مغرب و مشرق میں چہار جانب اب بین الاقوامی سیاست سے لے کر قومی سیاست تک فلسطین کی باز گشت سنائی دے رہی ہے اور یہ حماس کی سب سے بڑی فتح ہے کہ جس نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔
فلسطینیوں نے اپنی فہم و فراست ، جرات و بہادری ، حُسنِ کردار و عمل سے دنیا بھر میں اسلامی تحاریک کی مغربی میڈیا کی جانب سے بنائی تصویر کو مکمل طور پر نہ صرف تبدیل کردیا ہے بلکہ جنگ میں بھی اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ شاید مغرب میں ناپید ہیں۔
فلسطین اسرائیل تنازعے میں 7 اکتوبر 2023ء ایک تاریخ ساز دن کی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ 7 اکتوبر سے قبل دنیا میں صورت ِحال تھی کہ مشرقِ وسطیٰ کی مسلم مملکتیں کسی نہ کسی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ تھیں۔ سعودی عرب اور پاکستان پر بے پناہ دباؤ تھا اور کسی حد تک ایک نیم رضامندی کی سی کیفیت تھی۔ امکان تھا کہ کسی بھی وقت سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے اور اس کے بعد صورت ِحال یکسر بدل جائے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایک کرکے مسلم ممالک کی تباہی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ممالک کے اندرونی خلفشار و خانہ جنگی سے جوڑنا اور اس کے بعد داعش جیسی تنظیموں کے روپ میں اسلام کی ایک ایسی شکل کو اسلام کے نام پر پیش کرنا کہ جس کا اسلام سے دور دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اس تمام تناظر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی ان تمام تحاریک کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی گئیجن کا تعلق مسلمانوں سے تھا،اور اس ضمن میں دنیا بھر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی درجنوں تنظیموں کو مغربی ریاستوں نے دہشت گرد قرار دیا، یعنی کہ اگر آپ مسلمان ہیں اور اپنی آزادی کی کوئی جدوجہد کرتے ہیں تو آپ کو اس قسم کی جدوجہد کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس تناظر میں اگر آپ 7 اکتوبر سے پہلے چلے جائیں تو غزہ ایک ایسا خطہ تھا جسکی16 سال سے ناکہ بندی جاری تھی۔پانی، غذائی اجناس، تعلیم اور صحت تک کے لیے وہ اسرائیل کے رحم و کرم پر تھا۔ وقتاً فوقتاً قتلِ عام جاری تھا اور ساڑھے پانچ ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل نے قید کیا ہوا تھا۔ اس خطے کو اسرائیل کی ایک کالونی تصور کیا جاتا تھا اور معاہدہ اوسلو اور معاہدہ ابراہمیر کے باوجود آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تو کیا عمل میں آتا، اس کے برعکس بیت المقدس جس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا تھا، اسے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے نہ صرف اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا بلکہ اس کی سب سے پہلے تائید خود امریکا نے کی اور معاہدے کو سبوتاژ کرکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ معاہدہ کروانے والے امریکی صدر بل کلنٹن ہیںجنہوں نے دو ریاستی حل کا معاملہ طے کروایا تھا، یعنی امریکا نے ہی اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔مزید یہ کہ فلسطینیوں کی سیاسی جماعت جس کو فلسطینیوں نے 2006ءکے انتخابات میںبھرپور مینڈیٹ دیا تھا، نہ صرف بیرونی دباؤ پر اس کی حکومت کو برطرف کیا گیا بلکہ مغربی دنیا نےاس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔
7اکتوبر 2023ء کو حماس نے کارروائی کرکے نہ صرف اسرائیل، بلکہ پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ اس کو مغربی میڈیا نے وحشی، جنونی اور دہشت گردانہ حملہ قراردیا، لیکن مغربی کنارے میں قائم الفتح کی حکومت سے لے کر فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد کرنے والے سوشلسٹ نظریات کے حامل افراد تک نے اس کو آزادی کی جنگ قرار دیا۔ حماس کی اس سطح پر حمایت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حماس پورے فلسطین کے دل کی آواز ہے، حتیٰ کہ فلسطینی صدر محمود عباس تک نے اس معاملے پر حماس کی مذمت کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ واشگاف اعلان کیا کہ اسرائیل نے بین الاقوامی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں لہٰذا اس کی مذمت کی جائے۔
17اکتوبر 2023ء کو غزہ کے اسپتال پر میزائل حملے کے بعد اب مغربی میڈیا جوکہ حماس کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا، اس کے لب و لہجے میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ اس سب کی تین بنیادی وجوہات ہیں:
