نواز شریف کی واپسی اور گلی محلے کی باتیں

299

’’اب تو مان لو کہ میرا لیڈر ہی ترقی، خوشحالی اور پْر امن ملک کی ضمانت ہے۔ دیکھو میں ایک عرصے سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ یہ نواز شریف ہی ہے جس کی وجہ سے کراچی میں روشنیاں لوٹ آئیں، پاکستان کی ترقی کی شرح خطے میں قائم ممالک میں سب سے زیادہ تھی، بے روزگاروں کو باعزت روزگار فراہم کیا گیا، موٹر وے اور سی پیک جیسے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا۔ مگر تم کب مانو گے! تم حقائق ماننے کو تیار نہیں جبکہ آج میری ایک ایک بات سچ ثابت بات ہوئی۔‘‘

فرحت کی اپنے لیڈر کے بارے میں کی جانے والی لب کشائی پر خالد تلملا اٹھا اور انتہائی جذباتی انداز میں بولا :

’’اس میں بات ماننے یا نہ ماننے والی کیا بات ہے؟ ہر حکومت اپنے دورِ اقتدار میں مختلف ترقیاتی منصوبے بناتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ دورانِ مدت وہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے یا نہ پہنچ سکے۔ ساری سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کرنے اور ان کے بہتر مستقبل کا نعرہ لگا کر ہی حکومت میں آتی یا اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری بھی ہمیشہ سے ہی پولیس اور انتظامیہ کی ہوتی ہے، بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں امن وامان بحال کرنا سیکورٹی اداروں کا ہی کام ہوتا ہے، اس لیے اپنے لیڈر کو اس کا کریڈٹ دینے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ کراچی ہو یا ملک کا کوئی بھی شہر… حالات کی درستی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی کا ثبوت ہوتی ہے۔ یہ بات تم مانو یا نہ مانو! تمہارا کام تو بس اپنے لیڈر کی تعریف کرنا ہی رہ گیا ہے۔ تمہارے قائد میں اگر اتنی صلاحیت اور اگر ذرا سی بھی دلیری ہوتی تو یوں جیل سے بیماری کا بہانہ بناکر انگلستان کے محلوں میں گوشہ نشینی اختیار نہ کرتا بلکہ سلاخوں کے پیچھے رہ کر حالات کا مقابلہ کرتا۔ کل سیاسی حالات خلاف تھے تو ڈیل کر لی، آج حالات بہتر نظر آرہے ہیں تو عوام کے دکھ درد یاد آنے لگے۔ میرے نزدیک نگراں حکومت کے ہوتے ہوئے کرپشن میں ملوث شخص کا استقبال صاف بتا رہا ہے کہ یہ سہولت کاری ہے اور اپنے اپنے مفادات کی سودے بازی ہے۔‘‘

’’مجھے معلوم تھا کہ خالد کو ضرور آگ لگے گی، یہ ضرور زہر اگلے گا۔ اس کی پریشانی سے میں واقف ہوں۔ اس کا تو کام ہی نکتہ چینی کرنا ہے، جبکہ زمانہ جانتا ہے کہ اِس وقت انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے غیر متنازع منصف آج خود مانتے ہیں کہ میرے قائد پر کسی قسم کی بھی کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی تھی، یہ تو سیاست سے کنارہ کروانے یعنی مائنس نوازشریف ایجنڈے پر کام کیا گیا تھا، یا کچھ ایسے کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی جن کی راہ میں میرا لیڈر رکاوٹ تھا۔‘‘

’’رہنے دے، رہنے دے بھائی.. کرپشن کا معاملہ ہے، قومی خزانے سے اربوں روپے کی ڈکیتی کی گئی تھی، اس کا حساب دینا پڑے گا۔ اب کسی کو سیاسی شہید بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے گی۔ ماضی میں جب بھی احتساب کی بات کی جاتی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی تھی، اب قوم اس بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی۔ عوام سمجھ چکے ہیں، جتنی مرضی سہولتیں لے لو، جس وقت بھی صاف اور شفاف انتخابات ہوئے لوگ کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف ووٹ دیں گے۔ عوام کا شعور بیدار ہو چکا ہے ،تمہاری جماعت کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکا ہے۔ بہت ہو گیا اب مزید شعبدے بازی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ملکی خزانے سے لوٹا گیا پیسہ واپس کرنا ہی پڑے گا۔‘‘

خالد اور فرحت کے درمیان ہونے والی بحث کو سمیٹنے کے چکر میں شاکر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:

