سلطنت کے اکابر، اور کلیسا کے پیشوائوں کی موجودگی میں یہ الفاظ اُس شخص کی زبان سے نکلے تھے، جنہیں وہ دین مسیح کا سب سے بڑا حامی و ناصر سمجھتے تھے۔ پھر انہوں نے ایک ایسے عرب کی زبانی اُس کی تعریف سنی تھی جو اب تک اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔ اُن کے سینوں میں غصے کی آگ سلگ رہی تھی لیکن قیصر کے احترام کے باعث اُن کی زبانیں گنگ ہوچکی تھیں۔ لیکن جب ہرقل کے حکم سے بھرے دربار میں یہ خط پڑھ کر سنایا گیا تو اُن کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ خاموش نگاہوں کا احتجاج زبانوں پر آگیا اور پادریوں اور راہبوں کی دبی ہوئی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ روم کے شہنشاہ نے ہدایت کے جس نور کو اپنے سینے میں جگہ دینے کی جسارت کی تھی، اُس کے راستے میں دنیاوی جاہ و حشمت اور تخت و تاج کی محبت کے پردے حائل ہوگئے۔ وہ ہاتھ جو اچانک حسین پھولوں کی طرف بڑھے تھے، کانٹوں کے خوف سے پیچھے ہٹ گئے، اور وہ ہمت جو کبھی ہرقل کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر نینوا اور دست گرد کے میدانوں کی طرف لے گئی تھی، اچانک جواب دے گئی۔ ہرقل نے اپنی رعایا کا اضطراب دور کرنے کے لیے عربوں کو دربار سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اور کلیسا کی عظمت اور تقدیس کے محافظ اُسے مبارک باد دینے لگے۔ وہ خوش تھے وہ اِس بات پر خوش تھے کہ انہوں نے ایک پیاسے مسافر کو ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے کی طرف بھاگنے سے روک لیا ہے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ عرب کے صحرا سے جو چشمہ پھوٹا ہے اُس سے کئی دریا اور کئی ندیاں نکلیں گی اور ان دریائوں اور ندیوں کے سیلاب کی لہریں ایک طرف عیسائیت اور دوسری طرف مجوسیت کے سارے بند توڑ ڈالیں گی۔ وہ قیصر کو ہاتھ پھیلانے سے منع کرسکتے ہیں لیکن رحمت کی اُس گھٹا کو برسنے سے روک نہیں سکتے جس کے بادل عرب کے آسمان پر جمع ہورہے تھے۔
دمشق میں عاصم کی حالت اس مسافر کی سی تھی جو مدتوں وحشت ناک صحرائوں میں بھٹکنے کے بعد ایک نخلستان کی ٹھنڈی چھائوں میں آرام کررہا ہو۔ فسطینہ دمشق کے حاکم کو شاہی فرمان دکھانے کے بعد اپنے نانا کی جائیداد حاصل کرچکی تھی۔ پھر اس کے پاس یوں بھی دولت کی کمی نہ تھی۔ چند بیش قیمت ہیرے ان کی عمر بھر کی ضروریات کے لیے کافی تھے۔ عاصم مہر داد کے عطا کردہ سونے سے تجارت شروع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن فسطینہ کو اپنے شوہر سے ایک لمحہ کی جدائی بھی ناگوار محسوس ہوتی تھی۔ چنانچہ عاصم شہر سے باہر ایک باغ اور چند کھیت خرید کر مطمئن ہوگیا۔
شادی سے اگلے سال ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اور والدین نے اس کے لیے یونس کا نام پسند کیا۔
عاصم کے دل میں غریب الوطنی کا احساس بتدریج ختم ہورہا تھا اور ماضی کے آلام و مصائب اب اسے ایک خواب محسوس ہوتے تھے۔ دمشق کے حکام اور رئوسا اسے ایک ایسی قابل عزت خاتون کے شوہر کی حیثیت سے جانتے تھے جس کا باپ ایران کی فوج کا ایک جرنیل اور کسریٰ کا دوست ہونے کے باوجود روم کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے اپنی جان دے چکا تھا۔ اور اس نسبت سے دمشق کے انتہائی متعصب پادری اور راہب بھی اگر دل سے نہیں تو ظاہری اور طور پراس کی عزت ضرور کرتے تھے۔ مذہب کے متعلق شوہر اور بیوی کے جذبات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ فسطینہ کو بڑی شدت سے اس بات کا احساس تھا کہ ایران کے ایک نامور جرنیل کی حیثیت سے اس کے باپ نے جو فتوحات حاصل کی تھیں وہ خدا کو پسند نہ تھیں۔ اور ان پر خوش ہونا یا فخر کرنا ایک گناہ تھا۔ اور اس کے لیے بہترین کفارہ یہی ہوسکتا تھا کہ وہ دنیا سے منہ موڑ کر ایک راہبہ کی زندگی اختیار کرلیتی۔ لیکن عاصم نے اُسے لرزتے اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے زندگی کا دامن پکڑنے پر مجبور کردیا۔ تاہم اس کی مسرت کا کوئی لمحہ بھی اس قسم کے خدشات سے خالی نہ تھا۔ خدا کی ناراضگی اسے کسی وقت بھی نئے آلام و مصائب میں مبتلا کرسکتی ہے۔ چنانچہ وہ رو رو کر اپنے شوہر اور کمسن بچے کی سلامتی کے لیے دعائیں کیا کرتی تھی۔ وہ گرجوں اور خانقاہوں میں جاتی اور ان خدا رسیدہ بزرگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے بڑے نذرانے پیش کرتی جن کے متعلق یہ مشہور تھا کہ ان کی دعائیں آنے والی مصیبتیں ٹال سکتی ہیں۔
وہ عاصم کو بھی عیسائیت پر ایمان لانے کی ترغیب دیا کرتی تھی۔ اور وہ اسے خوش کرنے کے لیے کبھی کبھی اس کے ساتھ گرجوں اور خانقاہوں میں بھی چلا جاتا تھا۔ تاہم عیسائیت کے متعلق اس کے جذبات بہت سرد تھے۔ اور یہ سرد مہری یا بے توجہی کسی ضد یا ہٹ دھرمی کا نتیجہ نہ تھی۔ بلکہ اس کی وجہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف تھا کہ عرب کی اصنام پرستی اور ایران کی مجوسیت کی طرح اسے کلیسا کا دامن بھی اس روشنی سے خالی نظر آتا تھا جو انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کو سلامتی کی راہ دکھا سکتی وہ ایک ایسے دین کا متمنی تھا جو قوموں اور نسلوں کو عدل و انصاف اور امن کا راستہ دکھا سکے۔ لیکن ایسے دین کا کوئی واضح تصور اس کی عقل اور سمجھ سے بالاتر تھا۔ اور پھر وہ دنیا جسے اس نے اپنی نگاہوں سے دیکھا تھا ایسے اسباب سے بھی خالی نظر آتی تھی جو توہمات، جہالت اور تعصب کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں پر ایسے دین کے نفاذ کے لیے ضروری تھے۔ کبھی دمشق کے بازاروں میں عرب کے کسی قبیلے کے تاجر مل جاتے تو وہ انہیں اپنے گھر لے جاتا۔ ان کی تواضع کرنے کے بعد اپنے وطن کے حالات پوچھتا۔ اور جب وہ یہ سنتا کہ چند بے سروسامان انسانوں کو جو قافلہ مکہ سے نکل کر یثرب پہنچا تھا، ان کے عزم و استقلال نے پورے عرب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ تو اسے حیرت ہوئی۔ بدر کے میدان میں مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کی شکست اُسے ناقابل یقین محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس کے بعد جب فرزندان توحید کی مزید فتوحات کی خبریں آنے لگیں تو اُسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ عرب میں واقعی کوئی غیر متوقع انقلاب آچکا ہے۔ اسلام کی تعلیم کے متعلق سنی سنائی باتوں سے اُسے ایک تسکین محسوس ہوتی تھی۔ تاہم وہ یہ جاننے کے لیے تیار نہ تھا کہ غلاموں اور شہنشاہوں کی دنیا کی کایا پلٹ کرنے کے لیے جس عظیم قوت کی ضرورت ہے وہ عرب سے نمودار ہوسکتی ہے۔
کلاڈیوس جو ہرقل کی محافظ فوج کے ساتھ یروشلم پہنچا تھا۔ واپس جانے کی بجائے وہاں کے رومی لشکر کی کمان سنبھال چکا تھا۔ اور چند ماہ بعد انطونیہ بھی وہاں پہنچ چکی تھی۔
سرحد کے آس پاس غسانی رئوسا اپنے رومی سرپرستوں کو عرب کے حالات سے باخبر رکھتے تھے۔ چناں چہ یروشلم سے کلاڈیوس عاصم کے نام جو خطوط بھیجا کرتا تھا، وہ اس ناقابل یقین انقلاب کی تصدیق کرتے تھے جو عرب کے اندر رونما ہورہا تھا۔ عرب میں توحید کے پرستاروں اور عدل و انصاف کا جھنڈا بلند کرنے والوں کے آلام و مصائب عاصم کے نزدیک خلافِ توقع نہ تھے۔ وہ پیغمبر اسلامؐ اور ان کے جان نثاروں کی ہجرت کے اسباب سمجھ سکتا تھا۔ لیکن اسلام کے جھنڈے تلے اوس اور خزرج اور یثرب کے دوسرے خاندانوں کا متحد ہوجانا اور پھر بے سروسامان انسانوں کی ایک قلیل تعداد کا اہل مکہ کو شکست دینا اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
