میکڈونلڈکیس:
کیا بات برگر کی ہے؟ اسرائیلی حکام کے مطابق، 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل میں قائم امریکی برگر کمپنی ’میکڈونلڈ ‘کی ایک مقامی شاخ نے مقامی فوجیوں، سیکورٹی فورسز اور دیگر افراد کو برگر دینے کی پیشکش کی تھی۔ سوشل میڈیا پر پوسٹس کے مطابق میکڈونلڈز اسرائیل اب تک یہودی فوجیوں کو ایک لاکھ برگر مفت بانٹ چکا ہے۔اس کے بعد سوشل میڈیا پر مستقل رد عمل چلتا رہا۔پاکستان میں مک ڈونلڈ کی کئی برانچز کو بند کرانے ، احتجاج کرنے ، نقصان پہنچانے کی پوسٹیں چلیں، اسلامی جمعیت طلبہ نے مظاہرہ بھی کیا ، کئی لوگوں نے گزرتے ہوئے لعنت کی وڈیو بھی بنائی۔ مگر یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوا۔
میکڈونلڈز کے مسلم ممالک میں بہت سی برانچز نے اسرائیلی آپریٹر کے اقدامات سے خود کو فوری طور پر دور کر لیا۔میکڈونلڈز پاکستان نے تو فلسطین کے لیے ایک کروڑ روپے عطیہ دینے کا اعلان کر کے ایدھی کو دینے کا اشتہار بھی لگوا دیا۔جبکہ کویت نے ریڈ کریسنٹ سے ڈھائی لاکھ ڈالر عطیہ کر دیے۔ اِس کے باوجود سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے لیے کالیں جاری رہیں۔ عرب دنیا میں میکڈونلڈ کے مقامات کی توڑ پھوڑ کی بھی اطلاعات ملتی رہیں۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا پہلا عمومی نعرہ اس بار بھی لگا مگر اب کی بار امریکی برگر تک بات چلی گئی۔ لوگ اس کو معمولی سمجھتے ہیں مگرچندہ دیکھ کر نظر تو یہی آرہا ہے کہ بہرحال اَثرات تو پڑتے ہیں۔
کچھ سنجیدہ تجزیے:
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 22 دن سے جاری حماس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ مشرق وسطیٰ میں وسیع ہو سکتی ہے۔امریکی افواج پر ایرانی پراکسیز کے مزید حملوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں،روس کا بھی فائدہ سب کو نظرآرہا ہے، چین بھی دل چسپی لے رہا ہے کیوں کہ اس میں اسرائیل کا حامی امریکا بری طرح پھنسنے جا رہا ہے۔ لبنان کی سرحد پر حزب اللہ کی کارروائیاں سوشل میڈیا پر وڈیوز کی اطلاعات کی صورت ظاہر ہو چکی ہیں۔ اسرائیل نے لبنان کی سرحد کے قریب اپنے قصبوں کو خالی کر ادیا ہے۔ جیو نیوز کے دو رپورٹر بھی وہاں پہنچے ہیں جو یہی اطلاعات بغیر نام لیے دے رہے ہیں۔ ایران کے بارے میں مغرب کے بھی یہی تجزیے سوشل میڈیا پر اس قسم کے آرہے ہیں کہ ایران کانیٹ ورک عراق، لبنان، شام اور یمن میں بھی مضبوط ہو چکا ہے، وہ روس کو خوش کرنے کے لیے خطے میں بے یقینی اور عدم استحکام کا بیج بونا چاہتا ہے۔
(دی اکانومسٹ) امریکا اس کو مستقل دھمکی لگا رہا ہے مگر مجھے صرف حیرت اس بات پر ہے کہ اگر امریکا اپنے حلیف اسرائیل کے لیے دھمکی، اسلحہ، فوج سب بھیج سکتا ہے تو ایران اپنے اعلان کردہ حلیف کے لیے کیوں آگے نہیں بڑھ رہا خصوصاً جب کہ 22 دن میں یہ بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ ایمان و استقامت نے ٹیکنالوجی کو شکست دے دی ہے۔ اسرائیل بدترین، خطرناک، کیمیکل بم باری کے باوجود حماس کو ایک انچ تکلیف نہیں دے سکا۔ حال یہ ہے کہ تادمِ تحریر اسرائیل کوئی تین بار زمینی حملوں کی مختلف کوششوں میں پسپا ہو چکا ہے اور آخری بیان کے مطابق اُس نے کہا ہے کہ اب جب امریکی فوجی آئیںگے تو ہی وہ زمینی کارروائی کی طرف جائے گا۔ صحیح بات ہے‘ سب جانتے ہیں کہ یہودی تو اب کوئی مذہب نہیں ایک نسل ہے، اس نسل کا ایک ایک سپاہی کتنا قیمتی ہوگا، ذرا تصور کرلیں۔
غزہ وائرل کانٹینٹ:
