ماہ ربیع الثانی کے اہم واقعات

998

ربیع الثانی کی وجہ تسمیہ ’’ارتباع‘‘ سے ہے اور ارتباع ’’گھر میں ٹکے رہنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ چوں کہ اس ماہ میں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے، اس لیے اسے ’’ربیع‘‘ کا نام دیا گیا، اس کی عربی زبان میں جمع: ’’اربعاء‘‘ جیسے ’’نصیب‘‘ کی جمع ’’انصباء‘‘ آتی ہے، اسی طرح اس کی جمع ’’اربعۃ‘‘ بھی آتی ہے جیسے ’’رغیف‘‘ کی جمع ’’ارغفۃ‘‘ آتی ہے۔

٭سریہ حضرت حمزہ ؓبن عبد المطلب تھا ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد‘ جب جہاد کی آیت نازل ہوگئی‘ تو سب سے پہلے جو ایک چھوٹا لشکر کفار سے مقابلے کے لیے روانہ فرمایا تھا اس کا نام سریہ حضرت حمزہ ؓبن عبدالمطلب تھا یہ 2ھ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حقیقی چچا حضرت حمزہ ؓ کو ابو جہل اور اس کے قریشی قافلے کی سرکوبی کے لیے‘ جو ملک شام جا رہا تھا‘ امیر لشکر بنا کرسفید جھنڈا عطا فرما کر عیص(حنینیہ) کے علاقے میں ساحل سمندرکی طرف روانہ فرمایا تھا۔ تین سو کفار سے مقابلے کے لیے مسلمان مہاجرین کی تعداد صرف 30 تھی۔ سیف البحر کے قریب دونوں نے جنگ کے لیے صف بندی کرلی لیکن مجدی بن عمروجہنی جو کہ دونوں گروپ کے حلیف تھے‘ دونوں سے بات چیت کرکے جنگ کو معطل کرادیا تھا۔

(بعض کا یہ بھی خیال ہی کہ یہ سریہ رمضان المبارک میں پیش آیا تھا) نوٹ: اسلامی تاریخ میں حضرت حمزہؓبن عبد المطلب وہ پہلے شخص ہیںجنہیں امیر لشکر بننے کا شرف حاصل ہوا اور آپ ہی نے سب سے پہلا اسلامی پرچم اٹھایا۔

٭سریہ حضرت ابو عبید ہ ؓبن جراح : 28 ربیع الآخر 06ھ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ ؓ کو چالیس سواروںکی معیت میںذی القصہ (عراقی حاجیوں کا راستہ) مدینٖ منورہ 36 میل دور اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی ثعلبہ و انمار کی بستیاں خشک ہوگیٔں کیوںکہ المراض سے تغلمین کے درمیان خشک سالی ہوگئی اور بنو ثعلبہ و انمار اس خشک سالی کی وجہ سے تیاری کررہے تھے کہ مدینہ کے وہ مویشی جو مقام حیفا پر چرتے ہیں لوٹ لیے جایٔیں۔ حضرت ابو عبیدہ ؓبن جراح اور ساتھیوں کو نماز مغرب کے بعد بھیجاگیا‘ یہ لوگ صبح کی تاریکی میں ذالقصہ پہنچے اور ان پر حملہ کردیا جس کے بعد وہ لوگ بھاگ کر پہاڑوں میں چھپ گئے۔

ایک شخص ملا جو مسلمان ہوگیا ۔

٭سریہ حضرت زیدؓ بن حارثہ (بنی سلیم) 06ھ بنی سلیم کی طرف موضع جموع میں بنی سلیم کی طرف بھیجا گیا‘ یہ علاقہ مدینہ منورہ سے 48 میل کے فاصلہ پر وادی ٔ نخل کا نواحی علاقہ ہے‘ وہاں پر مزینہ قبیلہ کی عورت ملی جس کا نام حلیمہ تھا۔ اس نے بنی سلیم کے اترنے کے جگہ کی نشاندہی کردی۔ بنی سلیم بھاگ گئے اور اونٹ و بکریاں نیز کچھ قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ان قیدیوں میں حلیمہ اور اس کا شوہر بھی تھا۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ اور اس کے خاوند کو آزاد کردیا۔

