مسجد کے آداب

1208

-1 اللہ کی نظر میں روئے زمین کا سب سے زیادہ بہتر حصہ وہ ہے جس پر مسجد تعمیر کی جائے۔ اللہ سے پیار رکھنے والے کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسجد سے بھی پیار رکھتے ہیں۔ قیامت کے ہیبت ناک دن میں جب کہیں کوئی سایہ نہ ہوگا، اللہ اس دن اپنے اس بندے کو اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو۔ نبیؐ کا ارشاد ہے وہ شخص (عرش کے سائے میں ہوگا) جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو۔ (بخاری)

-2 مسجد کی خدمت کیجیے اور اس کو آباد رکھیے، مسجد کی خدمت کرنا اور اس کو آباد رکھنا ایمان کی علامت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:

’’اللہ کی مسجد کو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔

-3 فرض نمازیں ہمیشہ مسجد میں جماعت سے پڑھیے۔ مسجد میں جماعت اور اذان کا باقاعدہ نظم رکھیے اور مسجد کے نظام سے اپنی پوری زندگی کو منظم کیجیے۔ مسجد ایک ایسا مرکز ہے کہ مومن کی پوری زندگی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’مسلمانوں میں بعض لوگ وہ ہیں جو مسجدوں میں جمے رہتے ہیں اور وہاں سے ہٹتے نہیں ہیں، فرشتے ایسے لوگوں کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ غائب ہوجائیں تو فرشتے ان کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور اگر بیمار پڑ جائیں تو فرشتے ان کی بیمار پرسی کرتے ہیں اور اگر کسی کام میں لگے ہوں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں۔ مسجد میں بیٹھنے والا اللہ کی رحمت کا منتظر ہوتا ہے۔ (مسند احمد)

-4مسجد میں نماز کے لیے ذوق و شوق سے جایئے۔ نبیؐ نے فرمایا صبح و شام مسجد میں نماز کے لیے جانا ایسا ہے جیسے جہاد کے لیے جانا۔ اور یہ بھی فرمایا جو لوگ صبح کے اندھیرے میں مسجد کی طرف جاتے ہیں قیامت میں ان کے ساتھ کامل روشنی ہوگی، اور یہ بھی فرمایا نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے والے کا ہر قدم ایک نیکی کو واجب اور ایک گناہ کو مٹاتا ہے۔ (ابن حبان)

-5 مسجد کو صاف ستھرا رکھیے، مسجد میں جھاڑو دیجیے، کوڑا کرکٹ صاف کیجیے، خوشبو لگایئے، خاص طور پر جمعہ کے دن مسجد کو خوشبو میں بسانے کی کوشش کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے مسجد میں جھاڑو دینا، مسجد کو پاک صاف رکھنا، مسجد کا کوڑا کرکٹ باہر پھینکنا، مسجد میں خوشبو سلگانا، بالخصوص جمعہ کے دن مسجد کو خوشبو میں بسانا جنت میں لے جانے والے کام ہیں۔ (ابن ماجہ)

اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا: ممسجد کا کوڑا کرکٹ صاف کرنا حسین آنکھوں والی حور کا مہر ہے (طبرانی)

-6 مسجد میں ڈرتے لرزتے جایئے۔ داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہیے اور خاموش بیٹھ کر اس طرح ذکر کیجیے کہ اللہ کی عظمت و جلال آپ کے دل پر چھایا ہوا ہو۔ ہنستے بولتے غفلت کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا غافلوں اور بے ادبوں کا کام ہے جن کے دل اللہ کے خوف سے خالی ہیں۔ بعض لوگ امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہونے اور رکعت پالینے کے لیے مسجد میں ڈورتے ہیں، یہ مسجد کے احترام کے خلاف ہے۔ رکعت ملے یا نہ ملے سنجیدگی، وقار اور عاجزی کے ساتھ مسجد میں چلیے اور بھاگ دوڑ سے پرہیز کیجیے۔

-7 مسجد میں سکون سے بیٹھیے اور دنیا کی باتیں نہ کیجیے، مسجد میں شور مچانا، ٹھٹھا مذاق کرنا، بازار کے بھائو پوچھنا اور بتانا، دنیا کے حالات پر تبصرہ کرنا اور خرید و فروخت کا بازار گرم کرنا مسجد کی بے حرمتی ہے۔ مسجد اللہ کی عبادت کا گھر ہے اس میں صرف عبادت کیجیے۔

-8 مسجد میں ایسے چھوٹے بچوں کو نہ لے جایئے جو مسجد کے احترام کا شعور نہ رکھتے ہوں اور مسجد میں پیشاب، پاخانہ کریں یا تھوکیں۔

