی ہے‘ طبیعت خراب ہے۔ براہِ مہربانی مریضہ کو گھر آکر دیکھ لیں۔‘‘
یہ نوجوان الخدمت اسپتال شاہ فیصل کالونی میں میری او پی ڈی میں صبح نو بجے آیا۔مریضہ کا نام صائمہ بتایا۔ یہ لڑکی میرے والد صاحب کے دوست کی بیٹی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ او پی ڈی کے مریضوںسے فارغ ہو کر میں مریضہ کو دیکھ سکتا ہوں۔
مریضہ کے گھر میں رش تھا۔ مریضہ کی والدہ نے بتایا کہ کل رات 12 بجے اس کی رخصتی ہوئی۔ ہم گھر آکر سونے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اس کی ساس کا فون آیا کہ تمہاری بیٹی کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔
ہم فوراً وہاں پہنچے‘ دلہن گھر کے برآمدے میں سب کے ساتھ بیٹھی تھی۔ ہمیں دیکھ کر رونے لگی۔ ’’مجھے گھر لے چلو میں اس کمرے میں نہیں جائوںگی۔‘‘
ہم بہت حیران ہوئے۔ چھ ماہ منگنی رہی۔ لڑکا بھی اسے پسند تھا۔ جب یہ بہت چیخی تو ہم 4 بجے صبح کو اسے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ آج ولیمہ ہے‘ یہ گھر آکر کچھ دیر باتیں کرتی رہی پھر سو گئی۔ بتایا کہ رخصتی کے بعد سب کے ساتھ بیٹھی رہی۔ پھر اسے اس کے کمرے میں بٹھا دیا دس پندرہ منٹ‘ اور بچیاں بھی ساتھ بیٹھیں۔ رسمیں ہوئیں‘ یہ خوش نظر آرہی تھی پھر اس نے کہا ’’میرا سانس گھٹ رہا ہے‘ آنکھوں میں جلن ہو رہی ہے‘ تم لوگ مجھے اپنے ساتھ باہر لے جائو‘ میں اس کمرے میں نہیں رہ سکتی مجھے شدید گھبراہٹ ہو رہی ہے‘ سانس نہیں آرہا۔‘‘
کچھ دیر بعد اس کی طبیعت بحال ہو گئی‘ ہم نے دوبارہ کوشش کی لیکن اس نے کہا میں اس کمرے میں نہیں جائوں گی‘ مجھے گھر جانا ہے۔ انہوں نے ہمیں فون کیا اور اس کی ضد پر ہم گھر لے آئے۔
لڑکی نے بتایا کہ میں جیسے ہی اپنے کمرے میں گئی میری آنکھوں میں جلن محسوس ہوئی‘ میں نے برداشت کیا۔ گھبراہٹ شروع ہوگئی‘ چھینکیں آنا شروع ہوئیں‘ جیسے ہی دروازہ بند ہوا میرا دم گھٹنے لگا۔ سانس لینے میں مشکل ہونے لگی۔ میں نے گھبرا کر کہا مجھے باہر لے جائو۔ سب نے ضد کی یہ تمہارا کمرہ ہے‘ تم نے اسی میں رہنا ہے۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا‘ میں نے چیخ کر رونا شروع کردیا۔ باہر آکر طبیعت بحال ہوئی لیکن جب انہوں نے دوبارہ کمرے میں جانے کا کہا تو میں نے چیخنا رونا شروع کردیا۔ اور یہ لوگ میری ضد پر لے آئے۔ یہاں آکر سکون ملا میں سو گئی۔ اس نے بتایا کہ شادی سے میں بہت خوش تھی اور ہوں لیکن اس کمرے میں رہنے سے خوف آرہا ہے۔
لڑکی کا معائنہ کیا توپتا چلا کہ اس کی سانس کی نالیاں متاثر ہیں اور وہ جھوٹ نہیں بول رہی۔ اسے واقعی مسئلہ ہے۔ اس نے بتایا کہ کمرے میں تیز بُو آرہی تھی جس سے آنکھوں میں جلن اور سانس کا مسئلہ ہوا تھا۔
ایک لڑکے کو اسپتال لایا گیا۔ اس کی آج ہی شادی تھی۔ گھر والوں نے بتایا کہ یہ بارات میں جانے پر راضی نہیں‘ کہتا ہے بارات میں چلا جائوں گا لیکن اس کمرے میں نہیں رہوں گا۔ تفصیل پر پتا چلا کہ آج صبح ہی سسرال سے نیا فرنیچر آیا ہے‘ دو دن پہلے رنگ مکمل ہوا۔ یہ کمرے میں جا کر بیٹھا کھانسی اور چھینکیں آنے لگیں۔ یہ بولا میرا دم گھٹ رہا ہے۔ دروازے کھڑکیاں کھول دو‘ دوست ساتھ تھے انہوں نے کہا بھئی نیا فرنیچر ہے‘ گرد و غبار آئے گی۔ اب تمہیں تو اسی کمرے میں رہنا ہے۔ یہ باہر بھاگ کر آگیا کہتا ہے اس کمرے میں مسئلہ ہے۔
یہ کمرہ گھر کی چھت پر اسٹور توڑ کر بنایا گیا تھا۔ بعض خاندان والوں نے کہا کہ اس جگہ شاید جن رہتے ہیں‘ ان کی کھلی جگہ پر کمرہ بنا دیا۔ اب جیسے ہی کمرہ بند کیا جن نے دولہا کا گلا دبا دیا۔ اسے سانس میں تنگی محسوس ہوئی‘ باہر بھاگ آیا۔ جن والے بابا سے بھی پڑھوا کر آئے تھے۔ مریض کو معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ اس کی سانس کی نالی میں واقعی مسئلہ ہے۔
اسپتالوں کی او پی ڈی کے سروے کے مطابق چھوٹے بچوں اور خواتین میں نزلہ‘ کھانسی اور الرجی کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ دنیا بھرکے ماہرین صحت کے مطابق اس کی بڑی وجہ گھروں میں کیمیکل اشیا کا استعمال تیزی سے بڑھنا ہے۔
میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے گھر میں پوچھا والدہ صابن کے پانی‘ نمک یا نیم کے پتوں کے پانی سے لگایا کرتی تھیں۔ باتھ روم بھی صابن پائوڈر سے دھل جاتے تھے۔لیکن اب گھروں میں کیمیکل فنائل کا پوچھا لگتا ہے۔ باتھ روم میں نمک کے تیزاب کا استعمال عام ہے۔گندھک کا تیزاب بھی باتھ روم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹوائیلٹ میں دیگر صفائی کے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔
ان تمام کیمیکل اشیا سے جراثیم تو مر جاتے ہیں لیکن ان میں موجود کیمیکل ہوا میں اڑتے ہیں خاص طور پر Formal de hyde یہ گھر میں صاف کرنے‘ ائر فرنیشر‘ پینٹ‘ بال سیدھا کرنے‘ جراثیم کش کے طور پر فرنیچر کو اور الماری کو رنگ کرنے وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔
یہ کیمیکل ناک میں آنکھوں میں بے چینی کرتے ہیں‘ سانس کی نالی کو متاثر کرتے ہیں۔ گھر میں رنگ ہونے کے بعد اس کی تیز بُو کیمیکل کی وجہ سے ہوتی ہے۔ا گر یہ کیمیکل کمرہ میں رنگ کے بعد اُڑ رہا ہو‘ نیا فرنیچر ہو تو اتنی زیادہ مقدار میں کیمیکل سانس میں چلا جاتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے‘ گھبراہٹ ہوتی ہے‘ نبض کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ فرد کنفیوز ہو سکتا ہے۔ ان دو مریضوں کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ رنگ کی تیز بو‘ نئے فرنیچر پر رنگ کی تیز بو‘ کمرہ بند‘ تو اتنی زیادہ تعداد میں کیمیکل کیا کہ انہیں سانس کی تکلیف ہوگئی ‘ اینگزائٹی بھی ہو گئی۔
جرمنی کے شہر فلنگن میں چھٹیوں کے بعد بچے اسکول گئے تو پچاس فیصد بچے پہلے دن ہی بیمار ہو گئے ان میں سید کوثر بخاری صاحب کے بچے بھی تھے‘ وہ کہنے لگے میں نے اسکول جا کر تحقیق کی اور وجہ جاننے کی کوشش کی کہ اسکول میں کیا ہوا ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ہمارے پروفیسر نے یہ بتایا تھا کہ جب اچانک بہت سے لوگ ایک جگہ بیمار ہوں تو تحقیقی کرنی چاہیے کہ مسئلہ کیا ہے؟ کیوں بیمار ہو رہے ہیں۔ تحقیق پر پتا چلا کہ اسکول کے فرنیچر پر رنگ ہوا ہے۔ فارمل Dehyde کیمیکل کی بُو سے بچے بیمار ہوئے ہیں۔سانس کے مسائل ہوتے ہیں۔ اسکول انتظامیہ سے بات کی‘ انہیں بتایا کہ اسکول کے فرنیچر کو چھٹیاں شروع ہونے پر رنگ کروائیں‘ اسکول کا رنگ و روغن بھی اسکول کھلنے سے ایک ماہ پہلے کروالیں تاکہ کیمیکل کی بو کم ہو جائے۔ کیمیکل کے ذرات ہوا میں بالکل ختم ہونے میں تو کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ اس لیے اسکول کا فرنیچر رنگ و روغن یا شادی سے پہلے رنگ و روغن‘ فرنیچر ایک ماہ پہلے تیار کرائیں‘ فرنیچر کو کھلی جگہ میں رکھیں‘ پھر کمرے میں منتقل کریں۔ ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر صاحبہ کے سسر عبدالغفار سید صاحب جو اخبار میں کام کرتے ہیں انہوں نے شادی سے کئی ماہ پہلے فرنیچر تیار کرایا‘ رنگ و روغن گھر میں دو ماہ قبل کروایا اور اپنی بہو بیٹے کو شادی پر ہونے والی کیمیکل کی تکالیف سے بچا لیا۔
