راقم پیشے کے اعتبار سے مدرس ہے اور گزشتہ پانچ دہائیوں سے نسلِ نو کے علمی‘ دینی اور اخلاقی تربیت کارِ نبوت کا فریضہ سمجھ کر ادا کر رہا ہے۔ ایک استاد کی خصوصیات میں سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ۔
A teacher always speaks the wonder of nature and reveals the sacred writings. The man is the wonderful creature of Allah.
استاد ہمیشہ اپنے شاگردوں کو قدرت کی حیرت انگیز تخلیقات کے بارے میں بتاتا ہے جو مقدس کتابوں اور اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید میں تحریر ہے۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے دوران تدریس اپنے شاگردوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپ لوگ انگریزی سے بڑی محبت کرتے ہیں تو انگریزی کے’’W‘‘ سے ہونے والے سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے خود سے پوچھیں Who am I? (میں کون ہوں؟) آپ خود کہیں گے کہ ’’میں ایک انسان ہوں اور میرا جدِ امجد آدم علیہ السلام ہیں۔‘‘ لیکن آپ کے سامنے اپنی ذات سے نا آشنا کوئی شخص ڈارون کا نظریہ ارتقا لے آئے اور آپ کو کہے گا کہ آپ کا جدِ امجد ایک لاروا ہے جو کروڑوں سال کے ارتقائی سفر کے بعد پہلے بندر بنا اور اب خلاؤں کا سفر کرنے والا انسان پھر How آپ کے ذہن سے یہ سوال کرے گا کہ موجودہ انسان جو نہ جانے کتنے برسوں سے دنیا میں موجود ہے‘ اُس میں کیوں ارتقائی عمل رک گیا؟ یہیں پر ڈارون کا نظریہ آپ کی نظر میں خود بہ خود فرسودہ ہو جائے گا۔ یہاں تک میرے مضمون کا آغاز ہوا تھا کہ میں نے عامر اشرف‘ جو کہ معروف صحافی ہیں‘ کے پروگرام ’’دھنک‘‘ میں میرے عنوان سے مماثل پروگرام سننے کا اتفاق ہوا جس میں معروف دانش ور پروفیسر طاہر مسعود صاحب اپنی عالمانہ رائے کے ذریعہ تخلیقِ انسانی، مقاصد انسانی اور مسولانہ جبلت کے بارے میں اظہار خیال کر رہے تھے۔ ان کی رائے سے استفادہ کرتے ہوئے اور اپنی مطالعاتی دانش کی روشنی میں‘ میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنے اس اہم موضوع کو قرطاس کی زینت بنا دوں۔
اب اس سوال ’’کون اور کیسے ؟‘‘کا جواب قرآن مقدس اور آسمانی کتب کے ذریعہ تلاش کرتے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں انسان کی تخلیق کے حوالے سے اللہ اور فرشتوں کے درمیان کا مکالمہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر آدم ؑ کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں تو ملائکہ نے کہا باری تعالیٰ تو ایک ایسی مخلوق بنانے جا رہا ہے جو زمین پر فساد برپا کرے گی اور ایک دوسرے کو قتل کرے گی۔
اللہ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر اللہ نے فرشتوں سے اشیا کے نام پوچھے تو فرشتوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ آپ ہمیں بتاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آدم کو اشیا کی علوم عطا کی اور آدم کو نہ صرف ملائکہ بلکہ تمام مخلوقات پر برتری حاصل ہوئی اور زمین پر انسان اللہ کا خلیفہ اور تمام مخلوقات سے اشرف قرار پایا۔
’’لقد خلق الانسان فی احسن تقویم۔‘‘
’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۔‘‘
’’ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ۔ ‘‘
’’یہ اپنی حرکتوں سے نیچو میں نیچ ہو جاتا ہے۔ ‘‘
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبرائیل و سرافیل کا صیاد ہے مومن
٭
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
’’ ہم نے انسان کو ٹھیکری جیسی مٹی سے پیدا کیا اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے۔‘‘(سورۃ الرحمن)
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘
امام غزالی ؒ نے اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں انسان کی تخلیق کے حوالے سے لکھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو چار مخلوق ملائکہ، شیطان، حیوان اور درندوں کے خمیر سے پیدا کیا ہے۔ لیکن انسان کو صفاتِ ملکوتی کے حصول کے لیے بنایا ہے اور اس صفات کے حصول کی راہنمائی کے لیے آدم تا محمدؐ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ہم نے انسان پر نیکی اور بدی واضح کردی۔‘‘ (سورہ البقرہ۔)
’’مجھے اس نفس کی قسم جس کو پیدا کیا اور اسے ہموار کیا اور اس پر نیکی اور بدی واضح کردی۔‘‘ (سورۃ الشمس)
ان آیات اور علم الوحی کے بعد ہمیں دو سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں کہ انسان کیا ہے اور کیسے پیدا کیا؟ اور اس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے؟
اِنَّ اﷲَ عَلیٰ کُلِّ شیْئٍ قَدِیر۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان چاہتا کیا ہے؟ لیکن یہ سوال اور مخمصہ انسان کے ذہنوں میں کون ڈالتا ہے؟ آسمانی کتابوں اور جدید دور کے مرتدین اور خدا بے زار انسان جو اتفاق سے دنیا بھر میں غالب قوت کی حیثیت سے موجود ہیں‘ اُن کا استادِ اعظم وہی ابلیس ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور انسان کا اذلی دشمن قرار پایا‘ اسی میں اللہ کی مرضی تھی تاکہ وہ اپنے فرماں بردار بندوں کو آزمائے جن کے لیے جنت بنائی ہے۔ مسلمانوں کے لیے جنت اور جہنم، عیسائیوں کے عقیدے میں paradise and hell ہندوؤں کے لیے بیکنٹھ اور نرکھ۔ گویا دنیا کا ہر مذہب اور انسان کے ذہنوں میں دنیاوی اعمال کی بنیاد پر جنت اور جہنم کا تصور موجود ہے۔
اب اس سوال کی جانب آتے ہیں کہ انسان چاہتا کیا ہے؟ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ’’اشرف المخلوقات‘‘ بنایا ہے اور اسے تمام چیزوں کو مسخر کرنے کے صلاحیت بخشی ہے۔ یہ ایجادات اور دریافت کی بے پناہ قوت رکھتا ہے‘ یہ درندوں اور قوی ا لجثہ جانوروں کو قابو کر کے ان سے خدمات لیتا ہے‘ اس نے پرندوں کو ہوا میں اڑتے دیکھ کر ہوائی جہاز‘ مچھلیوں کو تیرتے دیکھ سمندری جہاز بنا ڈالا۔ یہ انسان ہی ہے جو خدا کی ادنیٰ مخلوق ہونے کے باوجود خود کو خدا بنا لیتا ہے۔
کبھی شداد بنتا ہے کبھی نمرود بنتا ہے
کبھی فرعون کی صورت میں یہ جبروت بنتا ہے
کبھی چنگیز بن کر درندوں کا روپ اختیار کرتا ہے
مگر جو کچھ بھی بنتا ہے شیطان کی پیروی کرتا ہے اور خداکے قہر کا شکار ہوکر نابود ہو جاتا ہے۔ہامان اور قارون جتنے بھی آئے چاہت کی مٹی ان کو کھا گئی۔
زمین اوڑھ کر سو گئے ساری دنیا میں
نہ جانے کتنے سکندر سجے سجائے ہوئے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انسان کو اگر سونے کا ایک پہاڑ بھی مل جائے تو یہ دوسرے پہاڑ کی خواہش کرتا ہے۔ اس کا پیٹ قبر کی مٹی سے ہی بھرتا ہے۔‘‘
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
ہر انسان یہ جانتا ہے کہ وہ محدود مدت کے لیے دنیا میں آیا ہے مگر آخرت کی زندگی لا محدود ہے ‘ناستک اور دہریت کے علم بردار اس بات سے انکاری ہونے کے باوجود یہ جانتے ہیں کہ ان کو بھی مرنا ہے۔ اس لیے انسان زمانۂ قدیم سے آبِ حیات کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ مگر آبِ حیات تو اللہ کے راستے میں شہادت کے بعد ملتی ہے۔
’’ جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو یہ تمہاری طرح زندہ ہیں ان کی زندگی کا تمہیں شعور نہیں۔‘‘( البقرہ۔)
اسی ابدی زندگی کی چاہت میں آج فدایان اسلام میدان ِجہاد میں دنیا کی تمام سفاک اور درندہ صفت طاغوتی قوتوں سے بر سرِ پیکار ہیں۔ اس تازہ مثال حماس کے ابابیل اور غزہ کے محصور و مظلوم مسلمان مرد ‘ خواتین اور بچے ہیں۔
اک سمندر سی ہوگی تیری ذات بھی
اور گہرائی جیسے خیالات بھی
بس ایک کام کر مشعلیں تھام کر
پانیوں میں اترنے کا فن سیکھ لو
آدمی نام ہے شوق تعمیر کا
ایک ہی رُخ نہ ہو تیری تصویر کا
چاند کی دھول بن‘ دھول کا پھول بن
سنگ میں رنگ بھرنے کا فن سیکھ لو
گونج اٹھے فضاؤں میں تیرا لہو
قطرے قطرے سے ہوگا نمودار تو
محفلوں میں رہا اب مظفر ذرا
مقتلوں سے گزرنے کا فن سیکھ لو
(مظفروارثی)