1 ۔اسرائیل کا غزہ اسپتال پر حملے کا سنگین جنگی جرم
2 ۔مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ اور امریکا میں عوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت میں عظیم الشان مظاہرے
3 ۔ حماس کی جانب سے گرفتار شدگان کو اسرائیل کی بدترین بمباری اور قتلِ عام کے باوجود کوئی نقصان نہ پہنچانا، اور ان میں سے چند کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی
یہ وہ صورتِ حال ہے جس میں فلسطین و اسرائیل کی حالیہ جنگ میں طاقت کے عدم توازن، بین الاقوامی قوتوں کی اسرائیل کی پشت پناہی، تمام تر مغربی میڈیا کی غیر متوازن کوریج کے باوجود یہ جنگ فلسطین نے انسانی حقوق، بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری اور بے مثل استقامت، بہادری اور قربانیوں کے باعث ہر محاذ پر جیت لی ہے۔ اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ اب خود مغربی میڈیا اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طاقت کے عدم توازن کو موضوعِ بحث بنا چکا ہے۔ اب یورپی پارلیمان سے لے کر برطانوی پارلیمنٹ تک ہر جگہ یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ مغربی قوتوں کو کسی ایک فریق کی پشت پناہی کرنے کے بجائے انسانی المیے کو رونما ہونے سے روکنا چاہیے۔ برطانوی پارلیمان میں رکن پارلیمنٹ جرمی کوربن نے وزیراعظم رشی سونک کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان سے سوال کیا کہ کیوں سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کی پیش کی گئی قرارداد پر برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا؟ رکن پارلیمنٹ طاہر علی نے برطانوی وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا تو کیا برطانوی حکومت اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گی؟ ایک اور رکن زہرہ سلطان نے وزیر اعظم اور برطانوی حکومت کی توجہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کُشی کی جانب مبذول کروائی اور کہا کہ برطانوی حکومت کیوں سیز فائر کروانے میں اب تک ناکام ہے؟ انہوں نے اپنے خطاب میں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال، بے پناہ تباہی اور بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی آواز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونی گوتریس کی تھی جنہوں نے اس معاملے کے حتمی حل کے لیے دوریاستی حل کی ضرورت پر دوبارہ زور دیا۔ برطانوی حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی میں بھی اب فلسطین کی بھرپور حمایت موجود ہے، اور اس کی بنیاد پر پارٹی سربراہ کیئر اسٹارمر کو اسرائیل کی حمایت میں دیئے گئے اپنے سابقہبیانات سے دستبردار ہونا پڑا، اور اب وہ بھی جنگ بندی کے لیے آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
برطانوی حکومت کے لیے گزشتہ ہفتہ سخت ترین امتحان ثابت ہوا کہ جہاں حکومتی دعووں کے باوجود دارالحکومت لندن میں بار بار لوگ فلسطین کی حمایت میں نہ صرف جمع ہوتے رہے بلکہ حکومت پر کڑی تنقید بھی کرتے رہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے چند ایسے اقدامات کیے گئے جوکہ الٹا حکومت کے گلے پڑ گئے، مثلاً وزیر داخلہ سوئیلا براو مین نے ہدایت کی کہ مظاہروں میں فلسطینی پرچم لہرانے پر پابندی عائد کی جائے، لیکن اُن کی اِس ہدایت کے برعکس اس سے بھی بڑی تعداد میں اب فلسطینی پرچموں کی بہار ہے اور قانون کے مطابق اس پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ گوکہ برطانیہ میں حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے، لیکن فلسطین کو بطور ریاست برطانیہ نے تسلیم کررکھا ہے، لہٰذا کسی ملک کے پرچم کے لہرانے پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ یہ صورتِ حالاب خود برطانوی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے کہ سڑکوں سے لے کر پارلیمنٹ تک حکومت کے مؤقف کو مکمل مسترد کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے اب برطانوی یونیورسٹیوں میں بھی فلسطین کی حمایت میں زبردست پروگرام جاری ہیں۔
