فسطینہ نے مغموم لہجے میں سوال کیا۔ ’’آپ کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘۔ عاصم نے بے توجہی سے جواب دیا۔
فسطینہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کروں گی‘‘۔
عاصم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ’’کون سا راستہ؟‘‘
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اپنا وطن دیکھنا چاہیں۔ اور مجھے اس بات کا اطمینان ہو کہ آپ کو وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہیں تو میں چند دنوں یا چند ہفتوں کی جدائی برداشت کرسکوں گی‘‘۔
’’اِس دُنیا میں تمہارے گھر کے سوا میرا کوئی وطن نہیں‘‘ عاصم نے یہ کہہ کر یونس کی طرف ہاتھ پھیلادیئے اور وہ ماں کی گود سے اُتر کر اس کی گود میں آبیٹھا اور فسطینہ کے مغموم چہرے پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’فسطینہ! اب میں تمہاری مسکراہٹوں اور یونس کے قہقہوں سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہتا۔ لیکن کاش خدا کا کوئی بندہ بادشاہوں اور غلاموں کی اس دُنیا میں مجھے تمہارے لیے دائمی راحتیں اور مسرتیں حاصل کرنے کا طریقہ سمجھا سکتا۔ کاش میں تمہارے لیے کوئی ایسا نخلستان تلاش کرسکتا جس کی بہاروں کو خزاں کا خوف نہ ہو۔ مجھے عرب سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن اگر مجھے اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس نئے دین کی فتح کے انعامات پوری انسانیت کے لیے یکساں ہوں گے اور جس روشنی میں اوس اور خزرج سلامتی کا راستہ دیکھ چکے ہیں وہ کسی دن یہاں بھی پہنچ سکتی ہے۔ اور یہ گھر، یہ شہر اور یہ ملک زمانے کی اِن آندھیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جس کی ہولناکیوں سے ہمارا ماضی لبریز ہے تو میں سمجھوں گا کہ اس نبی کی اطاعت اور اس کے دین کی اعانت میری زندگی کا پہلا اور آخری فرض ہے۔ اور پھر اگر میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا تو میرے لیے تمہیں بھی یہ اطمینان دلانا مشکل نہیں ہوگا کہ میں ایک انسان، ایک شوہر اور ایک باپ کا فرض پورا کررہا ہوں۔ اور میری ذاتی خواہش اس سے زیادہ نہیں کہ مرتے وقت مجھے یہ اطمینان ہو کہ میرے بیٹے کی دنیا میری دنیا سے بہتر ہوگی‘‘۔
فسطینہ نے آبدیدہ ہو کر کہا ’’آپ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ جب اچھائی کی تلاش میں نکلیں گے تو ہم آپ کے ساتھ نہیں ہوں گے‘‘۔
یونس جو پریشان سا ہو کر اپنے والدین کی باتین سن رہا تھا صرف اتنا سمجھ سکا کہ اس کا باپ کہیں جانے کا ارادہ کررہا ہے اس نے مضطرب سا ہو کر کہا۔ ’’ابا جان! میں آپ کے ساتھ جائوں گا‘‘۔
عاصم نے اُسے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا کر پیار کرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا میں کہیں نہیں جائوں گا۔ اور اس کے بعد وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ اس کے ذہن سے ایک بوجھ اُتر چکا ہے۔ اگلے دن وہ کلاڈیوس کے خط کا جواب لکھوا رہا تھا اور اس جواب میں اس نے صرف یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ میری بیوی اور بیٹا خوش ہیں اور اب مجھے یہ جاننے کی خواہش نہیں کہ میرے گھر کی چار دیواری سے باہر کیا ہورہا ہے۔ اس نے یونس کی معصوم شرارتوں اور بھولی باتوں کا ذکر کیا تھا۔ اس نے انطونیہ اور اس کے بچوں کے حالات دریافت کیے تھے۔ اس نے کلاڈیوس کو دمشق آنے کی دعوت دی تھی لیکن جہاں تک عرب کے حالات کا تعلق تھا اس نے صرف یہ لکھ کر بات ختم کردی تھی کہ اب میرے دل میں کسی اور منزل کی طرف دیکھنے کی خواہش باقی نہیں رہی۔ تاہم فسطینہ سے خط لکھواتے ہوئے بھی یہ محسوس کررہا تھا کہ ظاہری اطمینان آسودگی اور قناعت کے باوجود اپنے ماضی کے ساتھ اس کے سارے رشتے منقطع نہیں ہوئے۔ اور ابھی تک اس کے دل میں اپنے وطن کے ناقابل یقین انقلاب کے متعلق مزید سننے اور جاننے کی خواہش کروٹیں لے رہی ہیں۔