-9 مسجد کو گزرگاہ نہ بنایئے مسجد کے دروازے میں داخل ہونے کے بعد مسجد کا یہ حق ہے کہ آپ اس میں نماز پڑھیں یا بیٹھ کر ذکر و تلاوت کریں۔

-10 اگر آپ کی کوئی چیز کہیں باہر گم ہوجائے تو اس کا اعلان مسجد میں نہ کیجیے، نبیؐ کی مسجد میں اگر کوئی شخص اس طرح اعلان کرتا تو آپؐ ناراض ہوتے اور یہ کلمہ فرماتے:

’’خدا تجھ کو تیری گمی ہوئی چیز نہ ملائے‘‘۔

-11 مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں رکھیے اور نبیؐ پر درود سلام بھیجیے پھر یہ دعا پڑھیے نبیؐ کا ارشاد ہے جب تم میں سے کوئی مسجد میں آجائے تو پہلے نبیؐ پر درود و سلام بھیجے اور پھر یہ دعا پڑھے:

اللّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ(مسلم)

’’الٰہی! میرے لیے اپنے رحمت کے دروازے کھول دے‘‘۔

اور مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھیے اس نفل کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں۔ اسی طرح جب کبھی سفر سے واپسی ہو تو سب سے پہلے مسجد پہنچ کر دو رکعت نفل پڑھیے اور اس کے بعد گھر جایئے، نبیؐ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں جاکر نفل پڑھتے اور پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے۔

-12 مسجد سے نکلتے وقت بایاں پائوں باہر رکھے اور یہ دعا پڑھیے:

اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ مِنْ فَضْلِکَ(مسلم)

’’الٰہی! میں تجھ سے تیرے فضل و کرم کا سوال کرتا ہوں‘‘۔

-13 مسجد میں باقاعدہ اذان اور نماز باجماعت کا نظم قائم کیجیے اور مؤذن اور امام ان لوگوں کو بنایئے جو دین و اخلاق میں بحیثیت مجموعی سب سے بہتر ہوں۔ جہاں تک ممکن ہو کوشش کیجیے کہ ایسے لوگ اذان اور امامت کے فریضے انجام دیں جو معاوضہ نہ لیں اور اپنی خوشی سے اجر آخرت کی طلب میں ان فرائض کو انجام دیں۔

-14اذان کے بعد یہ دعا پڑھیے، نبیؐ نے فرمایا جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا مانگی قیامت کے روز وہ میری شفاعت کا حق دار ہوگا (بخاری)

’’الٰہی! میں اس دعوت کامل اور اس کھڑی ہونے والی نماز کے مالک! محمدؐ کو اپنا قرب اور فضیلت عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر فائز کر جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ (بخاری)

-15 مؤذن جب اذان دے رہا ہو تو اس کے کلمات سن سن کر آپ بھی دہرایئے، البتہ جب وہ

حَی عَلی الصَّلاةِاور حَیّ عَلی الْفَلاحِ کہے تو اس کے جواب میں کہیے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِٱللَّٰهِ ٱلْعَلِيِّ ٱلْعَظِيمِاور اور فجر کی نماز میں جب مؤذناَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم کہے تو جواہ میں یہ کلمات کہیے: صدقت و بررت…تم نے سچ کہا اور بھلائی کی بات کی۔

-16 تکبیر کہنے والا جب”قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ کہے کہے تو جواب میں یہ کلمات کہیے اقامہا اللہ وادمہا… اللہ اسے ہمیشہ قائم رکھے۔

-17 عورتیں مسجدوں میں جانے کے بجائے گھر میں ہی نماز ادا کریں۔ ایک بار ابو حمید ساعدیؓ کی بیوی نے نبیؐ سے عرض کیا یا رسولؐ اللہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ آپؐ نے فرمایا مجھے تمہارا شوق معلوم ہے لیکن تمہارا کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم دالان میں نماز پڑھو اور دالان میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ صحن میں پڑھو۔

البتہ عورتوں کو مسجد کی ضروریات پوری کرنے کی امکان بھرکوشش کرنی چاہیے۔ پانی کا انتظام، چٹائی کا انتظام اور خوشبو وغیرہ کا سامان بھیجیں اور مسجد سے دلی تعلق قائم رکھیں۔

-18 ہوشیار بچوں کو اپنے ساتھ مسجد میں لے جایئے، مائوں کو چاہیے کہ وہ ترغیب دے دے کر بھیجیں تاکہ بچوں میں شوق پیدا ہو اور مسجد میں ان کے ساتھ نہایت نرمی، محبت اور شفقت کا سلوک کیجیے۔ وہ اگر کوئی کوتاہی کریں یا شرارت کر بیٹھیں تو ڈانٹنے پھٹکارنے کے بجائے پیار اور محبت سے سمجھایئے اور بھلائی کی تلقین کیجیے۔

نماز کے آداب
-1 نماز کے لیے طہارت اور پاکی کا پورا پورا خیال رکھیے، وضو کریں تو مسواک کا بھی اہتمام کیجیے، نبیؐ نے فرمایا قیامت میں میری امت کی علامت یہ ہوگی کہ ان کی پیشانی اور اعضائے وضو نور سے چمک رہے ہوں گے، پس جو شخص اپنے نور کو بڑھانا چاہے بڑھائے۔

-2صاف ستھرے، سنجیدہ، مہذب اور سلیقے کے کپڑے پہن کر نماز ادا کیجیے۔ قرآن پاک میں ہے:

’’اے آدم کے بیٹو! ہر نماز کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہوجایا کرو‘‘۔

-3 وقت کی پابندی سے نماز ادا کیجیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’مومنوں پر وقت کی پابندی سے نماز فرض کی گئی ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک بار نبیؐ سے پوچھا یا رسولؐ اللہ! اللہ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے۔ آپؐ نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا: اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس شخص نے ان نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر اچھی طرح وضو کرکے خشوع و خضوع سے ادا کیا تو اللہ پر اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو بخش دے اور جس نے ان نمازوں میں کوتاہی کی تو اللہ پر اس کی مغفرت و نجات کی کوئی ذمہ داری نہیں، چاہے تو عذاب دے وار چاہے تو بخش دے۔ (مالک)

-4 نماز ہمیشہ جماعت سے پڑھیے اگر کبھی جماعت نہ ملے تب بھی فرض نماز مسجد میں ہی پڑھنے کی کوشش کیجیے، البتہ سنتیں گھر پڑھنا بھی اچھا ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے جو شخص چالیس دن تک تکبیر اُولی کے ساتھ نماز باجماعت پڑھے وہ دوزخ اور نفاق دونوں سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ (ترمذی)

اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا۔ اگر لوگوں کو نماز باجماعت کا اجر و ثواب معلوم ہوجائے تو وہ ہزار مجبوریوں کے باوجود بھی جماعت کے لیے دوڑ دوڑ کرآئیں۔ جماعت کی پہلی صف ایسی ہے جیسے فرشتوں کی صف، تنہا نماز پڑھنے سے دو آدمیوں کی جماعت بہتر ہے پھر جتنے آدمی زیادہ ہوں گے اتنی ہی یہ جماعت اللہ کو زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ (ابودائود)

-5 نماز سکون کے ساتھ پڑھیے اور رکوع و سجود اطمینان کے ساتھ ادا کیجیے، رکوع سے اٹھنے کے بعد اطمینان کے ساتھ سیدھے کھڑے ہوجایئے، پھر سجدے میں جایئے۔ اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بھی مناسب وقفہ کیجیے اور دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی پڑھ لیا کیجیے۔

’’الٰہی! تو میری مغفرت فرما مجھے سیدھی سیدھی راہ پر چلا، میری شکستہ حالی دور فرما، مجھے سلامتی دے اور مجھے روزی عطا کر‘‘ (ابودائود)

نبیؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص نماز کو اچھی طرح ادا کرتا ہے، نماز اس کو دعائیں دیتی ہے کہ اللہ اسی طرح تیری بھی حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔ اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بدترین چوری نماز کی چوری ہے۔ لوگوں نے پوچھا یا رسولؐ اللہ نماز میں کوئی کیسے چوری کرسکتا ہے؟ فرمایا رکوع اور سجدے ادھورے ادھورے کرکے۔

-6 اذان کی آواز سنتے ہی نماز کی تیاری شروع کردیجیے اور وضو کرکے پہلے سے مسجد میں پہنچ جایئے اور خاموشی کے ساتھ صف میں بیٹھ کر جماعت کا انتظار کیجیے۔ اذان سننے کے بعد سستی و تاخیر کرنا اور کسمساتے ہوئے نماز کے لیے جانا منافقوں کی علامت ہے۔

