مایوسی سے امید تک

279

ابھی شمائل کے گریجویشن کے آخری سال کے امتحانات ہونے ہی والے تھے کہ اس کے گھر والوں کو نبیل کا رشتہ پسند آگیا۔ نبیل کی والدہ نے کزن کی شادی میں اسے دیکھا تھا اور پہلی ہی نظر میں سادہ سی، سر پر دوپٹہ اوڑھے، دیگر لڑکیوں سے الگ تھلگ یہ لڑکی ان کے دل میں اتر گئی اور اسی ہفتے اپنے اکلوتے بیٹے نبیل کا پیام لے کر وہ آن پہنچیں۔

نبیل میں تمام خوبیاں تھیں… اچھی تعلیم، اچھی ملازمت، خوش شکل و خوش لباس۔ گھر میں صرف اس کی والدہ تھیں جو انتہائی سلجھی اور معقول تھیں۔ سو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا اور وہ نبیل کی دلہن بن کر آگئی۔

اس کی ساس واقعی ایک مثالی ساس ثابت ہوئیں۔ انہوں نے بیٹے کی تربیت میں صرف ماں کی ہی نہیں بلکہ عورت کی عزت کرنا بھی گھٹی میں ڈالا تھا۔ نبیل کو کبھی اس نے اپنی کسی کزن کے سامنے بے باکی سے بات کرتے نہیں دیکھا اور وہ خود بھی اسی مزاج کی تھی۔ دونوں کی جوڑی کی سارے خاندان میں دھوم مچی رہتی۔ آہستہ آہستہ وہ ذمے داریوں میں گھرتی گئی، اوپر تلے تین بچوں کی آمد، پھر گھر اور اماں، وہ تو پردیس جاتیں تو چھ آٹھ ماہ بعد ہی آتیں۔ ان کا تو پورا میکہ ہی امریکا میں تھا۔ پہلے نبیل کی تنہائی انہیں روکے رکھتی تھی۔ اب وہ بے فکری سے رہتیں۔

زندگی کی گاڑی بہت تیزی سے رواں تھی، اسے اپنے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ مشینی زندگی ہوگئی تھی۔ وہ کچھ عرصے سے نبیل کے رویّے میں تبدیلی محسوس کررہی تھی۔ ایک آدھ بار پوچھنے پر نبیل نے آفس کا مسئلہ بتاکر اسے مطمئن کردیا، اور اسے بھی بچوں اور گھر کے مسائل اتنا تھکا دیتے کہ وہ کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ لیکن کب تک؟ آخر اسے نبیل کے رویّے میں تبدیلی کی وجہ پتا چل ہی گئی۔ کل رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھلی، نبیل کو بستر پہ نہ پاکر اس نے اسے تلاش کیا تو باہر ٹیرس پر اُسے موبائل پر محوِ گفتگو دیکھا۔ اس نے سوچا کہ کوئی دوست ہوگا، لیکن نبیل کے الفاظ کیا تھا ایسا گہرا گھائو تھے جو اس کا دل چیر گئے ’’یار کیا بتائوں وہ میری ہر ضرورت کو پورا کرتی ہے، لیکن بس اس میں اب پہلے جیسی کشش و حسن نہیں رہا، ہر وقت تھکی ہوئی، بے زار… بس دل اب اس طرف راغب نہیں ہوتا۔ تم سے بات کرکے ذرا تازہ دم ہوجاتا ہوں۔ تمہاری ہنسی اور باتیں میری تھکن اتار دیتی ہیں۔‘‘

اس سے آگے سننے کا حوصلہ اس میں نہ تھا، وہ اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹتے بستر پر گر گئی۔ اسے آج اماں کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی۔ اماں دیکھیں آپ کا نبیل بھٹک رہا ہے، آپ کا سایہ دور ہے نا۔ وہ نبیل جو اپنی کزن تک سے نظریں ملا کر بات نہیں کرتے تھے آج کسی سے اتنی بے باکی سے بات کررہے تھے… اُف اللہ میں کیا کروں؟ اشک تکیے کو نم کررہے تھے اور کنپٹیاں سلگ رہی تھیں۔

پچھلے پہر کی یہ رات خاصی طویل ہوگئی تھی۔ رات کی تاریکی کو چیرتی اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ وہ بھی کھڑی ہوگئی۔ اپنا من ہلکا کرنا ہو تو سب ہی اپنے رب کے دربار میں سر جھکا دیتے‘ ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔

صبح نبیل اس کی کیفیت سے لاعلم اسی طرح تیار ہوکر ناشتا کرکے آفس چلا گیا۔ اور وہ تھی تو عورت ہی، اپنا ہر دکھ بھول کر زندگی کے دھندوں میں مصروف رہنے کا ہنر اس سے زیادہ کسے آتا!