عرب تاجروں کی زبانی بدر، احد اور خندق کی جنگوں کے واقعات سننے کے بعد وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ اہل مکہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ یثرب کی وادی کا ایک ایک گھر راکھ کا انبار نہیں بن جاتا۔ حدیبیہ کی صلح اور اس کے ساتھ ہی مشرق و مغرب کے تاجداروں کے نام پیغمبر اسلامؐ کے خطوط کی حیثیت اس کے نزدیک ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن عرب تاجروں کی باتوں اور کلاڈیوس کے خطوط سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ معاملہ اب مذاق کی حد سے آگے گزر چکا ہے۔
یونس کی پیدائش کے چوتھے سال جب عاصم نے یہ خبر سنی کہ مسلمانوں نے بلقا کے غسانی رئیس سے اپنے نبیؐ کے ایک ایلچی کے قتل کا قصاص لینے کے لیے موتہ پر حملہ کردیا ہے تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ پھر چند ماہ بعد اُس کلاڈیوس کی طرف سے ایک طویل خط ملا جس کا مضمون یہ تھا:
’’میرے دوست! گزشتہ چند ماہ سے میری مصروفیات کچھ ایسی تھیں کہ میں تمہیں خط نہ لکھ سکا۔ میں سرحدی چوکیوں کے معائنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ اور وہاں کچھ ایسے حالات پیدا ہورہے تھے کہ مجھے ہفتوں کی بجائے مہینوں یروشلم سے باہر رہنا پڑا۔ تم موتہ پر مسلمانوں کی غیر متوقع پیش قدمی کے واقعات سن چکے ہو گے۔ غالباً یہ تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ صحرائے عرب کے تین ہزار بے سروسامان آدمی ایک ایلچی کا قصاص لینے کے لیے دنیا کی عظیم ترین سلطنت سے اُلجھنے کی جرأت کرتے ہیں۔ بلقا کا غسانی رئیس ہمارا باجگزار ہے۔ اور مسلمانوں سے یہ حقیقت پوشیدہ نہ تھی کہ اس کے علاقے پر حملہ رومی سلطنت کے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ غسانی قبائل کے پاس ایک لاکھ کے لگ بھگ تربیت یافتہ جنگجو موجود تھے اور پھر ہماری افواج جو پورے شام میں پھیلی ہوئی ہیں ان کی پشت پر تھیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ لوگ مرعوب نہیں ہوئے۔
ایک لشکر کسی فتح کی اُمید پر چڑھائی کرتا ہے لیکن مسلمانوں کے طرزِ عمل سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ فتح اور شکست سے بے نیاز ہو کر میدان میں آتے ہیں۔ ان کی شکست یقینی تھی لیکن میں اس جنگ میں حصہ لینے والے جن لوگوں سے ملا ہوں وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے جرأت اور شجاعت کا اس سے بڑا مظاہرہ نہیں دیکھا۔ غسانی صرف اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹنے سے پہلے وہ غسانی لشکر کو اس قدر مرعوب کرچکے تھے کہ کسی کو ان کا تعاقب کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ مجھے تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں ایک لاکھ آدمیوں کی اس کامیابی کو فتح کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ صرف ابتداء تھی۔ اب یہ مسلمان کئی میدانوں میں عرب قبائل کی اجتماعی قوت کو شکست دے چکے ہیں۔ انہوں نے مکہ جسے عرب کا مرکز خیال کیا جاتا ہے فتح کرلیا ہے۔ انہوں نے قبائل کے درمیان منافرت کی آہنی دیواریں توڑ دی ہیں۔ تم کہا کرتے تھے کہ ایک عرب اپنے قبیلے کے خلاف تلوار نہیں اُٹھاتا۔ لیکن میں عرب کے کئی تاجروں سے مل چکا ہوں اور وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مسلمان اپنے دین کے دشمنوں کے خلاف لڑتے وقت اپنے خون کے رشتوں سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ تم کہتے تھے کہ مقتول کا انتقام لینا عرب کے باشندوں کا جزوِ ایمان ہے۔ لیکن میں نے سُنا ہے کہ کل تک جو قبائل مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے وہ آج اپنی شکستیں بھول کر ان کے دوش بدوش لڑ رہے ہیں۔ میرے دوست! عرب میں کوئی ایسا انقلاب آچکا ہے جو میری، تمہاری اور شاید دنیا کے تمام انسانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
(جاری ہے)