کدو:حضور ﷺ گوشت کے ساتھ پکے ہوئے کدو بڑی رغبت سے کھاتے تھے

کدو کی متعدد اقسام ہیں جن میںگول کدو، لمبا کدو،گھیاکدو، حلوہ کدو، سرخ کدو، پیلا یاسفید کڑواکدو عام ہیں۔کدو کو عربی زبان میں’’ قرح‘‘ فارسی میں’’ کدوئے دراز’’ بنگالی میں‘‘ ’’ کمرا‘‘ انگریزی میں’’White Gourd‘‘ یا’’Pumpkin‘‘ اوراردو زبان میں لمبا کدو اور لوکی کے نام سے پکاراجاتا ہے۔قرآن مجید میں اسے یقطین کے نام سے پکارا گیا ہے۔عام عرب سے’’دبار‘‘ یا ’’قرع‘‘کہتے ہیں۔کدودرخت پرنہیں بلکہ بیل پر اُگتا ہے۔ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے گرم علاقے اس کا آبائی وطن ہیں۔ ویسے یہ ساری دنیا میں کاشت کیا جا تاہے۔کدوگیلی مٹی میں ہو تا ہے اور اس کی بیل سے پانی بہتا رہتا ہے۔ افزایش کے لیے اسے خوب تیز دھو پ چاہیے۔ ویسے پودے کی بڑھوتری کی آدھی دھوپ اور آدھے سائے میں بھی ہو جا تی ہے ۔ کدوگول بھی ہو تا ہے اور سائزمیں تربوز کے برابر بھی ہوتاہے۔ جس کا چھلکا قدرے سخت ہو تا اور رنگت میں پیلہ ہوتا ہے ۔ اس کے بیج گودے سے چپکے ہوئے ہوتے ہیں۔

کد و ایک عام سبزی ہے جوکہ دنیا بھرمیںکاشت کی جا تی ہے،چونکہ اس کے پھل کا وزن زیادہ ہو تا ہے اس لیے یہ ایک بیل کے ساتھ لگتی ہے جو زمین پر رینگتی ہے۔زرعی قسم کے علاوہ جنگلوں میں اس کی ایک خودرو قسم بھی ملتی ہے۔ جسے جنگلی کدوکہتے ہیں، یہ ذائقے میں کڑوا اور حجم میں بڑا ہو تا ہے ۔

