کیا ہم یاجوج ماجوج ہیں؟

296

بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ ہم وہی یاجوج اور ماجوج قوم بن گئے ہیں جس کو صرف اور صرف کھانے سے مطلب ہے۔ یاجوج ماجوج پتا ہے نا کون سی قوم تھی؟ وہی جس کا سورہ الکہف میں ذکر ہے کہ وہ سب کچھ کھا جاتے تھے۔ پھر ان کی آمد کو روکنے کے لیے ایک دیوار بنادی گئی، اور اب وہ قیامت کے نزدیک نکلیں گے۔ غور کریں ہم بھی وہی قوم تو نہیں بنتے جارہے!

کہاں کا کھانا اچھا ہے، باربی کیو کس جگہ کا چٹخارے دار ہے، پیزا فلاں جگہ کا چیز سے بھرپور ہوتا ہے، برگر تو بس وہیں کا کھانا چاہیے۔

ارے تم نے وہاں کی بریانی نہیں کھائی؟

ادھر کے کھوسے کا تو جواب ہی نہیں؟

وہ آئس کریم ٹرائی کی؟

جوس تو فلاں جگہ جاکر پیا کرو، بالکل اصلی پھلوں کا ہوتا ہے۔

چاٹ میں تو اس کا کوئی ثانی نہیں، گول گپے …! گول گپے تو بس وہیں کے اچھے ہوتے ہیں۔ سموسے، رول، جلیبی، بیکری کے آئٹمز کیا کچھ نہیں کھانے کو!

ڈونٹ کی تو بات ہی الگ ہے۔ ناشتے میں کبھی حلوہ پوری تو کبھی نہاری، اور چھٹی والے دن تو برنچ وہ بھی 50 ڈشز کا۔ ارے موبائل کس لیے ہے، جس کھانے کی چاہے ترکیبیں دیکھ لو، بلکہ اب تو مشہور ریسٹورنٹ کے کھانوں کی ترکیبیں بھی مل جاتی ہیں۔

پاستا کی ترکیب تو فلاں شیف کی ہے زبردست، نئی سے نئی ڈش مل جاتی ہے اب تو موبائل پر۔

اسکول میں لنچ دینا ہے تو نگٹس وغیرہ فروزن منگوا کر رکھو۔

کالج کی کینٹین میں سب ملتا ہے۔

میں تو یونیورسٹی جاتی ہی کیفے ٹیریا کے لیے ہوں۔

اس کے علاوہ چپس، بسکٹ، کولڈ ڈرنکس، چاکلیٹ، چیونگم تو ہر وقت ہی چرتے رہنا ہے۔

مایونیز اور چاکلیٹ اسپریڈ ہر گھر کی ضرورت بن گئی ہے، پھر بھی یہی رونا ہے کہ بچے کچھ نہیں کھاتے۔

اب تو ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ کسی کی موت کا سن کر بھی نوالہ ہمارے حلق میں نہیں اٹکتا۔ ’’ارے معلوم ہے سامنے گلی میں ٹوپی والے صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

’’ذرا بریانی کی ڈش تو دینا، اچھا کب ہوا؟‘‘

’’بریانی بنی بہت مزے کی ہے۔ صبح گلی کا چوکیدار بتارہا تھا۔ میرے خیال سے لے بھی گئے ہوںگے۔‘‘

’’ویسے بھابھی آپ کے ہاتھ میں لذت بہت ہے۔‘‘
’’ارے بھائی آپ سالن بھی لیں نا۔‘‘

’’ہاں ہاں لے رہا ہوں، آپ بے فکر رہیں، پورا پورا انصاف ہوگا کھانے سے… ہاں تو میں بتارہا تھا کہ اب تو ان کے ہاں کوئی کمانے والا بھی نہیں رہا۔‘‘

’’اللہ مغفرت کرے، اللہ سب کا ہے، کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جائے گا، اب کھانا کھائیں، سویٹ ڈش بھی تیار ہے۔‘‘
’’اوہو! مطلب یہ کہ اس کی جگہ بھی رکھنی ہے… ہا ہا ہا۔‘‘

گویا موت بھی ایک ذکر ہی ہے، اس سے بھی کوئی ڈر، کوئی خوف نہیں۔ بس کھانا پینا ہی گویا زندگی کا حاصل ہے۔ کیوں… ؟ آخر کیوں…؟

اور کچھ نہیں تو جگہ جگہ چائے کے ہوٹل پر ہی چائے پراٹھے کھانے والوں کا رش ملاحظہ ہو۔ کیا ہم کھانے کے لیے ہی جی رہے ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ نہیں معلوم کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کھانا ہے، کھانے کے لیے زندہ نہیں رہنا۔

آس پاس کیا ہورہا ہے اس سے ہمیں کوئی غرض کیوں نہیں ہے؟ اگر کسی کو احساس دلانے کی کوشش کریں تو آگے سے یہ جواب ملتا ہے ’’بھئی دُعا تو کررہے ہیں، اور کیا کرسکتے ہیں! کچھ چیزوں کا بائیکاٹ بھی کردیا ہے، مالی امداد بھی کر ہی دیتے ہیں۔ پتا نہیں کچھ لوگ ہمارے کھانے کے پیچھے ہی کیوں پڑے رہتے ہیں۔ اب کیا ہم کھائیں بھی نہیں!‘‘

حصہ