٭سریہ علقمہ بن مجزز المدلجی‘ ربیع الآخر9ھ: آپؐ نے سریہ علقمہ ؓ بھیجا گیا اطلاع ملی تھی کہ الحبشہ کے لو گ ہیں جنہیں اہل جدہ نے دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ بن مجزز المدلجی کو تین سو سواروں کے ہمراہ بھیجا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو سمندر چڑھ گیا تو یہ لوگ بھاگ کر ایک جزیرے پر پہنچ گئے۔ جب سمندر اترا تو کافی دن گزرنے سے کچھ لوگ اپنے اہل وعیال کی طرف جانے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ عبدا للہ بن حذافہ السہمی کو ان گھروں کو جانے والوں پر امیر بنا کر روانہ کردیا گیا۔ مختصر یہ کہ اس سریہ میں مقابلہ کی نوبت نہ آئی۔

٭کعب ؓبن زہیر بن ابی سلمہ: 08ھ یا 09ھ۔ کعب ؓبن زہیر بحالت کفر نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں ناشائستہ قصیدے کہاکرتے تھے۔ اللہ کے محبوب ؐ نے ان کو ’’مباح الرم‘‘ قرار دے دیا تھا۔ بعدازاں وہ تائب ہو کر اچانک مدینہ منورہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ بردہ شریف پڑھا۔ جب وہ قصیدہ کے اس آخری شعر پر پہنچے ترجمہ ’’رسول اللہ ؐ ایک نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور اللہ کی تلواروں میں سے ایک برہنہ شمشیر ہندی ہیں‘‘ توحبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ردائے مبارک عطا فرمائی جو ان کے لیے عظیم تبرک تھا۔ یہ چادر کافی عرصے تک محفوظ رہی پھر حضرت معاویہ ؓنے اپنے دورِ خلافت میں اس کو بیس درہم کے عوض حضرت کعب ؓ کے ورثا سے حاصل کرلی۔ چادر خلفا میں منتقل ہوتی رہی۔ شامی نے سیرت النبوی ؐ میں لکھا ہے کہ آج یہ چادر موجود نہیں۔ بظاہر تاتاری فتنوں میں گم ہو گئی۔

٭ہشام بن عبد المالک‘ ربیع الثانی 135ھ کو 55 برس کی عمر میں تقریباً 20 برس حکمرانی کرکے وفات پائی۔ یزید ثانی کی وفات پر تختِ ہشام تخت نشین ہوا۔ ہشام بیدار مغزی اور سیاست میں اموی حکمرانوں میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ مورخ مسعودی کے الفاظ میں وہ بڑا دقیق النظر‘ منتظم‘ کفایت شعار اور صاحب تدبر تھا۔ سلطنت کے تمام کام خود سرانجام دیتا تھا اور اس کی نگاہ سے کوئی چیز چھپی نہ رہتی تھی۔

ملاحظات: ’’ غزوات‘‘ یہ وہ معرکے ہیں جن میں خود نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہو ئے ان کی تعداد 28ہے۔

’’سرایا‘‘ سریہ کی جمع ہے ا س سے مراد وہ لشکر ہیں جن میں نبی اقدس ؐ خود تشریف نہیں لے گئے بلکہ کسی صحابیؓ کو امیر بنا کربھیجا۔ سریہ اس چھوٹے لشکر کو کہتے ہیں جس میں کم از کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو افراد ہو ں۔ ’’بعوث‘‘ بعثت کی جمع اور لشکرکا وہ حصہ کہلاتا ہے جو اپنے اصل لشکر سے کسی خاص مہم پر بھیجا جائے۔ سرایا اور بعوث کی مجموعی تعدادعلامہ محمد مخدوم ہاشم سندھی نے 77تک شمار کی ہیں۔

حصہ