سوشل میڈیا پر فلسطین، غزہ بدستور اپنی جگہ پر قائم رہا۔ اسرائیلی جارحیت رکنے کو نہیں تھی۔ 50 اسلامی ممالک نہ جانے کون سی عالمی برادری سے جنگ بندی کی اپیلیں کر رہے تھے۔ صاف لگ رہا ہے کہ بیانات کا مقابلہ چل رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ معاملہ سوشل میڈیا پر گرم رہا۔
#CeaseFireInGaza، #Gazabombing،#Gaza_Genocide،
جیسے ٹرینڈ کے ذیل میںبھی ’’اگر اس وقت غزہ کربلا ہے تو سب مسلم ملک کون ہیں؟‘‘ جیسے طنزیہ جملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ جس چیز کی اہلِ فلسطین کو ضرورت ہے وہ ہے عسکری مدد، جوکوئی نہیں کر رہا، سب باتیں بنا رہے ہیں۔ جیسے جیسے غزہ سے وڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، ویسے ویسے اثرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سندھ نے بتایا کہ نوجوان اس صورت حال میں قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے فلسطین جانے کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سوال بھی اٹھا کہ اگر عرب سے لوگ افغانستان آسکتے ہیں تو یہاں سے عرب جانا کیوں کر مسئلہ ہو سکتا ہے؟ جب معاملہ زبان یا بارڈر نہیں ایمان و جذبات کا ہو۔ بلاشبہ وہاں سے زخمیوں اور اُن کے ورثا کی آنے والی وڈیوز کچھ تو اثر ناظرین پر ڈال رہی تھیں۔ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ یہ سب وڈیوز بالآخر ناظرین کو بھی حکمرانوں کی طرح بے حس بنا دیں گی کیوں کہ مستقل ایک جیسی وڈیوز کی بمبارٹمنٹ انسانی نفسیات پر ایسا ہی اثر ڈالتی ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کی ٹیلی وائزڈ ریئلٹی کا بنیادی کام ہے کہ وہ مصنوعی اور عارضی کیفیت پیدا کرتی ہے۔
ایسی ڈھیروں وڈیوز میں سے ایک وڈیو میں نے اسپتال کے باہر مٹھائی بانٹتے شخص کی دیکھی جو سب کو خاندان کی شہادت پر حوصلہ دینے کی خاطر مٹھائی تقسیم کر رہا تھا۔ ناقابل بیان کیفیت تھی اُس شخص کی جس کے لیے الفاظ نہیں۔ ایک اسپتال میں ڈاکٹروں کی نظم پڑھتے ہوئے وڈیو کہ ’’ہم کہیں نہیں جائیںگے‘ ہم یہیں رہیں گے‘ آئو سب مل کر کھڑے ہوں‘ علاج اور قلم کے ساتھ۔ ہم سب ان لوگوں پر رحم کرتے ہیں جو بیماری میں مبتلا ہیں۔ آئیے اعلیٰ مقاصد کی طرف چلتے رہیں۔‘‘ بہت وائرل رہی کہ آپ اگرعربی نہ بھی سمجھیں تو بھی جذبات سے آپ کی آنکھیں تر ہو جائیں گی۔
ایک بھارتی خاتون شہری کی اپنے چینل کو فلسطین پر دیے گئے مؤقف کی وڈیو بھی بہت وائرل ہوئی جس میں خاتون نے سارے بھارتی پروپیگنڈے کو انتہائی سادہ لفظوںمیں خاک میں ملا ڈالا۔ بھارتی نیوز پورٹل دی وائر کی 25 اکتوبر کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تجربہ کار اسرائیلی یہودی صحافی امیرہ ہاس نے صاف الفاظ میں کہا کہ ’’تاریخ 7 اکتوبر 2023 سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ اگر اسرائیل نے فلسطینیوں پر ناقابل بیان مظالم نہ کیے ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔‘‘
مغربی میڈیا اور سیاسی قیادت حماس کے حملے کو بنیادی پس منظر نظر انداز کرکے پیش کرتی رہی۔ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف نہ صرف اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) بلکہ آباد کاروں کی طرف سے بھی تشدد شامل ہے۔ مسجد اقصیٰ کے انتظام ظاہری طور پر ایک لبنان اتھارٹی کے پاس ہیں مگر اسرئیلی پولیس و فوج وہاں جب چاہے دندناتی پہنچ جاتی ہے۔ اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کی زمینوں اور گھروں کو لوٹنے اور چوری کرنے اور یہاں تک کہ قتل کرنے کے لیے ہتھیار اور کور فراہم کیے جاتے ہیں۔