اس تمام صورتِ حال میں برطانوی میڈیا نے ایک بار پھر یہ کوشش کی کہ اسرائیل سے حماس کے ہاتھوں گرفتار برطانوی باشندوں کو بطور انسانی ہمدردی پیش کیا جائے اور حماس کو ایک دہشت گرد و شدت پسند گروہ ثابتکاط جائے، اس ضمن میں بی بی سی پر بھی بھرپور دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی کوریج میں حماس کو بطور دہشت گرد گروہ پیش کرے، لیکن بی بی سی کے انکار کے بعد اب دیگر میڈیا کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ فلسطین میں جاری سنگین نوعیت کے جنگی جرائم کو چھپانے کے لیے جنگ کی کوریج میں گرفتار برطانوی باشندوں کو سامنے لایاجائے۔ اس تمام کاوش پر اُس وقت حماس نے پانی پھیر دیا جب اس نے پہلے دو خواتین کو، اور اس کے بعد پھر دو مزید خواتین کو 24 اکتوبر 2023ء کو رہا کردیا۔ یہ رہائی اُس وقت عمل میں لائی گئی جس سے چند دن قبل اسرائیل نے غزہ کے اسپتال پر حملہ کرکے 500 سے زائد خواتین اور بچوں سمیت دیگر زخمیوں کو ہلاک کردیا تھا۔
اب دنیا کے پاس اس جنگ کی دو تصاویر ہیں، ایک وہ کہ جس میں عسکری طور پر پسماندہ، محدود جنگی قوت رکھنے والے فلسطینی ہیں کہ جن کے پاس اب یہ گرفتار شدگان ہی سب سے بڑی ڈھال تھے، اس کے باوجود انہوں نے اس وحشیانہ بمباری کے باوجود ان کو محفوظ رکھ کر ثابت کردیا کہ اسرائیل کی طاقت ان کو فنا نہیں کرسکتی۔ دوسری جانب انہوں نے بلند ترین انسانی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا کہ جس میں دو عمر رسیدہ خواتین کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا، اور ان خواتین نے جاتے جاتے اپنے اغواءکاروں سے نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ ان کو سلامتی کا پیغام بھی دیا۔ انہوں نے ایک دن کے بعد پریس کانفرنس کرکے دنیا کو مزید حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے کہا کہ اغوا کاروں نے ہم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی، ان کا رویہ دوستانہ تھا، انہوں نے ہمارے آرام اورکھانے پینے کا خیال رکھا، اور جو وہ خود کھاتے تھے وہی ہم کو کھلاتے تھے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے ڈاکٹر کو بھی مامور کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اسرائیلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اب مغربی میڈیا بھی مغوی اور اغوا کاروں کی مصافحے کی تصویر اور ان کے اعتراف کو صفحہ اوّل پر جگہ دینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اب 7 اکتوبر 2023ء سے قبل کی دنیا اور آج کی دنیا میں بہت بڑا فرق ہے۔ انسانی حقوق، ہمدردی، بین الاقوامی معاہدات، جنگ میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری میں اب حماس کو اسرائیل پر واضح برتری حاصل ہے، اس کا اعتراف نہ صرف عالمی طاقتیں کررہی ہیں بلکہ میڈیا بھی اس سچ کو چھپانے کی کوشش نہیں کررہا۔ کل تک جن کو دہشت گرد، وحشی، جنونی اور جاہل قرار دیا گیا تھا انہوں نے اپنے عمل و کردار سے دنیا کو بتا دیا کہ وحشی، دہشت گرد اور جاہل کون ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل افغان طالبان کی قید میں رہنے والی برطانوی صحافی ایوان ریڈلی نے بھی نہ صرف اس کا اعتراف کیا تھا بلکہ اپنے اغوا کاروں کے حُسنِ کردار سے متاثر ہوکر اسلام بھی قبول کرلیا تھا۔
فلسطینیوں نے اپنے فہم و فراست، جرات و بہادری، حُسنِ کردار و عمل سے دنیا بھر میں اسلامی تحاریک کی مغربی میڈیا کی جانب سے بنائی گئی تصویر کو مکمل طور پر نہ صرف تبدیل کردیا ہے بلکہ جنگ میں بھی اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جوکہ شاید مغرب میں ناپید ہیں۔ حماس کی 7 اکتوبر کی کارروائی نے فلسطین کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ تسلیم کروالیا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اسرائیل کو بہرطور ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور اس کی حامی مغربی قوتوں کی یہ ناکامی دنیا میں پیدا شدہ عدم توازن کی سیاست میںایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ اب یہ بات حتمی ہے کہ دنیا چند مغربی طاقتوں کے زیر نگیں نہیں رہے گی، اور اگر اس طرزِعمل کو دہرایا گیا تو دنیا کسی تیسری عالمی جنگ کی جانب چلی جائے گی جس کا انجام بہر حال دنیا کے لیے کسی طور بھی اچھا نہیں ہوگا۔
حماس کی فتح کو تسلیم کرنا گوکہ مغربی طاقتوں کے لیے بڑا امتحان ہے، لیکن اب اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہے۔ مغرب و مشرق میں چہار جانب اب بین الاقوامی سیاست سے لے کر قومی سیاست تک میں فلسطین کی باز گشت سنائی دے رہیہے اور یہ حماس کی سب سے بڑی فتح ہے کہ جس نے دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