کسوٹی کا نام سنتے ہی ہر شخص کے ذہن میں سنار کی دکان میں موجود سیاہ پتھر آجاتا ہے جس پر سنار سونے کو گِھس کر اس پر چند قطرے تیزاب کے ڈالتا ہے اور پھر بتاتا ہے کہ سونا کتنا خالص ہے اور اس میں کتنی ملاوٹ ہے۔ دودھ، پانی، تیل، پیٹرول، اشیائے خورونوش سے لے کر تمام دھاتوں کو ناپنے کے آلے اور پیمانے موجود ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ایمان کے خالص ہونے پر جنت جیسی نعمت اور دنیا کی سربلندی ملنی ہے، اس کو کسوٹی پر نہ پرکھا جائے! جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کو سخت ترین آزمائشوں سے گزارا ہے۔ نوح علیہ السلام کو نو سو سال تک قوم کی اذیت کو برداشت کرنا پڑا پھر جاکر آپ نے ہلاکت کی بددعا کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، ملک سے نکالا گیا، اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور شیر خوار حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی سنگلاخ وادی میں چھوڑنا پڑا، پھر اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے راستے میں قربان بھی کرنے گئے۔ یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم ہوا، حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیر دیا گیا، عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کی سزا ملی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی رسول اور نبی آئے سب کو سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکینِ مکہ اور اہلِ طائف نے ناقابلِ برداشت اذیتیں دیں۔ تمام انبیا اور رسولوں کے امتیوں کو وقت کے مشرکین نے بھی سخت ترین سزائیں دیں۔ اصحابِ رسول کی ایمانی استقامت اور عزیمت تو لازوال ہے۔
ایک دن حضرت بلال حبشیؓ کے مالک امیہ بن خلف نے آپؓ سے کہا کہ بلال تم احد کہنا چھوڑ دو تو میں تم کو آزاد کردوں گا۔ حضرت بلال حبشیؓ نے جو ایمان افروز جواب دیا وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؓ نے کہا: امیہ تم مجھ کو بازار عکاظ میں لے جاتے ہو اور مٹی کا گھڑا خریدتے ہو تو اسے بجاکر دیکھتے ہو کہ یہ کھوٹا ہے یا کھرا۔ میں نے اللہ سے جنت کا سودا کیا ہے، تو کیا وہ میرے ایمان کی آزمائش نہیں کرے گا! حضرت خبابؓ کی مالکن آپؓ کو انگاروں پر سلا دیتی تھی اور آپؓ کی پیٹھ کی چربی سے انگارے بجھ جاتے تھے۔ ایک دن آپؓ خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو آپ درد کی شدت سے بولے ’’یارسول اللہ‘ اللہ کی نصرت کب آئے گی؟‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خباب! ابھی تو تم پر کچھ نہیں گزرا، پچھلی امتوں کے لوگوں کے تو زندہ حالت میں لوہے کی کنگھیوں سے گوشت نوچے جاتے تھے اور وہ مستقیم رہتے تھے۔‘‘
ایمان کا خالص ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مسلمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت کرتا ہے۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’عمر! تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟‘‘ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’میں اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پھر تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’’مجھے کچھ سوچنے دیجیے۔‘‘ آپؓ نے چند لمحوں کے بعد کہا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی جان و مال اور اولاد ہر چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں۔ جو کوئی ایسا کرے گا وہ گناہ گار اور ظالم ہے۔‘‘
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے رشتے دار، تمہارے مال اور تمہاری تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا خدشہ ہے، اور تمہاری وہ حویلیاں جو تمہیں عزیز ہیں اگر یہ سب تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ عذاب لے آئے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (سورۃ التوبہ 23،24)
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔‘‘ جب اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمان بالیقین کا حکم صادر کیا گیا ہے تو اکیسویں صدی کے کمزور ایمان والے مسلمانوں کے ایمان کی کیا کیفیت ہوگی! جبکہ میدانِ بدر میں ایمان والوں نے اپنے قریبی رشتے داروں کو جو مشرک تھے اور لڑنے آئے تھے، قتل کیا اور قیدی بنالیا۔ ایمان والو کے لیے رشتوں کی حیثیت اُسی وقت تک ہوتی ہے جب تک دین کا رشتہ قائم ہے۔
ایمان کی تکمیل کے حوالے سے سیدنا ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی، اللہ کے لیے دشمنی کی، اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک لیا اس کا ایمان مکمل ہوا۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’ایمان کاندھے پر بیٹھے ہوئے پرندے کی مانند ہے، یہ کسی وقت بھی ضائع ہوسکتا ہے۔‘‘
اصحابِ رسول نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم اپنے ایمان کو کس طرح جانچیں کہ یہ برقرار ہے کہ نہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جب تم نیکی کا کوئی کام ہوتے ہوئے دیکھو تو تمہارا دل خوش ہوجائے، اور کوئی بدی دیکھو تو شدید تکلیف محسوس کرو تو سمجھنا تمہارا ایمان موجود ہے۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’جو شخص میری امت کے معاملات سے لاتعلق رہے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ آج غزہ کے مظلوم اور بے کس مسلمانوں کی تباہی پر خاموش رہنے والے حکمران اور عوام کس طرح امتِ محمدیہ ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں!
