پاکستان کے زرعی امکانات

انسان کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے۔ خالق کائنات نے اس کے جسم کو مٹی سے بنا کر اس میں اپنی روح پھونکی تو اس کا تعلق زمین اور آسمان دونوں سے قائم ہو گیا۔ یہ ایک منفرد حیثیت ہے جس کی وجہ سے انسان کو کائنات میں افضل ترین مقام حاصل ہوا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے انسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘ (التین ۵۹:۴)۔ اسی بنا پر اسے خالق کی نیابت اور خلافت کا مقام حاصل ہوا۔

رب العالمین نے انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کا بہترین بندوبست کیا ہے۔ روحانی ضروریات وحی کے ذریعے پیغمبروں کی وساطت سے پوری کیں اور جسمانی ضروریات کے لیے زمین کوہر قسم کے وسائل سے مالا مال کر دیا: ’’ کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں‘ اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیںایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں‘‘ (الحجر ۵۱:۱۲)۔ مزید فرمایا: ’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا‘ زندوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی‘‘ (المرسلات ۷۷: ۵۲- ۶۲)۔ ان آیات کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیںکہ کرئہ زمین کروڑوں ‘ اربوں سال سے بے حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ ہر قسم کی نباتات‘ ہر قسم کے حیوانات ‘ اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلے چلے آ رہے ہیں۔

انسان میں روح و جسم کا نہایت حسین امتزاج ہے اور یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کس کی اہمیت زیادہ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بے مقصد ہو جاتا ہے‘ بقول اقبال

تن بے روح سے بے زار ہے حق
خداے زندہ زندوں کا خدا ہے

نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ اسلام میں انسان کی جسمانی ضروریات کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مغرب کو تو معیشت کی اہمیت کا احساس کم و بیش 100 سال پہلے ہوا اور اقتصادیات کے مضمون کو اہمیت دی جانے لگی مگر قرآن مجید نے 1400 سال پہلے معیشت کے اصول تفصیل سے بیان کر دے۔ انہی اصولوں پر عمل کر کے مسلمان خلفا اور حکمرانوں نے رعایا کی بنیادی ضروریات کا ایسا بہترین بندوبست کیا اور ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی کہ موجودہ دور کی فلاحی ریاستیں اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہیں۔ اسلام کے معاشی نظام کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ غیر جانب دار ماہرین کا اتفاق ہے کہ موجودہ دنیا کی معاشی مشکلات کا حل اسلامی نظام معیشت میں ہی ہے۔

اراضی کی اہمیت:
انسانی وجود کے بقا اور جملہ ضروریات کا تعلق اور انحصار زمین پر ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات ہیں جن سے زمین کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ’’اس (زمین) میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا‘‘ (حم السجدہ 41: 10)۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے مطابق برکتوں میں دھاتیں اور دیگر تمام ضروریات کی اشیا شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام نباتاتی‘ حیواناتی اور دھاتی وسائل کے علاوہ جدید دور میں جو مصنوعی اشیا انسان بنا رہا ہے‘ یا مستقبل میں بنا سکتا ہے ان کے لیے خام مال زمین سے ہی حاصل ہوگا۔ اسی طرح تمام صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال اور توانائی زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اراضی چاہے میدان ہو یا پہاڑ‘ وادی ہو یا ریگستان‘ یا دلدل وغیرہ‘ نہایت ہی اہم وسیلہ بلکہ دولت ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے ارضی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ اگر توجہ دیتے اور احکام الٰہی کے مطابق استعمال میں لاتے تو اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے قائد ہوتے۔

مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (الاعراف 7: 96)۔ پاکستان کے قدرتی وسائل ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف زرعی وسائل پر کچھ ضروری امور پیش کیے جا رہے ہیں۔

زراعت کی اہمیت:
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب و تمدن کے فروغ میں زراعت کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ مستقل رہایشی بستیوں کا آغاز زراعت سے ہی شروع ہوا۔ پیداوار بڑھنے کے ساتھ کچھ افراد بنیادی ضروریات کی فکر سے آزاد ہوئے اور انھوں نے انسانی اعلیٰ اقدار کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس طرح تہذیب و تمدن اور ثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآن مجید میں وسائل اور علوم کے بارے میں جو ارشادات ہیں‘ راقم کی معلومات کی حد تک‘ سب سے واضح اور زیادہ زراعت کے بارے میں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’کبھی تم نے سوچا‘ یہ بیج جو تم بوتے ہو‘ ان سے کھیتیاں تم اْگاتے ہو یا ان کے اْگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو‘‘ (الواقعہ 56: 63-65) ایک دوسری جگہ یوں فرمایا: ’’اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا‘ پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بہ تہ لگتے ہیں۔ یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا۔ اس پانی سے ہم ایک مْردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں۔ (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا‘‘ (ق50: 9-11)۔

وسائل کے ماہرین نے زرعی وسائل کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ زرعی زمین ایک منفرد قدرتی وسیلہ ہے جس کا رقبہ تو متعین ہے‘ اس لیے کہ بڑھایا نہیں جا سکتا لیکن صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ کم بھی نہیں ہوتا اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے پیداوار بڑھتی جاتی ہے اور یہ رقبہ ہمیشہ کے لیے قابل استعمال رہتا ہے۔ لیکن اگر بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو پیداوار کم ہوتی جاتی ہے بلکہ سیم‘ تھور اور کٹائو وغیرہ سے بالکل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ اراضی کی اس اہمیت کی بنا پر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ زمین کو کسی کی ذاتی ملکیت نہ سمجھا جائے‘ بلکہ یہ آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے تو1400سال پہلے مفتوحہ علاقوں کی اراضی کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہے اور مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