یہی طریقہ اگر معاشرے میں رائج ہو جائے کہ لوگ فرنیچر ایک ماہ پہلے خرید لیں اور رنگ و روغن پہلے کرا لیں‘ کمرے کو کھلا رکھیں تو شادی کی خوشی کے موقع پر دولہا دلہن کو کیمیکل سے ہونے والی تکالیف سے بچایا جاسکتا ہے۔
کیمیکل کا استعمال میک اپ کے سامان‘ کاسمیٹک اشیا میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ چند عام اشیا جو زیادہ استعمال ہوتی ہیں ان میں لپ اسٹک میں ڈائیز استعمال ہوتی ہیں دھاتی کیمیکل Cadmium پیلے‘ اورنج شیڈ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
بعض بچوں کو ان کی خوشبو سے الرجی ہوتی ہے۔ الپ اسٹک لگا کر بچے کو پیار نہ کریں۔
مسکارا میں Formal De hyde استعمال ہوتا ہے۔
آئی شیڈز‘ Glue‘ چہرے کے Blush on‘ Base for face skin وغیرہ میں بھی یہ کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔
Xylene اور Acetore نامی کیمیکل نیل پالش اور اسے صاف کرنے کے کیمیکل میں استعمال ہوتے ہیں ان کی بو سے ناک‘ گلے میں بے چینی‘ سانس کا مسئلہ اور چکر آسکتے ہیں۔ زیادہ میک اَپ کرکے بچوں کو دودھ نہ پلائیں۔
بیڈ روم میں اگر یہ میک اَپ کا سامان استعمال ہوگا تو کیمیکل دھونے کے بعدکمرے کی ہوا میں موجود رہیں گے۔ اس لیے کمرے کو دن میں کھلا رکھیں۔ ہوا کو آنے جانے کا راستہ دیں۔ پنکھا چلائیں اگر ہو سکے تو ایگزاسٹ فین بھی لگائیں۔ بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی خواتین سے سروے کیا تو اکثر ورکرز کو سانس میں گھٹن‘ بے چینی‘ آنکھوں میں چبھن ‘ انگزائیٹی‘ دل کی دھڑکن تیز ہونے کی شکایت تھی۔ ان میں سے اکثر لڑکیاں یہ سمجھتی تھیں کہ پارلر میں آکر یہ تکالیف کام کی زیادتی کی وجہ سے بڑھتی ہیں لیکن انہیں علم نہیں تھا کہ کیمیکلز کے اثرات کی وجہ سے یہ تکالیف ہو رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کریں؟ مسائل کے حل کے دو طریقے ہیں۔-1 احتیاطی تدابیر۔ -2 فضا میں موجود کیمیکلز کو صاف کرنا۔
احتیاطی تدابیر:
-1نئے فرنیچر کو استعمال سے پہلے کھلی فضا میں رکھیں‘ رنگ کروائیں تو گھر میں کئی دن تک نہ رہیں اور ہوا کو باہر نکالیں۔
-2 میک اَپ کرنے کے لیے بیڈ روم کو کم استعمال کریں۔ نیل پالش لگانے اور صاف کرنے کے لیے کمرے کے باہر گیلری وغیرہ استعمال کریں۔
-3 صفائی کے لیے کم کیمیکل استعمال کریں۔ Organic اشیا یا وہ چیزیں جو بزرگ استعمال کرتے تھے بہتر آپشن ہو سکتی ہیں۔
-4 گھر او ر بیوٹی پارلر میں ایسے اقدام کیے جائیں کہ یہ کیمیکلزکم ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو صاف کرنے کے لیے ایسے پودے بنائے ہیں جو ہم سونے کے کمرے‘ گھر کے اندر‘ آفس میں‘ بیوٹی پارلر میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ پودے ZZ پودا اور Snake Plant ہیں‘ یہ کمرہ میں موجود روشنی میں زندہ رہتے ہیں۔ 15 دن میں ایک بار پانی دینا کافی ہے۔ یہ پودے کمرے میں موجود کیمیکل مادوں کو جذب کر لیتے ہیں۔ ZZ پودا Xylene, Toluene, Benzene وغیرہ کو جذب کرکے ختم کرتا ہے۔
ZZ پلانٹ لوگوں تک پہنچانے کا کام مرحوم صحافی عمران لاری کے بھائی نعمان لاری نے شروع کیا ہے تاکہ لوگوں کو ان مضر کیمیائی مادوں سے نجات ملے اور اس کارِ خیر کا ثواب عمران لاری بھائی کو ملے۔