جب سے جمال اور کمال یہاں آئے تھے فضا میں ایک عجیب سی مہک محسوس کر رہے تھے۔ جو نہ تو خوشبو کی طرح تھی اور نہ ہی مزاج پر گراں گزر رہی تھی۔ اسی احساس کے تحت انھوں نے اس بات کی تصدیق اپنے والدین سے چاہی۔ درمیان میں موقع ملا تو انسپکٹر حیدر علی نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ اس مہک کی وجہ سے جو تبدیلی جمال اور کمال نے اپنے اندر محسوس کی وہ یہ تھی کہ سفر کی ساری کی ساری تھکن یوں اتر گئی ہو جیسے انھوں نے سرے سے کوئی سفر کیا ہی نہ ہو۔ نہ جانے کیوں یہ بات جمال اور کمال کو کچھ غیر فطری سی محسوس ہوئی۔ اچانک ان کو کیا سوجھا کہ اپنی والدہ سے پان میں ڈالنے والے سوکھے چونے کے متعلق دریافت کیا جو وہ سفر کے دوران اپنے ہمراہ لے کر چلیں تھیں۔ تھوڑی تھوڑی مقدار کو ٹشو میں لپیٹ کر جب اسے اپنی ناک کے قریب کیا تو فضا میں عجیب سی مہک میں جیسے کافی کمی سی محسوس ہوئی۔ یہی کام انھوں نے اپنی والدہ اور والد سے کرنے کو کہا اور ان سے اشاروں اشاروں میں رائے چاہی تو انھوں نے بھی اقرار میں سر ہلا کر اس بات کی تصدیق کی کہ فضا میں جو مہکار ہے اس میں کافی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اس تجربے پر جمال اور کمال بہت شاداں ہوئے اور خاموشی کے ساتھ یہ سب صورتِ حال انسپکٹر حیدر علی تک بھی پہنچائی اور مشورہ دیا کہ کہ وہ بھی ایسا ہی کریں کیونکہ لگتا ہے کہ فضا میں یہ مہک بھی کوئی راز رکھتی ہو۔ ایک کام جمال اور کمال نے اور کیا اور وہ یہ تھا کہ ان کی والدہ انسولین انجکٹ کیا کرتی تھیں۔ نہ جانے کیوں انھیں خالی شیشیاں جمع کرنے کا خبط تھا۔ انھوں نے اپنے سفر کے سامان کو ٹٹولا تو تین چار خالی شیشیاں نکل ہی آئیں۔ والدہ کیونکہ اپنے ساتھ سرنج بھی لازماً رکھتی تھیں اس لیے ایک سرنج کی مدد سے انھوں نے باہر کی فضا کے دو نمونے اپنی اپنی شیشیوں میں خوب دباؤ کے ساتھ بھر لیے تھے۔ یہی نہیں بلکہ جو اشیا اب تک ان کو کھانے میں دی گئیں تھیں ان کے بھی چھوٹے چھوٹے نمونے ان ہی خالی شیشیوں میں محفوظ کر لیے تھے کیونکہ انھوں اس بات کا شک تھا کہ ان کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ ضرور کیا جاتا ہوگا۔ یہ خیال انھیں محض اس لیے آیا کہ جو لوگ بھی یہاں آتے ہیں وہ یہاں سے واپس جانے کا کیوں نام نہیں لیتے۔ یہاں انھوں نے کوئی عالی شان و بلند بالا عمارتیں بھی نہیں دیکھیں تھیں اور نہ ہی پختہ راستے۔ ہر جگہ رہائشی خیمے تھے جن میں لوگ بظاہر فرہاں و شاداں قیام پذیر تھے البتہ یہ ضرور ہے کہ دور دور تک کا علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال تھا لیکن کیا یہی سب کچھ کسی انسان کو اس حد تک مجبور کر سکتا ہے کہ وہ سب عزیز و اقارب اور دوست احباب چھوڑ کر اپنی باقی زندگی یہیں گزارنے کا مصمم ارادہ کر بیٹھے۔ یہ بات بھی بڑی غیر فطری سی لگ رہی تھی کہ یہاں جتنے بھی افراد اب لوٹ کر نہ جانے کا ارادہ کر چکے تھے ان کو خود سے کسی بھی قسم کا کام نہیں کرنا پرتا تھا۔ ہر دروازے پر کھانے پینے کا سامان ان کی ضرورت کے مطابق پہنچ جاتا تھا۔ کپڑے دھلے دھلائے مل جاتے تھے۔ کیا پربت کی رانی اس علاقے کو جنت کی مثال بنا کر لوگوں کے ساتھ کوئی بہت بڑا کھیل کھیلنے والی تھی۔ ان ہی سب باتوں کے پیشِ نظر جو جو اقدامات بھی جمال اور کمال اپنی جانب سے اٹھا رہے تھے اس میں اسی سوچ کو مدِ نظر رکھا گیا تھا۔
شام گہری ہو چکی تھی لیکن ماحول شام ہونے کے ساتھ ساتھ روشن سے روشن تر ہوتا جا رہا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ چاندنا کسی بھی مقام پر لگے بجلی کے قمقموں سے نہیں پھیل رہا تھا بلکہ وہ عجیب سی دھند یا بادل جو کچھ بلندی پر نظر آ رہے تھے اور جن کی وجہ سے فضا میں نہایت باریک باریک پانی کے قطرے تیر تیر کر فضا کو خنک رکھے ہوئے تھے، وہ روشن سے روشن ہوتے چلے جا رہے تھے جس کی وجہ سے زمین کی فضا روشنی سے جگمگا رہی تھی۔ جمال اور کمال کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ انھوں نے دیکھا کہ عبادت گاہ کی جانب لوگ بڑھتے چلے آ رہے ہیں تو وہ سب بھی دھیرے دھیرے اسی کی جانب اپنے قدم بڑھانے لگے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کے انسپکٹر حیدر علی اور ان کے ساتھ آئے دیگر لوگ ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ جوں جوں وہ سب عبادت گاہ کے قریب ہوتے گئے توں توں فضا میں وہ عجیب سی مہک جو جمال اور کمال کو یہاں داخل ہوتے ہی محسوس ہوئی تھی، تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔ اسی کے ساتھ جمال اور کمال نے نوٹ کیا کہ انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ آئے سب لوگ اپنے اپنے ہاتھ ناک کے قریب کرتے چلے گئے گویا ان سب نے ایسے ٹشو پیپرز جن میں چونا لگا ہوا تھا، سونگھنا شروع کر دیئے تھے۔ جمال اور کمال نے بھی محسوس کیا کہ چونا لگے ٹشو پیپرز کو سونگھنے سے مہک کا احساس واقعی کافی کم ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے)