-1 خوشی کے مواقع پر خوشی ضرور منایئے۔ خوشی انسان کا ایک طبعی تقاضا اور فطری ضرورت ہے۔ دین فطری ضرورتوں کی اہمیت کو محسوس کرتا ہے اور کچھ مفید حدود و شرائط کے ساتھ ان ضروتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دین ہرگز پسند نہیں کرتا کہ آپ مصنوعی وقار، غیر مطلوب سنجیدگی، ہر وقت کی مردہ دلی اور افسردگی سے اپنے کردار کی کشش کو ختم کردیں۔ وہ خوشی کے تمام جائز مواقع پر خوشی منانے کا پورا پورا حق دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ آپ ہمیشہ بلند حوصلوں، تازہ ولولوں اور نئی امنگوں کے ساتھ تازہ دم رہیں۔ جائز مواقع پر خوشی کا اظہار نہ کرنا اور خوشی منانے کو دینی وقار کے خلاف سمجھنا دین کے فہم سے محرومی ہے۔
آپ کو کسی دینی فریضے کو انجام دینے کی توفیق نصیب ہو۔ آپ یا آپ کا کوئی عزیز علم و فضل میں بلند مقام حاصل کرلے، اللہ آپ کو مال و دولت یا کسی اور نعمت سے نوازے، آپ کسی لمبے سفر سے گھر واپس آئیں۔ آپ کا کوئی عزیز کسی دور دراز سفر سے آئے، آپ کے یہاں کسی معزز مہمان کی آمد ہو، آپ کے یہاں شادی بیاہ یا بچے کی پیدائش ہو، کسی عزیز کی صحت یا خیریت کی خبر ملے یا اہل اسلام کے فتح و نصرت کی خوشخبری سنیں یا کوئی تہوار ہو۔ اس طرح کے تمام مواقع پر خوشی منانا آپ کا فطری حق ہے، اسلام نہ صرف خوشی منانے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو عین دینداری قرار دیتا ہے۔ حضرت کعب بن مالکؓ کا بیان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے میری توبہ قبول فرمائی اور مجھے خوشخبری ملی تو میں فوراً نبیؐ کی خدمت میں پہنچا، میں نے جاکر سلام کیا۔ اس وقت نبیؐ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا اور نبیؐ کو جب بھی کوئی خوشی حاصل ہوتی تو آپؐ کا چہرہ اس طرح چمکتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم آپؐ کے چہرے کی رونق اور چمک سے سمجھ جاتے کہ آپ اس وقت انتہائی مسرور ہیں۔ (ریاض الصالحین)
-2 تہوار کے موقع پر اہتمام کے ساتھ خوب کھل کر خوشی منایئے اور طبیعت کو ذرا آزاد چھوڑ دیجیے۔ نبیؐ جب مدینے تشریف لائے تو فرمایا تم سال میں دو دن خوشیاں منایا کرتے تھے اب اللہ نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے یعنی عید الفطر اور عیدالاضحی۔ لہٰذا سال کے ان دو اسلامی تہواروں میں خوشی اور مسرت کا پورا پورا مظاہرہ کیجیے اور مل جل کر ذرا کھلی طبیعت سے کچھ تفریحی مشاغل فطری انداز میں اختیار کیجیے۔ اسی لیے ان دونوں تہواروں میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے یہ ایام کھانے پینے، باہم خوشی کا لطف اٹھانے اور اللہ کو یاد کرنے کے ہیں۔ (شرح معانی الاثار)
عید کے دن صفائی ستھرائی اور نہانے دھونے کا اہتمام کیجیے۔ حیثیت کے مطابق اچھے سے اچھا لباس پہنیے، خوشبو لگایئے، عمدہ کھانے کھایئے اور بچوں کو موقع دیجیے کہ وہ جائز قسم کی تفریح اور کھیلوں سے جی بہلائیں اور کھل کر خوشی منائیں۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ عید کا دن تھا، کچھ لونڈیاں بیٹھی وہ اشعار گا رہی تھیں جو جنگ بعاث (جنگ بعاث اس مشہور جنگ کا نام ہے جو انصار کے دو قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی) سے متعلق انصار نے کہے تھے کہ اسی دوران حضرت ابوبکرؓ تشریف لے آئے۔ بولے نبیؐ کے گھر میں یہ گانا بجانا۔ نبیؐ نے فرمایا: ابوبکر! رہنے دو ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دن ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔
ایک بار عید کے دن کچھ حبشی بازی گر فوجی کرتب دکھا رہے تھے آپؐ یہ کرتب خود بھی دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی اپنی آڑ میں لے کر دکھائے۔ آپؐ ان بازی گروں کو شاباش بھی دیتے جاتے تھے، جب حضرت عائشہؓ دیکھتے دیکھتے تھک گئیں تو آپؐ نے فرمایا اب جائو۔ (بخاری)
