طوفان الاقصیٰ کی وجوہات

500

دشمن کے شدید ردِعمل سے واقفیت کے باوجود مجاہدین نے دشمن پر حملے کا فیصلہ کیوں کیا؟ علامہ محمد بن محمد الاسطل (فلسطینی عالم دین)کہتے ہیں:

’’میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو سوشل میڈیا پر چھڑنے والی ہر متنازع گفتگو کا جواب دینے کے لیے میدان میں اتر پڑتے ہیں، اس لیے کہ میں علمی مقام و منصب کا احترام ضروری سمجھتا ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ غیر مفید یا محدود فائدے والی باتوں میں وقت ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔

ایک دو دن پہلے بعض احباب کی طرف سے مجھ سے دریافت کیا گیا کہ: اُس شخص کی رائے کے بارے میں آپ کا کیا جواب ہے جو یہ کہتا ہے کہ صہیونی دشمن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں تاکہ اُسے اتنے شدید ردِعمل کا موقع نہ ملے۔

خاموشی کے اپنے اصول کو کنارے رکھتے ہوئے، اپنے احساسات کو سرسری طور پر رکھوں گا۔ اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں تفصیل سے جواب دینے کے لیے بمباری اور میزائلوں کی بے پناہ آوازوں کے باعث ذہنی یکسوئی میسر نہیں ہے۔ میں اس ضمن میں ذیل کے صرف چار اسباب آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

پہلی وجہ:
دشمن مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی، اسے یہودی شناخت دینے، اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے اپنے ایجنڈے پر ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ماضی میں دو یا تین سالوں میں وہ جو اقدامات کرتا تھا اب دو تین ہفتوں میں ہی وہ سب اقدامات کررہا ہے۔ ساتھ ہی اہلِ شہر القدس کو ذلیل و رسوا کرنے، ہراساں کرنے اور ان کے اہلِ علم و فضل کو جیلوں میں بھرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

صرف یہی نہیں، اس کی حرکتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب وہ مسجدِ اقصیٰ میں نماز سے لوگوں کو روک رہا ہے، اس کی رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ نماز کے لیے مسجد تک نہیں پہنچ سکتے۔ مسجد کے اندر تقریباً 50 علمی حلقے منعقد ہوتے تھے لیکن اب سالوں سے ان پر بھی پابندی عائد ہے۔

مجاہدین کے آپریشن سے چند دن پہلے تقریباً 5 ہزار صہیونیوں نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر اس کی بے حرمتی کی۔ کئی دنوں سے ان کی یہی حرکات جاری تھیں۔ مسجد کی بے حرمتی کے ایسے مظاہر گزشتہ بیس سالوں میں بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسے یہودی رنگ دینے کی بڑھتی ہوئی حرکتوں کے رد میں مجاہدین نے اپنے آپریشن کو انجام دیا۔ معرکہ کے نام ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ سے ہی اس کا مقصود ظاہر ہوتا ہے۔

دوسری وجہ:
دشمن ہمیں گزشتہ پندرہ سال سے دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیلنے کے اپنے منصوبے پر کاربند ہے۔ ہمارے درمیان نوجوانوں کی ایک پوری نسل ایسی ہے جس نے اسی بحران کے درمیان آنکھ کھولی ہے۔ بیس، تیس سال کی عمر کو پہنچے ہوئے اکثر نوجوان زندگی کے ہر گوشے سے دور، روزگار سے محرومی کی زندگی جی رہے ہیں، وہ اپنی تعلیم پوری نہیں کرسکتے، شادی نہیں کرسکتے، گھر نہیں بنا سکتے اور انہیں کوئی روزگار بھی نہیں ملتا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں طرح طرح کی سماجی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں، بے روزگاری ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے، شادیوں کا سلسلہ رکا سا ہوا ہے، یوں سمجھیں کہ سماجی اور معاشی مسائل کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ قریبی دنوں میں دسیوں ہزار کی تعداد میں نوجوانوں نے اس امید پر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کی کوشش کی کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے روزگار کے کچھ مواقع میسر آئیں گے۔ وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل کی طرف جانا چاہتے تھے، لیکن بحری راستے میں ایسے دسیوں نہیں بلکہ سیکڑوں نوجوان سمندر اور مچھلیوں کا لقمہ بن گئے۔

تیسری وجہ :
ہمارے جو افراد دشمن کی قید میں ہیں اُن کے ساتھ اُس کا رویہ وحشیانہ ہے، وہ ایسی شدید اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں کہ گویا ہر دن کئی کئی بار موت کی چکی میں پیسے جارہے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ڈیڑھ میٹر کے سیل میں 13 سال سے قید ہیں، کچھ قیدیوں کو براز و گندگی سے لت پت سیل میں ڈالا جاتا ہے۔ وہ درد و الم کا مارا، نفسیاتی اذیت سے دوچار قیدی دو تین دن تک لگ کر اس کی صفائی کرتا ہے کہ اس کے بعد اس میں رہ سکے، اس دوران اس کے کپڑے اتارے جاتے ہیں، اسے زد و کوب بھی کیا جاتا ہے۔ پھر جب سیل صاف ہوجاتا ہے تو اسے اسی طرح کے دوسرے گندے سیل میں منتقل کردیا جاتا ہے تاکہ اذیت کا وہی سلسلہ پھر شروع ہو۔

ماضیِ قریب میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والا اذیت ناک سلوک برداشت کی حدوں سے بھی باہر جاچکا ہے۔ ان میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امت انہیں بھول بیٹھی ہے، کسی کو ان کی مصیبت اور ان کے حالات کی فکر نہیں، بلکہ کسی کو یہ بھی نہیں پتا کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے۔