-7 اذان بھی ذوق و شوق سے پڑھا کیجیے۔ نبیؐ سے ایک شخص نے پوچھا یا رسولؐ اللہ! مجھے کوئی ایسا کام بتادیجیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپؐ نے فرمایا: نماز کے لیے اذان دیا کرو آپ نے یہ بھی فرمایا مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اور جو اس کی آواز سنتا ہے وہ قیامت میں مؤذن کے حق میں گواہی دے گا۔ جو شخص جنگل میں بکریاں چراتا ہو اور اذان کا وقت آنے پر اونچی آواز سے اذان کہے تو جہاں تک اس کی آواز جائے گی، قیامت کے دن ساری چیزیں اس کے حق میں گواہی دیں گی۔ (بخاری)

-8 اگر آپ امام ہیں تو تمام آداب و شرائط کا اہتمام کرتے ہوئے نماز پڑھایئے اور مقتدیوں کی سہولت کا لحاظ کرتے ہوئے اچھی طرح امامت کیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’جو امام اپنے مقتدیوں کو اچھی طرح نماز پڑھاتے ہیں اور یہ سمجھ کر پڑھاتے ہیں کہ ہم اپنے مقتدیوں کی نماز کے ضامن ہیں ان کو اپنے مقتدیوں کی نماز کا اجر بھی ملتا ہے، جتنا ثواب مقتدریوں کو ملتا ہے اتنا ہی امام کو بھی ملتا ہے اور مقتدیوں کی نماز کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ (طبرانی)

-9نماز اس طرح خشوع و خضوع سے پڑھیے کہ دل پر اللہ کی عظمت و جلال کی ہیبت طاری ہو اور خوف و سکون چھایا ہوا ہو، نماز میں بلاوجہ ہاتھ پیر ہلانا، بدن کھجانا، داڑھی میں خلال کرنا، ناک میں انگلی ڈالنا، کپڑے سنبھالنا سخت بے ادبی کی حرکتیں ہیں۔ ان سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے۔

-10 نماز کے ذریعے اللہ سے قرب حاصل کرنا کیجیے، نماز اس طرح پڑھیے کہ گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں یا کم از کم یہ احساس رکھیے کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے پس جب تم سجدہ کرو تو سجدے میں خوب دعا کیا کرو‘‘۔ (مسلم)

-11 نماز ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے۔ مارے باندھے کی رسمی نماز درحقیقت نماز نہیں ہے۔ ایک وقت کی نماز پڑھنے کے بعد دوسری نماز کا بے چینی اور شوق سے انتظار کیجیے۔ ایک دن مغرب کی نماز کے بعد کچھ لوگ عشا کی نماز کا انتظار کررہے تھے، نبیؐ تشریف لائے اور آپؐ اس قدر تیز تیز چل کر آئے کہ آپؐ کی سانس چڑھ گئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: لوگو! خوش ہوجائو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھول کر تمہیں فرشتوں کے سامنے کیا اور فخر کرتے ہوئے فرمایا دیکھو میرے بندے ایک نماز ادا کرچکے ہیں اور دوسری نماز کا انتظار کررہے ہیں۔ (ابن ماجہ)

-12 غافلوں اور لاپرواہوں کی طرح جلدی جلدی نماز پڑھ کر سر سے بوجھ نہ اتاریئے بلکہ حضور قلب کے ساتھ اللہ کو یاد کیجیے اور دل، دماغ، احساسات، جذبات اور افکار و خیالات ہر چیز سے پوری طرح اللہ کی طرف رجوع ہوکر پوری یکسوئی اور دھیان کے ساتھ نماز پڑھیے۔ نماز وہی نماز ہے جس میں اللہ کی یاد ہو، منافقوں کی نماز اللہ کی یاد سے خالی ہوتی ہے۔

-13 نماز کے باہر بھی نماز کا حق ادا کیجیے، اور پوری زندگی کو نماز کا آئینہ بنایئے۔ قرآن میں ہے: ’’نماز بے حیائی اور نافرمانی سے روکتی ہے‘‘۔ نبیؐ نے ایک انتہائی اثر انگیز تمثیل میں اس طرح اس کو پیش کیا۔ آپؐ نے ایک سوکھی ٹہنی کو زور زور سے ہلایا ٹہنی میں لگے ہوئے پتے ہلانے سے جھڑ گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا نماز پڑھنے والوں کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں، جس طرح اس سوکھی ٹہنی سے پتے جھڑ گئے اور اس کے بعد آپؐ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’اور نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر (یعنی فجر اور مغرب) اور کچھ رات گئے پر، بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے‘‘ (سورہ ہود: 114/11)

-14نماز میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن شریف پڑھیے اور نماز کے دوسرے اذکار بھی ٹھہر ٹھہر کر پوری توجہ، دل کی آمادگی اور طبیعت کی حاضری کے ساتھ پڑھیے، سمجھ سمجھ کر پڑھنے سے شوق میں اضافہ ہوتا ہے اور نماز واقعی نماز بن جاتی ہے۔

