بزم یاران سخن کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی اور مشاعرہ

221

بزم یارانِ سخن کراچی کے تحت ایم پی اے ہائوس کراچی میں فیروز ناطق خسرو کی 2023ء میں شائع شدہ کتب کی تعارفی تقریب اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں سعیدالظفر صدیقی صدر‘ فیروز ناطق خسرو‘ ڈاکٹر ارشد رضوی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ عابد شیروانی مہمانان خصوصی تھے۔ اختر سعیدی‘ حجاب عباسی اور ڈاکٹر سلمان ثروت مہمانانِ اعزازی تھے۔ آئرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے‘ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کا شرف حاصل کیا۔ ذفرین صابر نے حمدیہ کلام اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نعت رسولؐ پیش کی۔

راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ وہ تمام خواتین و حضرات کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اپنی مصروفیت میں سے وقت نکالا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیروز ناطق خسرو کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے‘ ان کے والد کے گھر مشاعرے ہوتے تھے جس میں اہم ترین شعرا شریک ہوتے تھے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اب فیروز ناطق خسرو کی قیام گاہ پر ہر مہینے بزمِ ناطق بدایونی کے تحت ادبی پروگرام ہو رہے ہیں۔ فیروز ناطق خسرو ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ شاعر‘ ادیب‘ نقاد اور ماہر تعلیم ہیں۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور کامیابی رہے ہیں ان کے افسانے بھی قابل ستائش ہیں کہ جن میں زندگی کے تمام رویے نمایاں ہیں۔

رانا خالد محمود نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کے کلام میں زندگی رواں دواں ہے انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں پر اشعار کہے ہیں ان کے تجربات و مشاہدات ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں یہ سچائیوں کے سفیر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حالاتِ زمانہ اور غمِ جاناں رقم کیا ہے۔ ناقدانِ علم و فن ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں‘ ان کے افسانے ہمارے ادب کا سرمایہ ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ارشد رضوی نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کو شاعری بھی ورثے میں ملی ہے۔ انہوںنے اپنے والد ناطق بدایونی کے شعری سلسلے کو بڑے انہماک سے آگے بڑھایا ہے‘ ان کے کلام میں خوشبو اور تازگی نظر آتی ہے‘ وہ نظم بھی کہتے ہیں اور غزل بھی۔ دونوں اصنافِ سخن میں ان کی عصری حیست مطالعے اورقوتِ مشاہدہ کی ترجمانی کرتی ہے ان کے اشعار میں غنائیت ہے جو ہمارے ذہن و دل پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ایک شریف النفس انسان بھی ہیں وہ نام ونمود‘ غرور و تکبر سے عاری ہیں۔ ان کے کلام میں پختگی اور شائستگی پائی جاتی ہے وہ سادگی اور سلاست پر مبنی اشعار کہتے ہیں اور کہیں کہیں استعاراتی لب و لہجہ اختیار کر لیتے ہیں ان کے اشعار میں تنوع پسندی اور انفرادیت ملتی ہے انہوں نے جدید لفظیات اورجدید استعاروں ے اپنی شاعری سجائی ہے مجھے یقین ہے کہ ان کی ہر کتاب قارئین ادب پسند کریں گے۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو قادرالکلام شاعر ہیں اور ادبی منظرنامے پر جگمگا رہے ہیں‘ ان کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے‘ ان کی تین کتابیں میری معصوم شہر بانو‘ غزل در غزل اور پور پور آئینہ 2023ء میں شائع ہوئی ہیں۔ فیروز ناطق خسرو تعلیم یافتہ اور تجربہ کار قلم کاروں کی صف میں بھی معتبر ہیں۔ انہوں نے کسی کا لب و لہجہ نہیں چرایا بلکہ اپنا اسلوب بیان بنایا ہے۔ ان کی شاعری میں انفرادیت اور نئی رمزیت نمایاں ہیں ان کے یہاں پائے جانے والے استعارے زندگی کی آواز ہیں ان کی غزلیں رومان پرور تو ہیں لیکن کہیں کہیں تصوف کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے اردگرد کے ماحول کا تجزیہ کیا اور شاعری کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کردیا‘ ان کا سارا کلام جدید خیالات کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے نئی نئی زمینیں نکال کر خوب اشعار کہے ہیں‘ ان کی شاعری میں تاثر‘ گداز‘ جوش اور دل سوزی پائی جاتی ہے۔ تشبیہات اور استعاروںکے بروقت استعمال نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ ان کی شاعری رنگا رنگی‘دل کشی‘ رعنائی‘ انسانی ہمدردی‘ اخلاقی موعظت اور فطرت کی مصوری کا محور ہے۔ انہوں نے تمام زندگی ادب کی خدمت کی‘ وہ جہاں جہاں بھی رہے انہوں نے علم فن کے چراغ روشن کیے۔ ان کی نظموں کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے‘ ان کے افسانوں کا کردار بولتے ہیں‘ ان کی تحریر میں زمینی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔

تقریب کے صاحبِ اعزاز فیروز ناطق خسرونے کہ کہ وہ بزمِ یارانِ سخن کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ آج کی محفل میںمیرے فن اور شخصیت پر سیر حاص بحث ہوئی۔ میں اردو ادب کا خدمت گزار ہوں‘ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنی تحریروں میں زندگی کے مسائل اجاگر کروںکیوں کہ شاعری اور زندگی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میری مشقِ سخن جاری ہے‘ کئی کتابوںٗکے مسودے تیار ہیںجو کہ عن قریب آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔

سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کی تین کتابوں کی تعارفی تقریب کامیاب ہے اس کے ساتھ ساتھ ہر شاعر نے بہت عمدہ کلام پیش کیا بزمِ یارانِ سخن کا شمار کراچی کی بہترین تنظیموں میں ہوتا ہے‘ ان کا ہر پروگرام شان دار ہوتا ہے اس پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں سعید الظفر صدیقی‘ فیروز ناطق خسرو‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ اخترسعیدی‘ حجاب عباسی‘ ڈاکٹر سلمان ثروت‘ محسن اسرار‘ سلمان صدیقی‘ سلیم فوز‘ زاہد حسین جوہری‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ اختر شاہ ہاشمی‘ سید طاہر‘ شیر افگن‘ مرزا عاصی اختر‘رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ جمیل ادیب سید‘ رانا خالد محمود‘ نظر فاطمی‘ تنویر سخن شاہدہ عروج‘ یاسر سعید صدیقی‘ اخر اللہ شاد‘ کامران صدیقی‘ سلمیٰ رضا سلمی‘سرور چوہان‘ عینہ میر عینی‘ فرحانہ اشرف اور آئرین پروین نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ سرور چوہان نے کلمات تشکر ادا کیے۔

nn

حصہ