’’خالد سنو، یہ مسئلہ فقط تمہارا اور فرحت کا نہیں، ساری قوم کا یہی تو المیہ ہے کہ ہم میں سیاسی شعور نہیں۔ جس دن بھی عوام میں سیاسی شعور آگیا سمجھ لینا اْس دن سے ہی جمہوریت کی گاڑی منزل کی طرف گامزن ہوجائے گی۔ 75 سال سے یہی کچھ تو ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بھائی! جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ مالی بدعنوانیوں یا کرپشن کا نتیجہ ہے؟ بے شک ہمارے ملک میں کرپشن ہوئی، حکمرانوں نے قومی خزانے کو بڑی بے دردی سے لوٹا، رشوت عام ہوئی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا، لوگوں پر ظلم اور جمہوریت کے نام پر اقربا پروری کا نظام نافذ کیا گیا، جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر مزید امیر ہوتا چلا گیا، جاگیردارانہ نظام مضبوط ہوا، پیسے کے بل بوتے پر عوام کے ووٹ خریدے گئے، طبقاتی تفریق پیدا کی گئی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ… لیکن یہ بات بھی تو سچ ہے کہ ماضی میں اقتدار میں آنے والی ہر جماعت اقتدار میں آئی نہیں بلکہ کسی نہ کسی ایجنڈے کے تحت لائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام حکمرانوں کی عوام کو سہولیات دینے، اداروں میں بلا تفریق احتساب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، سب نے عوام کو سبز باغ ہی دکھائے۔‘‘

خالد نے شاکر کی باتیں بڑے تحمل سے سنیں، اس پہلے کہ فرحت کچھ کہتا ،خالد بولا:

’’شاکر بھائی! آپ کو نہیں معلوم یہ فرحت نئے سے نئے فلسفے پیش کرتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے، قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس کے لیڈر کے دور میں کرپشن ہوئی، بدعنوانی کی گئی، لیکن یہ نئی نئی منطقیں پیش کررہا ہے۔‘‘

خالد کی بات ابھی جاری تھی کہ فرحت انتہائی غصے سے بولا :

’’شاکر بھائی اس کی چھوڑو ،اس سے بحث کرنے کا فائدہ نہیں۔ تم ہی بتاؤ کہ کراچی میں کس نے امن کروایا؟چلو پہلے کراچی کے امن سے متعلق بات کرلیتے ہیں پھر ملکی سیاست پر بات کرلیں گے۔ تمہارا کہنا ہے کہ یہ امن و امان پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس سے میرے قائد کا کوئی تعلق نہیں۔ جب کہ شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ کراچی میں امن و امان نوازشریف کی وجہ سے بحال ہوا۔اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس کئی شواہد موجود ہیں، مثلا ًنوازشریف نے 1990ء کی دہائی میں بھی کراچی آپریشن کروایا، اسی طرح 2013ء میں اقتدار ملتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف اختیارات دیے بلکہ اس اہم مسئلے پر ذاتی طور پر توجہ دی جس کی وجہ سے یہاں امن قائم ہوا۔ اگر خالد کی بات مان بھی لی جائے کہ امن وامان بحال کرنا انتظامیہ کا کام ہے تو گزشتہ کئی ماہ سے ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں بتا رہی ہیں کہ میرا مؤقف حقیقت پر مبنی ہے، ملک خصوصاً کراچی میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی میری جانب سے کی جانے والی باتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میرا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ کام نہ تو حکومت کا، نہ ہی انتظامیہ کا ہوتا ہے.. بلکہ ہمت کا ہوتا ہے، مضبوط اعصاب کا ہوتا ہے اور نیت کا ہوتا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کا بحال ہونا میرے قائد کا ہی کارنامہ تھا، یہ وہ سچ ہے جس کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، اب خالد نہ مانے تو اس کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے!‘‘

خالد، فرحت اور شاکر کے درمیان سیاسی بحث جاری تھی کہ رات کا ایک بج گیا۔ گھڑی پر نظر پڑتے ہی میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔یہ تکرار کب تک چلتی رہی میں نہیں جانتا، ہاں ان کے درمیان ہونے والی لفظی گولہ باری پر اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘ کل تک جسے چور، ڈاکو، نااہل اور قومی مجرم جیسے القابات سے نوازا گیا آج وہ معزز، محترم، رونقِ محفل بنا دیا گیا۔ جو صادق و امین ٹھیرے تھے وہ پابندِ سلاسل ہوئے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا یہی کچھ دیکھا اور سنا۔ جو آج زندہ باد ہوئے وہ کل مْردہ باد ہوئے۔ اس کھیل کے دوران عوام کی حالت انتہائی پستی کی جانب جاتی رہی، کوئی بھی ان کا مسیحا ثابت نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک تاریخ کے بد ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ نہ پینے کا صاف پانی ہے، نہ بجلی و گیس ہے اور نہ ہی پیڑول اور ڈیزل۔ زراعت کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ریلوے، پی آئی اے اور اسٹیل مل سمیت متعدد قومی اداروں کی کارکردگی خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور سرمایہ کار نئی منزل کی تلاش میں ہیں۔ ڈالر بے قابو، زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر اور قوم کے بچہ بچہ عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے۔ کب تک، آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ کون ہوگا جو اس قوم کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دے گا؟ خوشحالی کا وہ سورج کب طلوع ہوگا جس کی کرنیں غریب کے آنگن کو بھی روشن کر دیں۔ ہماری زندگی تو گزر گئی، بس یہی دعا ہے کہ خدا ایسے حکمران عطا فرمائے جو آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے ایسے اقدامات کریں جن کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل کے ذہن سے ناامیدی اور مایوسی کے بادل چھٹ جائیں۔ ایسے اقدامات کے ذریعے ہی ہم نوجوانوں میں وہ حوصلہ پیدا کر سکتے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے:

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

حصہ