موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ حالات بھی تبدیل ہوچکے تھے۔ ظہیر کو نوکری ڈھونڈتے ہوئے آج تیسرا دن تھا۔ ہر جگہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ پچھلی نوکری اس لیے گئی کہ نئے اسٹاف کو رکھنے کے چکر میں پرانے افراد کو یہ کہہ کر نکال باہر کردیا گیا کہ کمپنی اتنے افراد کو ملازمت پر نہیں رکھ سکتی۔ ظہیر بھی ان میں سے ایک تھا۔
تین بچوں اور بیوی کے ساتھ وہ کرائے کے گھر میں رہتا تھا جس کا کرایہ بیس ہزار روپے تھا۔ پینتیس ہزار تنخواہ میں بہ مشکل گزارا ہورہا تھا۔ اس کی بیوی بھی گھر پر سلائی کا کام کرکے اس کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ اچانک نوکری سے نکال دیے جانے کی وجہ سے ظہیر کا سوچ سوچ کر برا حال ہورہا تھا کہ آخر گھر کا کرایہ کیسے ادا کرے گا؟ اتنے میں پانچ سالہ بیٹا احمد آیا۔ ’’ابو! وہ مالک مکان انکل آئے ہیں، آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
’’ضرور کرایہ لینے آیا ہوگا۔ یہ اتنی جلدی کرایہ لینے تو کبھی نہیں آیا۔‘‘ ظہیر کے دماغ میں کئی سوالات گھومنے لگے۔
’’ابو! انکل بلا رہے ہیں۔‘‘ احمد نے اپنے باپ کا جواب نہ پاکر دوبارہ پکارا۔
’’اچھا میں آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہمت پکڑنے لگا۔
’’جی، السلام علیکم !کیسے ہیں آپ…کرایہ لینے تو آپ دس تاریخ کو آتے ہیں۔‘‘ ظہیر نے مالک مکان کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’وعلیکم السلام! دراصل آپ سے بات کرنی تھی اس لیے پہلے ہی آگیا۔ آپ کو پتا ہے مہنگائی بڑھ گئی ہے، اس لیے میں نے کرایہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب آپ مجھے بائیس ہزار روپے کرایہ دیجیے گا۔‘‘ مالک مکان نے رسانیت سے کہا۔
’’کیا؟ بھائی آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اتنا تو میں نہیں دے سکتا، یہ بہت زیادہ ہے۔‘‘ ظہیر نے ملتجی لہجے سے کہا۔
’’اچھا تو پھر مکان خالی کردیں۔ مجھے دوسرا کرایہ دار مل رہا ہے جو اچھا کرایہ دے رہا ہے۔‘‘
’’احسن صاحب! ہمارا اور آپ کا پانچ سال کا ساتھ ہے۔ تھوڑا لحاظ کرلیں۔ دیکھیں میری نوکری بھی چھُٹ گئی۔ اب میں اپنی فیملی کو لے کر کہاں جاؤں گا!‘‘ ظہیر نے پریشانی سے کہا۔
’’کیا…؟‘‘ احسن صاحب نے چونکتے ہوئے کہا ’’آپ نے مجھے بتایا نہیں آپ کی نوکری ختم ہوگئی! پھر تو آپ کا یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں، آپ دو دن میں یہ گھر خالی کردیں۔‘‘ احسن صاحب کٹھور لہجے میں کہتے ہوئے چلے گئے۔
ظہیر پیچھے سے پکارتا ہی رہ گیا۔
نوکری چھُٹنے کے ساتھ ساتھ گھر کی چھت جانے کے غم نے بھی آن گھیرا تھا۔ بیوی سے تذکرہ کیا۔ اس نے تسلی دی اور اللہ پر توکل و بھروسے کا کہا۔
احسن صاحب کی دی گئی مدت ختم ہوتی جارہی تھی۔ سارا سامان سمیٹ لیا گیا تھا لیکن اگلے ٹھکانے کا کچھ پتا نہیں تھا۔ احسن صاحب آئے اور مکان سے نکل جانے کو کہنے لگے۔ آخرکار کچھ سامان لیا اور بیوی بچوں کے ساتھ نامعلوم جگہ کی جانب چل پڑا۔ چلتے چلتے فٹ پاتھ پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔ بھوک نے بھی اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
آس پاس جھونپڑیاں تھیں۔کافی گھنٹے گزر جانے کے بعد اس میں سے ایک جھونپڑی سے ایک بزرگ نکل کر سامنے آئے ’’بیٹا! آپ اتنی دیر سے اپنے بچوں کو لے کر یہاں بیٹھے ہو۔ کیا معاملہ ہے؟گھر نہیں جانا؟‘‘ بزرگ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ ظہیر کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے۔
’’بیٹا! لگتا ہے تم پریشان ہو۔ ایسا کرو ہمارے خیمے میں آجائو۔ میرے بیوی بچے بھی ہیں، میں قریب ہی سبزی منڈی میں کام کرتا ہوں۔‘‘ بزرگ نے اپنا تعارف کروایا تاکہ اجنبیت کی دیوار تھوڑی کمزور ہوجائے۔
’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ بزرگ نے اپنا سوال دہرایا۔
’’میرا نام ظہیر ہے۔ میری نوکری چھُٹ گئی، مالک مکان نے گھر خالی کروا لیا، اگلا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘‘ ظہیر نے اپنے جذبات پر قاپو پاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا! اللہ ہے نا، وہ ہے ٹھکانہ دینے والا۔ آئو میرے ساتھ۔‘‘ بزرگ نے ظہیر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ظہیر کو اس کے بیوی بچوں کے ساتھ انہوں نے اپنی جھونپڑی میں جگہ دی۔ بزرگ کے دو بیٹے، تین بیٹیاں تھیں۔ اُن سب نے اِن کی خوب خاطرداری کی اور ایک جانب ان کے رہنے کا بندوبست کیا۔ ظہیر نے پہلی دفعہ دل کے امیر لوگ دیکھے تھے۔ ظہیر اور اس کی بیوی اللہ کا شکر ادا کررہے تھے کہ سر چھپانے کی جگہ مل گئی۔ ظہیر بزرگ کے کہنے پر اُن کے ساتھ ہی سبزی منڈی میں کام کرنے لگا۔ اس سے تھوڑی بہت گزربسر ہونے لگی۔ اسے امید تھی کبھی تو حالات بدلیں گے۔
واقعی محنت، ایمان داری اور مستقل مزاجی سے حالات بدل گئے۔ سبزی منڈی سے سبزی لاکرفروخت کرنے کا کام اتنا برکت والا ثابت ہوا کہ اچھے دن آگئے۔ اس نے ایک کمرے کا گھر لے کر وہیں اپنی دکان کھول لی اور زندگی ایک ڈگر پر چل نکلی۔