صہیونی حکومت کے اندر بن غفیر اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی قیادت میں انتہاپسند یہودیوں کی مضبوط گرفت کی وجہ سے قیدیوں کی زندگی کو اس طرح جہنم بنادیا گیا ہے کہ عملاً ان کے لیے یہ سب ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔

گزشتہ کئی مہینوں سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ ان قیدیوں کی رہائی اور اس جہنم سے ان کی آزادی کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ اس مصیبت میں ہماری قیدی بہنوں کی اذیت کا اضافہ بھی کرلیجیے۔ ہماری بہنوں کو رسوا کیا جارہا ہے، ان کے دین، ان کی عفت اور ان کی حیا کو جس طرح تار تار کیا جارہا ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ایسے مرحلے میں مجاہدین نے آپریشن کیا تاکہ مظالم کے اس لامتناہی سلسلے پر بند باندھا جائے۔

چوتھی وجہ:
مزاحمتی حلقوں کی طرف سے یہ وضاحت آچکی ہے کہ انہیں موصول خفیہ معلومات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ دشمن غزہ کو تباہ کرنے کے لیے اس کے خلاف ایک بھرپور حملے کی تیاری کررہا ہے۔ چنانچہ مزاحمتی قوت نے یہ طے کیا کہ دشمن کو اچانک حملے کا موقع نہیں دینا چاہیے، اچانک حملہ کرکے دشمن جو اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے اسے روکنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کارروائی کا آغاز خود مزاحمتی قوت کی طرف سے اچانک ہو، نہ کہ دشمن کی طرف سے۔

چنانچہ مجاہدین نے ایک ساتھ کئی مقاصد اور اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے بھرپور کارروائی کی۔

ہم 2014ء میں اسی قسم کا تجربہ دیکھ چکے ہیں۔ اُس وقت بھی مزاحمتی قوت کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ دشمن غزہ کو تباہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کررہا ہے تو انہوں نے جنگ کا رسمی اعلان کیے بغیر دو دنوں کے اندر دسیوں میزائل سے دشمن کو نشانہ بنایا تاکہ وہ اپنے منصوبے سے پہلے ہی جنگ میں داخل ہونے پر مجبور ہو، اور اچانک حملہ کرکے دشمن اپنے جو مقاصد پورے کرنا چاہتا ہے (مثلاً اہم قائدین کو قتل کرنا یا سیکڑوں مجاہدین کو اُن کی تربیتی مشقوں کے درمیان گرفتار کرنا وغیرہ) انہیں پورا نہ کرسکے۔ میں نے جنگی جہازوں اور میزائلوں کی گھن گرج کے درمیان جلدی میں یہ چار اسباب بیان کیے ہیں۔ پھر یہ بھی عرض کروں کہ دشمن کے مقابلے میں کھڑے لوگ اپنے احوال سے بہتر واقف ہیں، جو ان احوال سے واقف نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے صحیح صورتِ حال دریافت کرلے۔ یہی حکمت کا تقاضا ہے۔ اور جو وطن سے دور ہو اُس پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ ملکی معاملات میں فتویٰ نہیں دے سکتا، البتہ ضروری ہے کہ پہلے وہ حصولِ معلومات کے ممکنہ ذرائع کا استعمال کرلے، کیوں کہ فتویٰ کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے۔

میں بہت ہی گھٹن کے ساتھ یہ سطور قلم بند کررہا ہے۔ جب معرکہ برپا ہو اُس وقت ہمیں دستِ تعاون بڑھانا چاہیے، نہ کہ تنقید اور محاسبے کے تیر چلائے جائیں۔ جو لوگ صہیونی بیانیے پر تکیہ کرنے والے استبدادی حکمرانوں کے بیانیے کو درست سمجھتے ہوں وہ ان وضاحتوں سے بھی مطمئن نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ لوگ ہر اُس شخص کے رد کے لیے تیار رہیں گے جو انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا اس قسم کی بحثوں میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم نے برسہا برس سے ایسے تماش بین لوگوں کو دیکھا ہے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں ہمیں پہلے ہی بتادیا گیا ہے۔ ہمیں نصوص میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محاذوں پر ڈٹنے والوں کو اللہ کے حکم سے نہ تو اُن کے مخالفین نقصان پہنچا سکیں گے اور نہ ہی اُن کو بے یار و مددگار چھوڑ کر تماشا دیکھنے والے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس پر کوئی دکھ نہیں ہوتا کہ پوری کی پوری قوم ذلت، رسوائی، فقر اور مظلومیت کی دلدل میں ہے، انہیں قید و بند کی زنجیروں نے جکڑ رکھا ہے، مسجدِ اقصیٰ کی حرمت پامال ہورہی ہے، ہمارے قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہورہا ہے۔ ان کے نزدیک یہ سب فطری اور معمول کی باتیں ہیں، ان سب کے ساتھ جینا سیکھ لینا چاہیے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ باطل کہاں ہے جو تمہیں اس کی اجازت دے دے گا کہ تم اسے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرو اور پھر اس پر خاموش رہ کر وہ تم سے محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتا رہے۔
اللہ جل جلالہ سے بس یہی فریاد ہے کہ الٰہی ہم کمزور ہیں ہماری مدد فرما، ہم محتاج اور تیری عنایت کے طلب گار ہیں ہم پر کرم فرما، ہم عاجز ہیں ہمیں غلبہ و قوت عطا فرما، ہم رسوائی سے دوچار ہیں ہمیں عزت و اقتدار عطا فرما، کسی بھی افواہ پھیلانے والے اور ساتھ چھوڑ کر بھاگنے والے کے احسان سے ہمیں بچا۔‘‘
’’اللہ اپنے معاملے پر غالب آکر رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔‘‘

حصہ