اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی کے سابق ناظم، جامعہ کراچی طلبہ یونین کے سابق صدر اور مخلص دوست بھائی محمود احمد اللہ والا طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کے ایک عزیز، عرفا ن اللہ والا کئی برس پہلے اپنے ایک قریبی رشتے دار کی تعزیت کے لیے ہیوسٹن تشریف لائے تو ان سے ملاقات میں پتا چلا کہ محمود بھائی سخت بیمار ہیں۔ 1978 کے بعد سے ہمارا محمود بھائی سے رابطہ نہیں ہوا تھا لیکن ایک دوست اور پُرعزم قائد کی حیثیت سے وہ ہمیشہ دل میں رہے۔
محمود اللہ والا سے ہماری پہلی ملاقات نیشنل کالج میں ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ تحریک کے ایک مظاہرے کے دوران ہوئی، جس میں حسین حقانی تقریر کر رہے تھے۔ ہمیں یاد نہیں کہ محمود بھائی نیشنل کالج کی ایوننگ شفٹ کے طالب علم تھے یا حلقہ کالجز کے نگراں لیکن ان کا انتہائی ملائم لہجہ ہمیں آج تک یاد ہے۔ اس ذکر سے ہمیں برادرم اسلم کلہوڑی بھی یاد آگئے جو ہمارے ساتھ نیشنل کالج کے طالب عالم تھے۔ وہیں خالد پرویز بھی موجود تھے جو بعد میں کالج یونین کے صدر منتخب ہوئے۔
جامعہ میں محمود اللہ والا ہم سے ایک سال آگے تھے اور وہاں ہماری پہلی ملاقات نئے طلبہ کے لیے قائم کیے گئے استقبالیہ کیمپ پر ہوئی۔ اس وقت جامعہ کے ناظم غالباً محی الدین بھائی تھے۔
کچھ ہی عرصے بعد انتخابی مہم شروع ہوئی اور شفیع نقی جامعی کی قیادت میں ہمارا پورا پینل بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ اعجاز شفیع گیلانی، زاہد حسین بخاری، رشید کوثر اور عبدالمالک مجاہد کے بعد جمعیت کی یہ پانچویں مسلسل کامیابی تھی۔ اسی سال شعبہ ارضیات کی ذمے داری ہمیں سونپ دی گئی کہ ناظم شعبہ بھائی محمد افضل المعروف لیہ والے نے تعلیم پر توجہ دینے کے لیے نظامت سے سبکدوشی کی درخواست کی تھی۔ اُن دنوں محمود بھائی ناظم جامعہ تھے، چنانچہ ان سے روز ہی ملاقات رہتی۔
اگلے برس انتخابات میں محمود اللہ والا معتمد عمومی کے لیے جمعیت کے امیدوار نامزد ہوئے جب کہ جناب قیصر خان ہمارے صدارتی امیدوار تھے۔ بدقسمتی سے جمعیت وہ انتخاب ہار گئی۔ یہ پانچ سال بعد جامعہ کراچی میں ہماری پہلی شکست تھی۔ تاہم بالکل صفایا بھی نہیں ہوا تھا کہ شریک معتمد کے لیے ہمارے امیدوار مخدوم علی خان (سابق اٹارنی جنرل) نے کامیابی حاصل کرلی تھی۔
اس سال جمعیت کے کارکنوں نے زبردست محنت کی۔ سارا زور نئے آنے والوں پر تھا۔ محمود بھائی کی پوری توجہ استقبالیہ مہم پر تھی۔ اللہ کی مہربانی سے مہم بہت کامیاب رہی اور فرسٹ ائر کی اکثریت جمعیت کی حامی تھی۔ اسلامی جمعیت طالبات کی کوششوں سے لڑکیوں میں جمعیت کا کام بہت اچھا ہو گیا۔ اس سال انتخابات میں محموداللہ والا صدارتی امیدوار نامزد ہوئے۔ شرمیلے مزاج کے اللہ والا بھائی کو جمعیت کا یہ فیصلہ پسند نہیں تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ نام پر شکست خوردہ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے اس لیے مخالفین کو طعنوں اور مذاق کا موقع ملے گا۔ لیکن جمعیت میں جب فیصلہ ہو جائے تو سب کے لیے قبول کرنا لازمی ہے۔ چنانچہ محمود بھائی میدان میں اتر آئے۔ غلام مجتبیٰ (اب ڈاکٹر غلام مجتبیٰ) معتمد عام، آصف بھائی بھی شریک معتمد اور انگریزی کی شاندار مقررہ بہن عافیہ سلام شریک معتمد کی امیدوار تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے مخالف امیدوار مصطفین کاظمی نے ہر جلسے میں ’’جواری ہارے ایک بار، محمود ہارے بار بار‘‘ کے نعرے لگائے۔ لیکن اللہ کے فضل سے جمعیت کا پورا پینل بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگیا۔
محمود بھائی کے بارے میں تاثر عام تھا کہ وہ بہت کم گو ہیں۔ یہ درست کہ ان کا انداز مجلس پر چھا جانے والا نہیں تھا لیکن ہم نے انھیں بہت کھل کر بات کرنے ولا پایا۔ کارکنوں سے رابطے کے معاملے میں ان کا جواب نہ تھا۔ جامعہ میں ملاقات کے علاوہ وہ کارکنوں کے گھر جاکر بھی ملا کرتے تھے۔ ہماری رہائش دور افتادہ لیاری میں تھی اور وہ مجھ سے ملنے ہمار ی متعفن گلی تک آئے۔ وہ کارکنوں کو اکثر اپنے گھر بھی مدعو کرتے تھے۔ ہر سال ایک پُر تکلف افطار ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ اس موقع پر بچل لغاری، اسلام یاور، محمود فاروقی، انجم رفعت اللہ وغیرہ کی دل چسپ گفتگو مجلس کو چار چاند لگادیتی۔
ملاقات کے دوران محمود بھائی کا دھیما لیکن اخلاص کی مٹھاس میں گندھا انداز بہت ہی منفرد تھا۔ اللہ نے انھیں مالی اعتبار سے بہت وسعت دی تھی لیکن ان کے برتاو اور گفتگو سے کبھی یہ تاثر نہ ابھرا۔ کارکنوں سے تعلقات کے معاملے میں مجھ سمیت تمام رفقا کا خیال تھا کہ ہم ان کے سب سےقریب ہیں۔
اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
ہر ایک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
طویل علالت اور آزمائشیں جھیلنے کے بعد ہمارا بھائی کتابِ زندگی سمیٹ کر اُس غفار و غفور رب کے پاس پہنچا ہے جسے اپنے بندوں سے عفو و درگزر بہت پسند ہے۔ بقول حضرت علی ہمارا رب بڑے بڑے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے اجر عطا فرماتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ محموداللہ والا سے معافی و درگزر کا معاملہ کرے، ان کی نیکیوں کا بہترین اجر عطا فرمائےؓ ہماری عفت ماب و صابر بھابھی اور ان کے بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ بے شک ہمارا رب اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے۔