-3خوشی منانے میں اسلامی ذوق اور اسلامی ہدایات و آداب کا ضرور خیال رکھیے۔ جب آپ کو کوئی خوشی حاصل ہو تو خوشی دینے والے کا شکریہ ادا کیجیے، اس کے حضور سجدہ شکر بجا لایئے۔ خوشی کے ہیجان میں کوئی ایسا عمل یا رویہ اختیار نہ کیجیے جو اسلامی مزاج سے میل نہ کھائے اور اسلامی آداب و ہدایات کے خلاف ہو۔ مسرت کا اظہار ضرور کیجیے لیکن اعتدال کا بہرحال خیال رکھیے۔ مسرت کے اظہار میں اس قدر آگے نہ بڑھیے کہ فخر و غرور کا اظہار ہونے لگے اور نیاز مندی، بندگی اور عاجزی کے جذبات دبنے لگیں۔ قرآن میں ہے:
’’اور ان نعمتوں کو پاکر اترانے نہ لگو جو اللہ نے تمہیں دی ہیں، خدا ترانے والے اور بڑائی جتانے والے کو ناپسند کرتا ہے‘‘ (الحدید: 23/57)
اور خوشی میں ایسے سرمست بھی نہ ہوجایئے کہ اللہ کی یاد سے فاغل ہونے لگیں۔ مومن کی خوشی یہ ہے کہ وہ خوشی دینے والے کو اور زیادہ یاد کرے، اس کے حضور سجدہ شکر بجالائے اور اپنے عمل و گفتار سے، اللہ کے فضل و کرم اور عظمت و جلال کا اور زیادہ اظہار کرے۔
رمضان کے مہینے بھر کے روزے رکھ کر شب میں تلاوت قرآن اور تراویح کی توفیق پاکر جب آپ عیدکا چاند دیکھتے ہیں تو خوشی میں جھوم اٹھتے ہیں کہ اللہ نے جو حکم دیا تھا آپ اللہ کی دستگیری سے اس کی تعمیل میں کامیاب ہوئے اور فوراً اپنے مال میںسے اپنے غریب اور مسکین بھائیوں کا حصہ ان کو پہنچادیتے ہیں کہ اگر آپ کی عبادتوں میں کوئی کوتاہی ہوگئی ہو اور بندگی کا حق ادا کرنے میں کوئی غفلت ہوئی ہو تو اس کی تلافی ہوجائے اور اللہ کے غریب بندے بھی عید کی خوشی میں شریک ہوکر خوشی کا اجتماعی اظہار کرسکیں اور پھر آپ اللہ کی اس توفیق پر عید کی صبح کو دوگانہ شکر ادا کرکے اپنی خوشی کا صحیح صحیح اظہار کرتے ہیں اور اسی طرح عیدالاضحی کے دن حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم اور بے مثال قربانی کی یادگار مناکر اور قربانی کے جذبات سے اپنے سینے کو سرشار پاکر سجدۂ شکر بجالاتے ہیں اور پھر آپ ہرہر بستی میں سارے گلی کوچے اور شکریں تکبیر و تہلیل اور اللہ کی عظمت کی صدائوں سے گونج اٹھتی ہیں اور پھر آپ اللہ کی شریعت کے مطابق جب عید کے ایام میں اچھا کھاتے، اچھا پہنتے اور خوشی کے اظہار کے لیے جائز طریقوں کو اختیار کرتے ہیں تو آپ کی یہ ساری سرگرمیاں ذکر الٰہی بن جاتی ہیں۔
-4 اپنی خوشی میں دوسروں کو بھی شریک کیجیے اور اسی طرح دوسروں کی خوشی میں خود بھی شرکت کرکے ان کی مسرتوں میں اضافہ کیجیے اور خوشی کے مواقع پر مبارکباد دینے کا بھی اہتمام کیجیے۔
حضرت کعب بن مالکؓ کی توبہ جب قبول ہوئی اور مسلمانوں کو معلوم ہوا تو لوگ جوق در جوق ان کے پاس مبارک باد دینے کے لیے پہنچنے لگے اور اظہار مسرت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ حضرت طلحہؓ کی مبارک باد اور اظہار مسرت سے تو حضرت کعبؓ اتنے متاثر ہوئے کہ زندگی بھر یاد کرتے رہے۔ حضرت کعبؓ نے جب بڑھاپے کے زمانے میں اپنے بیٹے عبداللہ کو اپنی آزمائش اور توبہ کا واقعہ بتایا تو حضوصیت کے ساتھ حضرت طلحہ کے اظہار مسرت کا ذکر کیا اور فرمایا میں طلحہ کی مبارک باد کو کبھی نہیں بھول سکتا۔
خود نبیؐ نے بھی جب حضرت کعبؓ کو قبولیت توبہ کی خوش خبری سنائی تو انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’کعب! یہ تمہاری زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا دن ہے‘‘۔ (ریاض الصالحین)
کسی کی شادی ہو یا کسی کے یہاں بچہ پیدا ہو یا اسی طرح کی کوئی اور خوشی حاصل ہو تو خوشی میں شرکت کیجیے اور مبارک باد دیجیے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ جب کسی کے نکاح پر اس کو مبارک باد دیتے تو یوں فرماتے:
’’خدا تمہیں خوشحال رکھے اور تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور خیر خوبی کے ساتھ تم دونوں کا نباہ کرے‘‘ (ترمذی)
ایک بار حضرت حسینؓ نے کسی بچے کو پیدائش پر مبارک باد دینے کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا کہ یوں کہا کرو۔