ایمان کی آزمائش اور کسوٹی پر پورا اترنے والوں کو دیکھنا ہو تو جنگِ خندق کے مرحلے کو دیکھو جب کفار و مشرکین، یہود و نصاریٰ کے مشترکہ لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا تھا، اُس وقت کامل ایمان والے اصحابِ رسول پکار اٹھے کہ ’’اللہ اور رسولؐ نے اسی دن کا وعدہ کیا تھا۔‘‘ مگر جو منافقینِ مدینہ تھے وہ حالات کے جبر کا رونا رو رہے تھے۔ آج چودہ صدیاں گزرنے کے بعد اہلِ غزہ و فلسطین عالمِ کفر کی مشترکہ فوج سے بر سرِ پیکار ہیں اور بدر و خندق کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، ہتھیار ڈالنا تو دور کی بات ہے وہ شہادت کو گلے لگانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ عالمِ اسلام کے منافق حکمران موت کی ڈر سے کانپ رہے ہیں۔
میدانِ بدر سے یہ صدا آرہی ہے:اللہ کی نصرت اب قریب آ رہی ہے۔ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر قائم رہے تو ان پر فرشتے (یہ کہتے ہوئے) نازل ہوتے ہیں کہ نہ گھبراؤ نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا وعدہ تم سے کیا گیا ہے۔
ایمان کی پرکھ لالچ، خوف، حرص و ہوس اور تکبر سے ہوتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس کے پھندے میں آگیا تو اس کا ایمان ضائع ہوجاتا ہے۔ عزازیل بھی اللہ کا مقربِ خاص تھا مگر تکبر نے اس کو ابلیس بنا دیا۔
ایمان کی کسوٹی دراصل یہ دنیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ساتھ کسی آبادی سے گزر رہے تھے کہ آپؑ نے بیچ چوراہے پر ایک نہایت ہی بدشکل بڑھیا کو دیکھا، پیغمبرانہ نظر نے پہچان لیا کہ یہ تو دنیا ہے، آپ نے پوچھا ’’دنیا! تُو اس حال میں اس طرح کیوں بیٹھی ہے؟‘‘
دنیا بولی ’’میں لوگوں کو لبھانے اور اپنا دیوانہ بنانے کے لیے بیٹھی ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’تیری اس بدشکل پر کون فریفتہ ہوگا؟‘‘ دنیا کھلکھلا کر ہنسی اور بولی ’’میں دیکھنے والوں کو دلہن کی طرح نظر آتی ہوں۔‘‘ آپؑ نے پوچھا ’’دنیا! تُو نے کتنے خصم (شوہر) رکھے؟‘‘ دنیا پھر ہنسی اور بولی ’’بے شمار… بے شمار۔‘‘ آپؑ نے پوچھا ’’کیا لوگوں نے تجھ کو چھوڑ دیا؟‘‘ اس بار دنیا زور سے ہنستے ہوئے بولی ’’میں نے سب کو ہلاک کردیا۔‘‘
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دنیا جہنم میں ڈالی جائے گی تو چیخے گی، چلاّئے گی۔ باری تعالیٰ پوچھے گا ’’میرے بندوں کو ورغلانے اور مجھ سے جدا کرنے والی کیوں چیخ چلّا رہی ہے؟‘‘ دنیا بولے گی کہ ’’باری تعالیٰ مجھے تنہا کیوں ڈال رہا ہے؟ میرے چاہنے والوں کو بھی میرے ساتھ ڈال۔‘‘ پھر چاہنے والے بھی ڈالے جائیں گے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگو! تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، جو ایسا کریں گے وہ بڑے ہی گھاٹے میں رہنے والے لوگ ہیں۔‘‘ (سورہ المنافقون: 9)
قرآن مجید کی متعدد سورتوں میں مال، اولاد، چیدہ گھوڑے، سونے چاندی کو صرف دنیا کی زینت قرار دیا گیا ہے، اور دنیا کے تمام مال و متاع کی آخرت میں مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں ہوگی۔
جنازے کی نماز کے آخری دو جملے یہ ہیں کہ اللہ مجھ کو اسلام پر قائم رکھ اور ایمان کے ساتھ اس دنیا سے اٹھانا۔
دنیا کا کوئی بھی صاحبِ ایمان معلومات کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاملات کی بنیاد پر جنت کا حق دار قرار پائے گا۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
’’ ہر غیبت کرنے اور طعنہ دینے والے کے لیے ہلاکت ہے، جو مال جمع کرتا ہے اور گن گن کر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔‘‘ (سورہ الحہمزہ)
’’سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘
یہ دنیا کا مال و متاع اور رشتے ناتے ہی ایمان کی کسوٹی ہیں جو پیروں کی زنجیر بن کر اللہ کے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔ خوف ِآخرت جتنا مضبوط ہوگا اللہ اور رسولؐ سے محبت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
آتشِ عشق کو ابھی اور تپانے دو
ممکن ہے کہ بن جائے یہ کھوٹا کھرا سونا