کدو کو سبزی کے طور پر پاکستان، ہندوستان اور دوسرے ملکو ں میں پسند کیا جاتا ہے۔اسے چھلکے سمیت بھی کھا یا جاتا ہے۔ کدو آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے ۔اگر کم نمک کے ساتھ پکایا جا ئے تو یہ قبض اور ہائی بلڈ پریشرکوگھٹا تا ہے ۔ حمل ضائع ہو نے سے بچا تا ہے۔ اس کے بیج کھا نے سے پیشاب کھل کر آتا ہے ۔کدو ان سبزیوں میں ایک ہے جسے حضور ﷺ نے پسند فرمایا ۔ اس کے اجزاء میں وٹامن اے، بی اور سی ہو تے ہیں ۔ اس کا مزاج سرد تر ہے ۔ بعض لوگ کدو میں دال ملا کر پکا تے ہیں ۔جس سبزی کو حضور ﷺنے پسند فرمایا ہو تو ایسی سبزی کا کھا نا سنت ہے اور یقینا اس میں شفا ہے ۔ آپﷺ نے فر ما یا کہ السر کی بیماری میں کدو کھا نامفید ہے۔ لیکن مصالحے زیادہ نہ ہو ں ۔ہائی بلڈ پریشر اور خون کی گرمی کو دور کر تا ہے، جل کے پیشاب آنے کی مرض میں انتہائی مفید ہے ، دل و دماغ کو قوت و فرحت دیتا ہے ، قبض کُشا ہے، ملین طبع اور مدر بول ہے،تپ دق میں یہ بہترین غذا ہے ،حاملہ عورت کو کدو کا گودا پکا کر مصر ی میں ملا کر کھلا نے سے اولاد خوبصورت پیدا ہو تی ہے اور متواتر استعمال سے حمل گرنے کا احتمال نہیںہوتا،اطبا نے لکھا ہے کہ حاملہ عورت اگر تیسرے ماہ سے متواتر تین ماہ تک کدو کا گودا اور مصری استعمال کر ے تو اس کے ہاں اولاد نرینہ پیدا ہو تی ہے،کدو کا گودا گرم کر کے گردہ کی درد والی جگہ رکھنے سے درد بند ہو جاتا ہے،در د سر کی وجہ سے اگر آنکھوں تلے اندھیرآتا ہو تو کدو کاٹ کر اس کاٹکڑا پیشانی پر رکھنے سے یہ مرض دو رہو جاتا ہے اور سر درد کو آرام ملتا ہے، کدو کے چھلکے پائوں پر ملنے سے گرمی کا بخار دور ہو تا ہے اور پائوںکی جلن کو آرام ملتا ہے،کدو کا رس کپڑے کی تہہ پر لگا کر ماتھے پر رکھنے سے نکسیر فوراً بند ہو جاتی ہے،اس کارائتہ نمک ملاکر کھا نے سے اسہال بند ہو جا تے ہیں اور درد جگر کو فائدہ ہو تا ہے،کدو بھوک بڑھاتا ہے،یہ قوت با ہ بڑھاتا ہے مگر زیادہ کھا نے سے وزن بڑھتا ہے ، کدو کے بیج(مغز) کا تیل نکا لا جاتا ہے جو سر کے بالوں کو بڑھاتا اور بالوں کو طاقت بھی دیتا ہے اور ساتھ ہی کدو کا تیل سر کو ٹھنڈ ک پہنچاتااور نیند لاتا ہے ،سکری اور خشکی کو دور کر تا ہے ۔

کدو کے ایک سو گرام میں96.1فیصد رطوبت، 0.2فیصد پروٹین،5.1فیصد چکنائی، 0.5فیصد معدنی اجزاء، 0.6فیصد ریشہ اور 2.5فیصد کاربو ہائیڈ ریٹس ہو تے ہیں ۔ اس کے معدنی اور حیا تینی اجزاء میں 20ملی گرام کیلشیم، 10ملی گرام فاسفورس، 0.7ملی گرام آئرن اور کچھ مقدار میں وٹامن بی کمپلیکس شامل ہیں ۔ایک سوگرام کدو کی غذائی صلاحیت 12کیلوریز ہے۔اس کے استعمال سے صفرا کا زورٹوٹتا ہے،پیاس کو تسکین دیتا ہے، بے چینی کو دور کر تا ہے ، پیشاب لا تا ہے ، جلد ہضم ہو جاتا ہے اور قبض کو دور کر تا ہے ۔ یر قان کے مریض کے لیے اچھی غذا سمجھی گئی ہے ۔ جس طرح دالوں میں مونگ کی دال بے ضرر غذا ہے اسی طرح سبزیوں میںکدو ہے ۔جگر کا فعل درست کر نے کے لیے اسے گلا کرکے اس کے ٹکڑے ہفتے عشرے تک پابندی سے کھا نے چاہیں۔کدو کے استعمال کا ایک اور خوش ذائقہ طریقہ اس کا رائتہ ہے ۔تعلیم یافتہ لوگوں نے بہتر صحت کے لیے دسترخوان میںکئی اچھی تبدیلیاں کی ہیں ۔کدو اب چنے کی دال،مونگ کی دال اور قیمے میںملا یا جاتا ہے۔اس طرح کھانے سے ہاتھ پیروں کی جلن دو ر ہو تی ہے۔اطبا کدو کے استعمال کوسل و دق کے مریضو ں کے لیے مفید قرار دیتے ہیں ۔اس مقصد کے لیے اسے بطور سالن استعمال کیا جاتا ہے ۔ کدو کے ساتھ مغز باد ام کا استعمال طاقت بخشتا ہے ۔اگر پیشاب کم آتا ہو تو اسے بھلبھلا کر اس کا پانی نچوڑ کر پینے سے یا اس کا شوربا پینے سے پیشاب کی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔

پکا یا ہوا کدو مسکن، پیشاب آور، سر مزاج اور دافع صفرا ہے ۔ اس کو کھا نے کے بعد آسودگی کا احساس ملتا ہے لیکن کچا کدو کبھی نہیں کھانا چاہیے کیونکہ یہ معدے اور آنتوںکو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔بول براز کی شکایات میں کدو نہایت موثر غذاہے ۔ پورے کدو کو ’’کدو کش‘‘کر کے اور نچوڑ کے حاصل کیا جا نے والا جوس ایک گلاس اور لیموں کا رس چائے کا ایک چمچہ ملا کر روزانہ پینے سے پیشاب کی جلن ختم ہو جاتی ہے۔پیشاب میںتیزابت بڑھ جا ئے تو جلن کا احساس پیدا ہوتا ہے۔کدواورلیموں کے کھاری اثرات تیزابیت ختم کرتے ہیں ۔ ایسی کیفیت میں یہ پیشاب آور الکائن کا عمل سر انجام دیتا ہے ۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضورﷺ گوشت کے ساتھ پکے ہوئے کدو بڑی رغبت سے کھاتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گوشت کے ساتھ اس کو پکا کر کھا نا زیادہ مفیدہے ۔

کدو کے بیجوںکو بطوردوا استعمال کر نے کی تاریخ پرانی ہے ۔انہیں چھیل کر کھا یا جاتا ہے اور عرق نکال کر چائے بھی بنا ئی جا تی ہے۔پچھلے چند برسوں میں اس کے بیجوں پر کافی تحقیق ہوئی ہے۔کدو کا بیج چپٹا،لیکن بیضوی شکل کا ہو تاہے۔اس کی رنگت سفید ی مائل ہو تی ہے۔ بیج کا چھلکا سخت ہوتا ہے،مگرچھیلنے پر نرم گودا نکلتا ہے۔چھلکادانتوںسے توڑا جا سکتا ہے ۔کدو کے بیجوں کوخشک میوے کی طرح کھا یا جاتا ہے۔اس کے بیج بازارمیںچھلے اور بغیر چھلے ہو ئے بھی مل جا تے ہیں۔بیجوںکو نمکین بھی بنا یاجاتا ہے،جس سے ان کے مزے میںاضا فہ ہو جاتا ہے۔

بیجوں میں شحمی تیزاب(فیٹی ایسڈز) بھی ہو تے ہیں، جن سے غدئہ قدامیہ (پروسٹیٹ گلینڈ) کی سوجن دور ہو جاتی ہے ۔ایک پیالی بیجوں کو کھا نے سے 8-7ملی گرام بیٹا کیروٹین(BETACAROTENE)حاصل ہو تی ہے،جس سے دل کی بیماریاں اور سرطان قریب نہیں آتا ۔کدو کے بیجوں میں شامل لینولیئک ایسڈ(LINOLEIC ACID)سے شریانوں کی سختی ختم ہو جاتی ہے۔دن میںایک دو بار مٹھی بھر کدو کے بیج کھا نے سے مثا نے کی سوزش اور پیشاب کی زیادتی بھی ختم ہو جا تی ہے۔ بخار بہت تیز ہوتو نرم گھئے کے چار ٹکڑے کرکے دہی کی لسی میں بھگو کرہاتھ اور پائوں پرملیے،پانچ سات منٹ ملنے سے گھئے کے ٹکڑے بخار کی حدت سے گرم اور سیاہ ہوجائیں گے۔اس کی وجہ سے درجہ حرارت کم ہوجائے۔