اور پھر اس کے بعد آئے دن وادیٔ یثرب سے جو اطلاعات موصول ہورہی تھیں وہ ایسی نہ تھیں کہ عاصم وہاں کے حالات اور واقعات سے بیگانہ یا بے تعلق رہ سکتا۔ عرب سے جو تاجر دمشق آتے تھے وہ اپنے ساتھ اسلام کی تازہ فتوحات اور نئی کامرانیوں کی خبریں لاتے تھے۔ شام کے شہروں میں عرب کی کایا پلٹ قبائل کے اتحاد اور اسلام کی روز افزوں قوت کے ناقابل یقین قصے سنانے میں وہ یہودی پیش پیش تھے جو اپنے جرائم کی پاداش میں وہاں سے نکالے گئے تھے۔ اور جن کے نزدیک مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہی ایک صورت باقی رہ گئی تھی کہ رومی ان کے مقابلے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ شام کے رومی حاکموں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسانے کے لیے وہ غسانی رئوسا بھی یکساں بے تاب تھے جنہیں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کا خطرہ اپنی سرحدوں سے زیادہ قریب دکھائی دیتا تھا۔ یہ لوگ عیسائی تھے اور ان کے مذہبی پیشوا اپنے رومی سرپرستوں کو بلاتاخیر صحرائے عرب پر چڑھ دوڑنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ فسطینہ آئے دن دمشق کے گرجوں اور خانقاہوں سے واپس آکر اپنے شوہر کو ناقابل یقین خبریں سناتی۔ عاصم بظاہر ان خبروں کو مذاق میں ٹالنے کی کوشش کرتا لیکن اپنے دل کی گہرائیوں میں وہ ہمیشہ یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ سب باتیں غلط نہیں ہوسکتیں۔ مدینہ اور خیبر سے نکلے ہوئے یہودی رومی اور شامی عیسائیوں کو مشتعل کرنے کے لیے غلط بیانی سے کام لے سکتے ہیں۔ لیکن وہ عرب جو جانکنی کے عالم میں بھی اپنی شکست کا اعتراف نہیں کرتے، بلاوجہ اپنے حریف کی طاقت اور عظمت کا اعتراف نہیں کرسکتے۔
ایک دن دمشق کے ایک چوراہے پرمیں لوگوں کا ہجوم یمن کے ایک تاجر کی زبانی یہ خبر سن رہا تھا کہ مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام کاجاہ و جلال دیکھا ہے۔ میں نے وہاں اپنے کانوں سے اللہ اکبر کی اذانیں سنی ہیں۔ وہ بت جو کعبے کے اندر نصب تھے توڑ دیئے گئے ہیں۔ قریش کے سرداروں کا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ اب عرب کے اندر کوئی ایسی قوت باقی نہیں رہی جو اسلام کا راستہ روک سکے۔ جب ہم مکہ سے روانہ ہوئے تھے تو مسلمانوں کا لشکر اوطاس کی طرف کوچ کرچکا تھا۔ مدینہ پہنچ کر ہمیں یہ اطلاع ملی کہ قریش کی طرح ہوازن اور ثقیف قبائل کا غرور بھی خاک میں مل چکا ہے۔ یہ معمولی واقعات نہیں۔ جب میں نے یمن میں یہ خبر سنی تھی کہ مسلمانوں کا ایک لشکر بلقا تک پہنچ کر واپس آگیا ہے تو میں اسے ایک مذاق سمجھتا تھا لیکن اب مجھے کوئی بات ناقابل یقین محسوس نہیں ہوتی اب اگر میں یہ سنوں کہ وہ دمشق کا رُخ کررہے ہیں تو بھی مجھے یقین آجائے گا۔
ایک شامی نے غضب ناک ہو کر تاجر کا گلا دبوچ لیا اور بلند آواز میں چلایا ’’تم بکتے ہو… تم جھوٹ کہتے ہو… تم ہمارے دشمن کے جاسوس ہو…‘‘
عاصم ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے شامی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’’دشمن کے جاسوس چوراہوں میں کھڑے ہو کر تقریریں نہیں کرتے‘‘۔
تاجر ہجوم کے تیور دیکھ کر سہم گیا۔ اور اس نے کہا۔ ’’بھائیو! میں مسلمان نہیں ہوں۔ میرا مقصد تم لوگوں کو خبردار کرنا تھا۔ میرے قبیلے کے کئی خاندان اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ہمارا ایرانی حاکم بھی مسلمان ہوچکا ہے لیکن میں نے اپنے اسلاف کا مذہب نہیں چھوڑا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’تمہیں ایک بیوقوف آدمی کی باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے‘‘ پھر وہ تاجر کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے اپنے مکان کے ایک آراستہ کمرے میں بٹھا کر یہ پوچھ رہا تھا۔ ’’کیا تم واقعی مکہ سے ہو کر آئے ہو؟‘‘
’’ہاں مجھے جھوٹ کہنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
’’کیا مسلمان واقعی مکہ پر قبضہ کرچکے ہیں؟‘‘
’’ہاں‘‘۔
’’جب جنگ ہوئی تھی تو تم وہاں تھے؟‘‘
’’مکہ فتح کرنے کے لیے مسلمانوں کو کسی بڑی لڑائی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ قریش کا ایک گروہ معمولی مزاحمت کے بعد بھاگ گیا تھا۔ اس کے بعد اہل مکہ نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیئے تھے‘‘۔
’’یہ ناممکن ہے۔ میں قریش کے متعلق یہ نہیں مان سکتا کہ وہ جیتے جی ہار مان سکتے ہیں‘‘۔
’’تاجر مسکرایا۔ ’’راستے میں جن قبائل کے لوگوں کے ساتھ میری ملاقات ہوئی تھی وہ سب یہی کہتے تھے کہ قریش مکہ ہار نہیں مان سکتے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ واقعات دیکھے ہیں‘‘۔
’’اچھا یہ بتائو۔ مسلمانوں نے مکہ فتح کرنے کے بعد اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
’’انہوں نے قریش کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو آج تک کسی فاتح نے اپنے دشمن کے ساتھ نہیں کیا۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا لیکن مکہ میں داخل ہونے کے بعد مسلمانوں نے اپنے ان دشمنوں کو بھی معاف کردیا تھا جو انہیں بدترین اذیتیں دیا کرتے تھے۔ ان کے نبیؐ نے ان لوگوں سے بھی باز پرس نہیں کی جو اس کے راستے میں کانٹے بچھایا کرتے تھے۔ اور جن کے ہاتھ کمزور اور بے بس مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ جب اسلام کا لشکر مکہ کی طرف بڑھ رہا تھا تو اہل مکہ یہ محسوس کررہے تھے کہ قدرت نے ہلاکت اور بربادی کے سارے طوفانوں کا رُخ ان کی طرف پھیر دیا ہے۔ کسی کو چند گھڑیوں سے زیادہ زندہ رہنے کی اُمید نہ تھی لیکن تھوڑی دیر بعد ہی طوفان رحمت کی گھٹائوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ اہل مکہ کو صرف اس بات کا ملال تھا کہ ان کے ایک گروہ نے بلاوجہ مسلمانوں کے ساتھ اُلجھ کر تیرہ آدمیوں کی جانیں گنوادی ہیں۔ میں نے مسلمانوں کے نبیؐ کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب قریش کے اکابر گردنیں جھکائے ان کے سامنے کھڑے تھے اور وہ یہ پوچھ رہے تھے ’’تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا برتائو کرنے والا ہوں؟‘‘ اور قریش کے اکابر یہ کہہ رہے تھے ’’تم شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہو‘‘۔
عاصم نے بے چین سا ہو کر سوال کیا۔ ’’پھر مسلمانوں کے نبیؐ نے کیا جواب دیا؟‘‘
اس کا جواب یہ تھا۔ ’’تم پر کچھ الزام نہیں جائو تم آزاد ہو‘‘۔
عاصم نے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا۔ ’’مجھے یقین ہے جو نبی ایک فاتح کی حیثیت سے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ یہ سلوک کرسکتا ہے وہ پوری انسانیت کا نجات دہندہ ثابت ہوگا۔ خدا کی قسم! روم اور ایران کے لشکر اس دین کا راستہ نہیں روک سکیں گے جو ناداروں کو طاقت اور زیردستوں کو بالادستی عطا کرنے کے بعد بھی انتقام سے باز رکھ سکتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)