’’ہر رشتہ و تعلق کی بنیاد بھروسا و اعتماد ہے، یہ نہ ہو تو انسان کا وجود بے معنی اور تعلق صرف سمجھوتا ہے۔‘‘ اس کی بچپن سے عادت تھی کہ جو بات اسے اچھی لگتی وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیتی، اور آج اسے اپنی ڈائری میں لکھے یہ الفاظ نہ صرف یاد آرہے تھے بلکہ نہ جانے کتنے اشک بھی بہانے پر مجبور کررہے تھے۔ وہ اس وقت تنہا رہنا چاہتی تھی، لیکن کتنی مجبور تھی کہ وہ چاہ کر بھی تنہا نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اس کے وجود کے اندر تک تنہائی اور گہرا سناٹا تھا۔

’’امی امی…! آئیں نا، دیکھیں یہ کیا ہوگیا۔‘‘

ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ بڑی بیٹی پینٹ اور برش لیے سامنے آگئی۔

’’اُف ایک تو یہ بچے سکون نہیں لینے دیتے…‘‘ اس کی ساری جھنجھلاہٹ اپنی پانچ سالہ معصوم بچی پر اتری۔

’’ہٹو تم، میں صاف کروں، تمہیں اور کام ہی کیا ہے!‘‘ ابھی وہ یہ صاف کر ہی رہی تھی کہ چھ سالہ بیٹا روتے ہوئے آگیا ’’اماں! دیکھیں میری گاڑی کا ٹائر ٹوٹ گیا۔‘‘

’’اوہو… چلو کوئی بات نہیں، دوسری آجائے گی۔‘‘ اس نے یہ کہہ کر بہلانا چاہا۔ کتنا معصوم بچپن ہوتا ہے۔ ایک گاڑی کا ٹائر ٹوٹنے پر رو رہا ہے، یہاں لوگ روز رشتوں کو توڑتے اور ارمانوں کا خون کرتے ہیں، انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ ایک بار پھر اسے سب کچھ یاد آگیا۔ ابھی وہ پھر اسی ٹرانس میں تھی کہ چھوٹی والی کے رونے کی آواز نے اسے اپنی الجھنوں اور سوچوں کے وسیع سمندر سے نکال کر کارِ زندگی میں مصروف کردیا۔ آنسو پیتے، خود سے الجھتے دن تو گزر گیا، مگر رات… رات کو تو دکھ جاگتے، درد ٹیسیں دیتے اور نہ ختم ہونے والی سوچیں تھکے ہوئے بدن کو مزید تھکاتی ہیں۔ بات شاید اتنی بڑی بھی نہیں تھی لیکن اتنی معمولی بھی نہیں۔

’’شمائل تم شروع سے ہی ایسی ہو، ہر بات کو بڑھا چڑھاکر خود پر سوار کرکے نہ خود خوش رہتی ہو، نہ رہنے دیتی ہو۔‘‘

’’کیا تم اسے معمولی بات سمجھتی ہو ماہا؟ ایک مرد جس سے ہم وفا نبھاتے ہیں، جس کے بچوں کی تربیت میں خود کو گھلا دیتے ہیں، جس کے گھر کی دیکھ بھال میں اپنا سُکھ چین سب بھول جاتے ہیں، اُسے یہ زیب دیتا ہے؟‘‘

’’اوہو… تو کون سا کمال کرتی ہو! سب عورتیں کرتی ہیں۔‘‘

’’ہاں تو سب مرد کیا یہی کرتے ہیں؟‘‘ شمائل نے تڑخ کر کہا۔

’’ہاں، کم و بیش ہر مرد یہی کرتا ہے۔ یہ دنیا ہے، یہاں آنکھیں کھول کر رہو، دیکھو اردگرد کیا کیا ہورہا ہے؟ مرد کہاں کہاں سے خود کو بچائے؟‘‘

’’ماہا تم کیسی باتیں کررہی ہو؟‘‘

’’جو حقیقت ہے وہی سمجھا رہی ہوں۔ قدم قدم پر باہر مردوں کے لیے آزمائشیں کھڑی ہیں، عورتیں بازارِ حسن سجائے ہوئے ہیں۔ شکر کرو نبیل بھائی صرف بات چیت تک ہی محدود ہیں، عملاً کچھ غلط نہیں کرتے، ورنہ یہاں تو سب تیار ہیں۔ تم سے رویہ بدلا؟ تمہیں کچھ برا بھلا کہا ؟ نہیں نا۔ دیکھو! اپنے آپ کو بدلو، اپنا حلیہ دیکھو۔ نبیل بھائی کے آنے سے پہلے کوشش کیا کرو کہ سب کاموں سے فارغ ہوکر اطمینان سے انہیں وقت دو۔‘‘ ماہا رسانیت سے سمجھا رہی تھی۔