بھارت کا غیر فطری جھکاو:
بھارت اس وقت زبردستی اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی بن کر میدان میں اترا ہے۔ بی جے پی کی امریکا نواز پالیسی بھی ایک وجہ ہے اور دوسری وجہ اُس کے لیے حماس کا جہادی پس منظر۔ ہندوستان میں آزادی اور تقسیم کے بعد اتنی نسلوں کے گزرنے کے باوجود مسلمانوں کے ’’غزوہ ہند‘‘ کا خوف اُن کے رگ و پے میں ہے۔ اُن کو اچھی طرح یقین ہے کہ مسلمان اپنے نبیؐ کے حکم پر کیا کچھ کر سکتا ہے، اُس کے پاس تو ایک مقبوضہ کشمیر ہے جہاں وہ کم از کم فلسطین جیسی بم باری نہیں کرسکتا، مگر وہ دیکھ رہا ہے کہ یہ سب زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ وہ افغانستان میں روس کی اور پھر امریکا کی شکست دیکھ چکا ہے اس لیے جانتا ہے کہ اب اگر ’’غزوہ‘‘ نام کی چیز ہوئی تو یہ بھارت کو لے ڈوبے گی۔ ’’الجزیرہ‘‘ نے اس حوالے سے تفصیلی تجزیہ ویب سائٹ پر شائع کیا کہ ’’ہندوستان سے اتنی ساری فلسطینی مخالف غلط معلومات کیوں آرہی ہیں؟ اسرائیل۔ غزہ جنگ کے درمیان، ہندوستانی دائیں بازو کے اکائونٹس فلسطین مخالف جعلی خبروں کے سرکردہ ایمپلی فائرز میں شامل ہیں۔‘‘ BOOM، ہندوستان کی سب سے مشہور فیکٹ چیکنگ سروسز میں سے ایک، نے کئی تصدیق شدہ ہندوستانی ٹوئٹر صارفین کو غلط معلومات کی مہم پر پایا۔ یہ زیادہ تر اسرائیل کے حامی بن کر فلسطین اور فلسطینیوں کو ظالم، سفاک اور درندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ جو لوگ اس ایشو پر صفر معلومات رکھتے تھے وہ اس طرح کی وڈیوز اور پوسٹوں سے رائے بنا لیتے ہیں۔ ایک اور مثال میں ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ حماس ایک یہودی بچے کو اغوا کر رہی ہے۔ ویڈیو نے صرف ایک پوسٹ میں دس لاکھ سے زیادہ آراء حاصل کیں۔ گمراہ کن ویڈیو کو نمایاں کرنے والے ٹاپ 10 میں سب سے زیادہ شیئر کیے جانے والے ٹویٹس میں سے سات ایسے پرو فائلز تھے جو بھارت میں ہیں یا ان کی سوانح عمری میں ہندوستانی جھنڈا ہے۔ اکیلے ان سات ٹوئٹس کو X پر 3 ملین سے زیادہ تاثرات ملے۔ حقیقت میں اس ویڈیو کا اغوا یا درحقیقت غزہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ ان جھوٹے ویڈیوز کو شیئر کرنے والے بہت سے اکائونٹس X پر مسلم مخالف تبصرے پوسٹ کرنے میں اپنا زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔ایک Xاکائونٹ، مسٹر سنہا، نے حماس کی طرف سے ایک لڑکے کا سر قلم کیے جانے کی جھوٹی ویڈیو شیئر کی، اسی پوسٹ میں #IslamIsTheProblem ہیش ٹیگ شامل کیا۔ ایک اور اکائونٹ جس نے جنسی غلاموں کو اغوا کرنے والے فلسطینیوں کی گمراہ کن ویڈیو شیئر کی تھی اس سے پہلے لکھا تھا ’’صرف فرق یہ ہے کہ جب مسلمان لڑکیاں ہندو مذہب اختیار کر لیتی ہیں تو وہ خوشی سے زندگی گزارتی ہیں۔ لیکن جب ہندو لڑکیاں اسلام قبول کرتی ہیں تو وہ سوٹ کیس یا فریج میں ختم ہوجاتی ہیں۔‘‘ ایک ہندوستانی اکائونٹ، جس کا تعلق ایک ریٹائرڈ ہندوستانی فوجی سے ہے، نے کہا ’’اسرائیل کو فلسطین کو سیارے سے ختم کرنا چاہیے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے آئی ٹی سیل کو اسلامو فوبیا کا مسئلہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ کام غلط معلومات سے پھیلایا جا رہا ہے جو غزہ کے تنازع کی طرف جا رہا ہے۔
حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹ AltNews کے شریک بانی اور ایڈیٹر پراتک سنہا نے ٹویٹ کیا: ’’بھارت اب اسرائیل کی حمایت میں ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنے غلط معلومات پھیلانے والے اداکاروں کو برآمد کر رہا ہے، امید ہے کہ دنیا اب اس بات کا احساس کرے کہ کس طرح ہندوستانی دائیں بازو نے ہندوستان کو دنیا کا ڈس انفارمیشن کا دارالحکومت بنا دیا ہے۔‘‘
دوسری جانب فلسطینی مصنفہ سوسن ابولہوا نے راج دیپ سر ڈیسائی کو فلسطین جنگ کے تناظر میں یہ بتایاکہ ’’یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہندوستانی کیسے بدل گئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ ہندوستانی، جنہوں نے کوئی سو سال برطانوی استعمار کے ظلم و ستم کا تجربہ کیا، غزہ کے لوگوں کی حالتِ زار سمجھ نہیں پا رہے؟ جنہیں اسرائیل کے ہاتھوں آبادکاری کی استعماریت کا سامنا ہے۔‘‘ ہندوستانی غزہ کے قابض لوگوں کی بربادی اور غاصب اسرائیل کی فتح کی خواہش کیسے کر سکتے ہیں؟ مصنف اپوروانند نے اس کا انتہائی عجیب جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ہندوستان جس تبدیلی سے گزرا ہے اس نے انگریزی استعمار کی یادوں کو دھندلا کر دیا ہے، اس کی جگہ اب اصل استعمار اُن کو مغل/مسلمان حکمران لگنے لگے ہیں۔‘‘ ( دی وائر) اب یہ انتہائی بھونڈا، بے تکا، متعصبانہ، غیر حقیقت پسندانہ اعداد و شمار کے برعکس تجزیہ تھا۔ سب جانتے ہیں کہ مغل بادشاہ یا کوئی مسلمان بادشاہ یا کوئی اور بادشاہ بھی کبھی استعمار ہو ہی نہیں سکتا۔ انگریز استعمار کے دور میں ہندوئوں کا بھی قتل عام کم نہیں ہوا، جب کہ مسلمان حکمرانوں کے دور میں تو ہمیں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔ انگریز نے تو بغاوت کے جرم میں توپوں کے دھانے پر لوگوں کو باندھ باندھ کر اُڑایا، کالا پانی سمیت کیا کچھ ظلم نہیںکیا، مگر مسلم بادشاہوں کے ادوار میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہاں کوئی جنگ کو نام دے تو وہ الگ بات ہے مگر ہم انگریز کے کیس میں جنگ نہیں پیش کر رہے۔ ہم تو الزامی دفاع کرتے ہیں کہ اپنے ہزار سالہ دور اقتدار میں مسلم حکمران طاقت کے زور پر اسلام قبول کرا دیتے تو آج معاملہ یکسر کچھ اور ہی ہوتا۔
بھارت کو قطری جھٹکا:
26 اکتوبر کی شب ’قطر‘ ایکس( ٹوئٹر)کی ٹرینڈ لسٹ میں اُترا تو لگا کہ شاید فلسطین کے لیے کچھ قدم اٹھایا ہوگا مگر دیکھا تو معلوم ہوا کہ قطری عدالت نے جاسوسی کے الزام میں ایک قطری کمپنی کے آٹھ بھارتی ملازمین کو موت کی سزا سنادی۔ سزا کے بعد ہندوستانی حکومت نے جمعرات کو ’’تمام قانونی آپشنز‘‘ تلاش کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ یہ آٹھ افراد بھارتی بحریہ کے ریٹائرڈ افسر ہیں جنہوں نے قطری حکومت کو آبدوزوں کے حصول کا مشورہ دینے والی مشاورتی کمپنی الدہرہ کے لیے کام کیا۔ ہندوستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس کیس کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔ عائشہ غازی نے ٹوئیٹ میں بھارتی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ’’شدید صدمے میں اس لیے ہیں کہ اب انڈیا ساری دنیا میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتا ہے اور اگر کبھی کوئی کلبھوشن سنگھ پاکستان میں پکڑا جائے اور دہشت گردی کا اعتراف بھی کر لے تو پاکستان اسے پھانسی پر لٹکانے کی جرأت نہیں کرتا۔ انڈیا نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ساری دنیا پاکستان ہے اور انڈیا خود اسرائیل ہے۔‘‘ اب اس خبر سے جو بھارت کی سوشل میڈیا پر ہمارے دستوں نے بینڈ بجائی وہ دیدنی تھی۔