-15 نماز پابندی سے پڑھیے اور کبھی ناغہ نہ کیجیے۔ مومنوں کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ بلاناغہ نماز پڑھتے ہیں:

’’مگر نمازی وہی لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کو پابندی کے ساتھ التزام کرتے ہیں‘‘۔

-16 فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں کا بھی اہتمام کیجیے اور کثرت سے نوافل پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’جو شخص فرض نمازوں کے علاوہ دن رات میں بارہ رکعتیں (اس سے مراد وہ سنتیں ہیں جو فرض نمازوں کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں)پڑھتا ہے اس کے لیے ایک گھر جنت میں بنادیا جاتا ہے‘‘۔ (مسلم)

-17 سنت اور نوافل کبھی کبھی گھر میں بھی پڑھ لیا کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد کچھ نماز گھر میں پڑھا کرو، اللہ اس نماز کے طفیل تمہارے گھروں میں خیر عطا فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)

اور نبیؐ خود بھی سنت و نوافل اکثر گھر میں پڑھا کرتے تھے۔

-18فجر کی نماز کے لیے جب گھر سے نکلیں تو یہ دعا پڑھیے:

’’الٰہی! تو پیدا فرمادے میرے دل میں نور، میری بینائی میں نور، میری شنوائی میں نور، میرے دائیں نور، میرے بائیں نور، میرے پیچھے نور، میرے آگے نور اور میرے لیے نور ہی نور کردے۔ میرے پٹھوں میں نور کردے اور میرے گوشت میں نور، میرے خون میں نور، میرے بالوں میں نور، میری کھال میں نور، میری زبان میں نور اور میرے نفس میں نور پیدا فرمادے اور مجھے نورِ عظیم دے اور مجھے سراپا نور بنادے اور میرے اوپر نور، میرے نیچے نور، الٰہی مجھے نور عطا کر‘‘۔ (حصن حصین)

-19فجر اور مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر گفتگو کرنے سے پہلے ہی سات بار یہ دعا پڑھیے:

’’الٰہی! مجھے جہنم کی آگ سے پناہ دے‘‘۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’فجر و مغرب کی نماز کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے سات بار یہ دعا پڑھ لیا کرو، اگر اس دن یا اس رات میں مر جائوگے تو جہنم سے ضرور نجات پائوگے‘‘۔(مشکوٰۃ)

-20 ہر نماز کے بعد تین باراَسْتَغْفِرُ اللّٰہکہیے اور پھر یہ دعا پڑھیے:

’’الٰہی! تو السلام ہے، سلامتی کا فیضان تیری ہی جانب سے ہے، تو خیر و برکت والا ہے، اے عظمت والے اور نوازش والے‘‘ (مسلم)

-21جماعت کی نماز میں صفوں کو درست رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیجیے۔ صفیں بالکل سیدھی رکھیے اور کھڑے ہونے میں اس طرح کندھے سے کندھا ملایئے کہ بیچ میں خالی جگہ نہ رہے اور جب تک آگے کی صفیں نہ بھر جائیں پیچھے دوسری صفیں نہ بنایئے۔ ایک بار جماعت کی نماز میں ایک شخص اس طرح کھڑا ہوا تھا کہ اس کا سینہ باہر نکلا ہوا تھا۔ رسولؐ اللہ نے دیکھا تو تنبیہ فرمائی۔

’’اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو سیدھی اور درست رکھنے کا لازماً اہتمام کرو ورنہ خدا تمہارے رخ ایک دوسرے کے خلاف کردے گا‘‘ (مسلم)

ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا:

’’جو شخص نماز کی کسی صف کو جوڑے گا اسے خدا جوڑے گا اور جو کسی صف کو کاٹے گا اللہ اسے کاٹے گا‘‘۔ (ابودائود)

-22 بچوں کی صف لازماً مردوں سے پیچھے بنایئے اور بڑوں کے ساتھ کھڑا نہ کیجیے۔ البتہ عیدگاہ وغیرہ میں جہاں الگ کرنے میں زحمتیں پیش آئیں یا بچوں کے گم ہونے کا اندیشہ ہو تو وہاں بچوں کو پیچھے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ساتھ رکھیے اور عورتوں کی صفیں یا تو سب سے پیچھے ہوں یا الگ ہوں اگر مسجد میں ان کے لیے جگہ بنی ہوئی ہو، اسی طرح عیدگاہ میں عورتوں کے لیے الگ جگہ کا انتظام کیجیے۔

حصہ