’’مرد باہر نہ جانے کتنے محاذوں سے لڑ کر گھر آرہا ہوتا ہے، اُسے گھر میں بھی سکون و اطمینان نہ ملے تو وہ اسے اِدھر اُدھر تلاش کرے گا۔‘‘

’’میں کون سا انہیں تنگ کرتی ہوں؟‘‘ اس نے نم آنکھوں کے ساتھ سوال کیا۔

’’تم یقینا تنگ نہیں کرتی ہوگی، لیکن شاید تم ان کی توقعات پر پورا نہ اتر رہی ہو۔ تم انہیں بس جتنا وقت دو وہ خالص ان کے لیے ہو۔ تیار ہو، مسکرا کر ملو، اپنی اور ان کی باتیں کرو۔ دیکھو یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب بچے ہوتے ہیں تو باتیں بھی بس بچوں کی ضروریات تک محدود ہوجاتی ہیں، اسے کچھ مرد خوشی سے قبول کرتے ہیں اور کچھ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تو شمائل بدلنا تو تمہیں خود کو پڑے گا۔‘‘ ماہا نے تسلی و پیار سے شمائل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے سمجھایا۔

’’اور اب تم یہی دیکھ لو، یہ اتنی بڑی بات بھی نہیں کہ رو رو کر خود کو ہلکان کررہی ہو۔ تمہیں اس مسئلے سے نکلنے کا حل سوچنا چاہیے۔ تم نے خود ہی بتایا نا کہ نبیل بھائی نے تمہارے موڈ کا نوٹس لیا، کئی بار تم سے پوچھا، تو اس کا تو یہی مطلب ہے نا کہ انہیں تمہارا احساس ہے، محبت ہے۔ بس تم سے مطلوبہ وقت اور توجہ نہ ملنے کے سبب شاید کسی سے دوستی ہوگئی ہو۔ دیکھو شمائل! مجھے لگتا ہے غلطی اگر ان کی ہے تو تمہاری بھی ہے۔‘‘

’’ یہ غلطی نہیں، گناہ ہے۔ ماہا جنہیں چھوٹا سمجھا جائے یا جواز تراشے جائیں تو ایسے گناہوں کا وبال نسلیں دیکھتی ہیں۔‘‘ اس نے حلق میں اٹکے گولے کو نگلتے ہوئے کہا۔

’’ہاں صحیح کہہ رہی ہو، لیکن اس کا احساس نبیل بھائی کو دلانا بھی اب تمہاری ذمہ داری ہے۔ بس تہیہ کرو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود کو آزردہ نہیں کروگی، خوش رہو گی تو خوش رکھو گی نا۔ اب اٹھ کر نہا دھوکر تیار ہوجائو، میں بھی اپنے گھر کی راہ لوں، کہیں میرے میاں صاحب بھی میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاکر ٹیلی فونک دوستی نہ شروع کردیں۔‘‘ ماہا نے ہنستے ہوئے کہا اور چلتے چلتے رک کر بولی ’’اور ہاں سنو طعن و تشنیع سے ہمیشہ گریز کرنا، انہیں محبت و حکمت سے آہستہ آہستہ یہ احساس دلانا کہ اگر آپ کو کوئی شکوہ شکایت ہو تو باہم گفتگو سے معاملے سلجھائے جاسکتے ہیں، لیکن اس کے لیے فرار کی راہیں اختیار کرکے کہیں اور سکون تلاش کرنے سے انسان ایسی گھاٹی میں جا گرتا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘

اس نے نم آنکھوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ ہاں میں گردن ہلادی۔

’’چلو اب میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ اپنا بیگ سنبھال کر اس سے گلے مل کر گھر کی دہلیز پار کر گئی۔

’’اچھا دوست بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔‘‘ اس نے اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر سوچا۔ ’’تھینک یو ماہا! تم نے مجھے میری کمزوری سے آگاہ کیا۔ تم صحیح ہو۔ عورت میں وہ مقناطیسی کشش ہے جو مرد کو جامد کردیتی ہے۔ اب یہ مجھ پر منحصر ہے، مجھے اماں کی تربیت اور اپنی محبت پر بھروسا ہے، اور اللہ پر یقین کہ وہ میرے نبیل کو بھٹکنے نہیں دے گا۔‘‘

حصہ