’’الٰہی تمہیں اپنے اس عطیے میں خیر و برکت دے، اپنی شکر گزاری کی تمہیں توفیق بخشے، بچے کو جوانی کی بہاریں دکھائے اور اس کو تمہارا فرمانبردار اٹھائے‘‘۔
-5 جب آپ کا کوئی عزیز یا شناس کسی دور دراز سفر سے آئے تو اس کا استقبال کیجیے اور اس کے بخیر و عافیت واپس آنے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے پر اظہار مسرت کیجیے اور اگر وہ اپنی بخیر واپسی پر خوشی کی کوئی تقریب منائے تو اس میں شرکت کیجیے اور جب آپ کسی سفر سے بعافیت وطن پہنچیں اور اسی خوشی میں کوئی تقریب منائیں تو اس مسرت میں بھی لوگوں کو شریک کریں۔ البتہ بے جا اسراف اور نمود و نمائش سے پرہیز کیجیے اور کوئی ایسا خرچ ہرگز نہ کیجیے جو آپ کی وسعت سے زیادہ ہو۔ نبیؐ جب غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے تو مسلمان مرد اور بچے آپؐ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع (ثنیۃ الوداع مدینے کے جنوبی میں ایک ٹیلہ تھا مدینے والے مہمانوں کو رخصت کرتے وقت یہاں تک پہنچانے آیا کرتے تھے اس لیے اس ٹیلے کا نام ہی ثنیۃ الوداع یعنی رخصت کا ٹیلہ پڑگیا) تک پہنچے۔ (ابودائود)
اور جب آپ مکے سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور جنوب کی جانب سے شہر میں داخل ہونے لگے تو مسلمان مرد، عورتیں، بچے اور بچیاں سب ہی آپؐ کا خیر مقدم کرنے کے لئے نکل آئے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی میں یہ گیت گارہی تھیں۔
طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنَ ثَنِيَّاتِ الوَدَاع
وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَى لِلَّهِ دَاع
أَيُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاع
’’(آج) ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا (جنوبی پہاڑی) ثنیات الوداع سے، ہم پر شکر واجب ہے اس دعوت و تعلیم کا کہ داعی نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا۔ اے ہمارے درمیان بھیجے جانے والے رسول! آپ ایسا دین لائے ہیں جس کی ہم اطاعت کریں گے‘‘۔
ایک بار نبیؐ کسی سفر سے مدینے پہنچے تو آپؐ نے اپنے اونٹ یا گائے کو ذبح کرکے لوگوں کی دعوت فرمائی (ابودائود)
-6شادی بیاہ کے موقع پر بھی خوشی منایئے اور اسی خوشی میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی شریک کیجیے، اس موقع پر نبیؐ نے کچھ اچھے گیت گانے اور دف بجانے کی بھی اجازت دی ہے، اس سے جذبات مسرت کی تسکین بھی مقصود ہے اور نکاح کا عام اعلان اور شہرت بھی۔
حضرت عائشہؓ نے اپنے رشتے کی ایک خاتون کا کسی انصاری سے نکاح کیا، جب اس کو رخصت کیا تو نبیؐ نے فرمایا لوگوں نے ان کے ساتھ کوئی لونڈی کیوں نہیں بھیج دی جو دف بجاتی اور کچھ گیت گاتی جاتی (بخاری)
جب حضرت ربیع بنت مسعودؓ کا نکاح ہوا تو ان کے پاس چند لڑکیاں بیٹھی دف بجارہی تھیں اور اپنے ان بزرگوں کی تعریف میں کچھ اشعار گا رہی تھیں جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے، ایک لڑکی نے ایک مصرع گایا ہمارے درمیان ایک ایسا نبیؐ ہے جو کل ہونے والی بات کو جانتا ہے۔ آپؐ نے سنا تو فرمایا اس کو چھوڑدو اور وہی گائو جو پہلے گارہی تھیں (بخاری)
-7شادی بیاہ کو خوشی میں اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو کچھ کھلانے پلانے کا بھی اہتمام کیجیے۔ نبیؐ نے خود اپنی شادی میں بھی ولیمے کی دعوت کی اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ آپؐ کا ارشاد ہے اور کچھ نہ ہو تو ایک بکری ہی ذبح کرکے کھلادو (بخاری)
شادی میں شرکت کا موقع نہ ہو تو کم از کم مبارک باد کا پیغام ضرور دیجیے۔ نکاح، شادی اور اسی طرح کے دوسرے خوشی کے موقعوں پر تحفے دینے سے تعلقات میں تازگی اور استواری پیدا ہوتی ہے اور محبت میں گرمی اور اضافہ ہوتا ہے۔ ہاں اس کا ضرور خیال رکھیے کہ تحفہ اپنی حیثیت کے مطابق دیجیے اور نمود و نمائش سے بچتے ہوئے اپنے اخلاص کا احتساب ضرور کرتے رہیے۔