دنیا میں انہی قوموں نے ترقی کی ہے جنھوں نے اپنے ارضی اور زرعی وسائل کی طرف پوری توجہ دی ہے‘ پیداوار کو اتنا بڑھایا ہے کہ چند فی صد افراد اپنے ملک کی ضروریات پوری کر کے بڑی مقدار میں زرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہے ہیں اور دیگر ممالک کو مغلوب کیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی افرادی قوت کا ۳ فی صد سے بھی کم حصہ زراعت میں ہے‘ مگر اپنے ملک کی تمام آبادی کی زرعی ضروریات جن میں خوراک اور صنعتی خام مال بھی شامل ہے‘ انتہائی سستے داموں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میںزرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہا ہے اور دوسرے ممالک کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ ہالینڈ ایک بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس میں زرعی زمین تو بہت ہی محدود ہے مگر اس کے باوجود برآمدات میں زراعت کا حصہ ہالینڈ کی اہم ترین برآمد‘ قدرتی گیس کے برابر ہے۔ زراعت میں سائنس اور جدید طریقوں کے استعمال کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل جیسے ممالک جن کا قدرتی ماحول زراعت کے لیے موزوں نہیں ہے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بہت سی زرعی اشیا برآمد بھی کر رہے ہیں۔

جدید دور میں زراعت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اب یہ نہ صرف انسان کو بنیادی ضروریات مہیا کرتی ہے بلکہ اقتصادیات‘ معاشیات ‘ سیاست اور دفاع میں بھی اس کی اہمیت ہے۔اس کی ایک مثال تو ہماری اپنی ہے کہ ہم نے F-16 طیارے خریدنے کے لیے جو کثیر زرمبادلہ دیا تھا اس کی گندم خریدنے پر مجبور ہوئے۔ اسی ضمن میں ٹرپس معاہدہ ترقی یافتہ ممالک کی تیسری دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے‘ بلکہ ان کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسے جینیاتی بیج تیار کیے گئے ہیں جن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ان بیجوں میںایسے کیمیائی اجزا داخل کر دیے جاتے ہیں کہ ان پر کیڑے مکوڑے حملہ نہ کر سکیں مگر مضر کیڑوں کے ساتھ انسان دوست کیڑے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصل جو انسان اور حیوان استعمال کرتے ہیں مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ بیج دوبارہ کاشت بھی نہیں ہو سکتے اور ان کو تیار کرنے کی ٹکنالوجی بھی ترقی پذیر ممالک کو منتقل نہیں کی جا رہی تاکہ ترقی یافتہ ممالک کا ہی کنٹرول رہے۔

ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوں کے مضر اثرات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں ان کے استعمال پر پابندی لگانے کے مطالبا ت ہو رہے ہیں۔ بعض ممالک میں کسانوں نے جینیاتی بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوںکے مضر اثرات سے آگاہی کے بعد تیار فصلوں کو جلا دیا ہے۔ چنانچہ اب ان بیجوں کو تیار کرنے والے ممالک اور کمپنیوں کی توجہ ترقی پذیر ممالک پر ہے۔ اس تباہی سے بچنے اور ترقی یافتہ ممالک کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے زرعی وسائل کو مقامی ٹکنالوجی اور وسائل کے ذریعے استعمال کریں۔

پاکستان کے زرعی وسائل:
اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہرقسم کے وسائل سے خصوصاً زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ نہایت زرخیز وسیع وعریض میدان ہیں جو ہزاروں فٹ گہرائی تک دریائوں کی لائی ہوئی زرخیزمٹی سے بنے ہوئے ہیں جو ان میدانوں میں قدرت نے دریائوں کا جال بچھایا ہے اور میدانوں کا ڈھلان آب پاشی کے لیے نہایت موزوں ہے۔ چنانچہ نامعلوم زمانے سے آب پاشی کی جا رہی ہے اور زراعت ہمیشہ اہم ترین منافع بخش پیشہ رہا ہے۔ قدیم ترین‘ لیکن اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ شہری آبادیوں‘ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کا انحصار آب پاشی اور زراعت پر تھا۔ آب و ہوا کے لحاظ سے بھی پاکستان کی سرزمین کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ آب و ہوا کا تعلق سطح سمندر سے بلندی اور خط استوا سے فاصلے پر ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرزمین کی سطح سمندر سے بلندی صفر سے لے کر8 ہزار6 سو 11 میٹر تک ہے اور شمالاً جنوباً پھیلائو بھی 23 درجے عرض بلد سے 37 درجے عرض بلد تک ہے جواچھا خاصا ہے۔ نتیجتاً آب و ہوا میں اتنا تنوع ہے جتنا کسی اور ملک میں نہیں ہے۔

اس کا اثر یہ ہے کہ جتنی اقسام کی فصلیں اور پھل سبزیاں وغیرہ پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں کسی اور ملک میں نہیں ہوتیں۔ کم درجہ حرارت میں پیدا ہونے والی فصلوں سے لے کر زیادہ درجہ حرارت والی فصلیں تجارتی پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی زرعی ماہر یہاں آیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ وادی پشاور میں گنا اور چقندر ساتھ ساتھ کاشت کیے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارے کاشت کاروں کو موزوں ماحول اور مناسب سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ زراعت میں غیر معمولی کارنامے دکھا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)