سبین لاہور کے ایک مہنگے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھاتی ہے۔ اسکول کی ڈیمانڈ کے مطابق اُسے اسکول کو بھرپور وقت دینا پڑتا ہے۔ اس کی شادی کو ڈھائی سال گزر چکے ہیں۔ وہ اس اسکول میں اپنی شادی سے پہلے بھی پڑھاتی تھی۔ اس کے شوہر دانش کی جاب بھی اسی شہر میں تھی، اس لیے اسے اسکول کی ملازمت جاری رکھنا مشکل نہ تھا۔ اسے اس اسکول کی اچھی تنخواہ بھی مائل کرتی تھی۔ دانش کی طرف سے اجازت بھی تھی اور ساتھ بھی۔ اس لیے اُس نے شادی کے بعد بھی اسکول میں پڑھانا جاری رکھا۔
سسرال دوسرے شہر ملتان میں ہے جہاں وہ شادی کے شروع کے صرف دو ماہ ہی رہی۔ بعد میں ان دونوں میاں بیوی کو اپنے اپنے روزگار کے سلسلے میں لاہور میں رہائش اختیار کرنی پڑی۔ لاہور میں سبین کا میکہ بھی ہے۔ یہاں انہوں نے رہنے کے لیے پانچ مرلے کے گھر کا ایک پورشن کرائے پر لے لیا۔ ماہ دو ماہ بعد ان دونوں میاں بیوی کا چکر ملتان بھی لگ جاتا۔ وہ دو دن وہاں ہنسی خوشی چھٹی مناتے اور پھر تازہ دم ہوکر لاہور میں دوبارہ اپنی مصروفیت والی زندگی میں کھو جاتے۔
دو سال بعد اللہ نے انہیں پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ دانش نے سبین کو اور گھر کو سنبھالنے کے لیے نہ اپنے والدین کے گھر سے کسی کو بلایا نہ ہی بیوی کے میکے سے۔ البتہ سبین کی امی شروع کے دس دن سبین کے پاس رکیں۔ ڈلیوری نارمل تھی اس لیے دس دن بعد سبین اپنا گھر سنبھالنے کے قابل ہوچکی تھی۔ اسے بھی انتظام سنبھالنے کے لیے کسی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیوں کہ دانش صرف محبت کرنے والا ہی نہیں بلکہ خیال رکھنے اور گھر کے کاموں میں مدد کرنے والا شوہر تھا۔ شب و روز پُرسکون گزر رہے تھے۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ پھر اس چین کی وادی کا طلسم اس طرح ٹوٹا کہ دانش کی والدہ اور سبین کی ساس مریم اپنی پوتی کو دیکھنے آئیں اور دو ماہ کے لیے ادھر ہی رک گئیں۔ وہ یہاں بیٹے کے گھر میں پہلی بار رہنے کے لیے رکی تھیں۔ اب تک تو سبین کی بھی اکیلے رہنے کی عادت پختہ ہوچکی تھی۔ دوسرا ساس نے ان کے رہن سہن میں بلاوجہ ضرورت سے زیادہ دخل اندازی شروع کردی۔ ساس کو سبین کے ہر کام، ہر عادت اور ہر بات میں اعتراض تھا۔ سبین کا سُکھ دیکھ کر انہیں اپنی بیٹیوں کے دکھ یاد آنے لگتے اور وہ دانش کے سامنے اس کا برملا اظہار بھی کرتیں۔
’’دیکھ! ہمارے گھر آنے والی کیا شاندار راج کررہی ہے اور تمہاری بہنوں کو دکھوں کے سوا کبھی کچھ ملا ہی نہیں۔‘‘
ماں کی بار بار اس طرح کی باتوں نے دانش کے دماغ میں بٹھا دیا کہ آنے والی کے ساتھ سخت رویہ رکھنا سسرال یا شوہر کا بنیادی حق ہے۔ ماں نے دانش کو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے یا بچے کو پکڑے رکھنے سے منع کردیا کہ یہ کام گھر کی عورتوں کے ہیں، مردوں کو زیب نہیں دیتے، ایسا کرنے والے مرد بدھو اور زن مرید کہلاتے ہیں۔
سبین بھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور شوہر کے بدلتے رویّے کو محسوس بھی کررہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ ساس کا یہاں اس کے ہاں قیام عارضی ہے، اس لیے جیسے تیسے کرکے وقت گزار رہی تھی، لیکن چلتے پھرتے ساس کے جلد چلے جانے کی دعائیں اس کی زبان پر جاری رہتیں۔ مگر کبھی کبھار ساس کی باتوں کے سخت جواب اس کی زبان سے بھی نکل جاتے، جو وہ کچھ اپنے خیالات کے اضافے کے ساتھ پوری ذمہ داری سے بیٹے کے کانوں تک پہنچاتیں۔
سبین اپنے لیے سست، کاہل، فضول خرچ، بے عقل، غیر ذمہ دار، جذباتی جیسے القابات برداشت نہ کر سکی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد پھٹ پڑا اور دانش کے ساتھ جھگڑتے ہوئے اس نے صاف کہہ دیا کہ جب سے تمہاری ماں اس گھر میں آئی ہے سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔
دانش اپنی ماں کے لیے سبین کی زبان سے ایسے الفاظ برداشت نہ کر سکا اور غصے میں اٹھ کر دو تین تھپڑ جڑ دیے۔ سبین تو پہلے ہی اس جہنم کدے سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی۔ فوراً اپنی بیٹی کو اٹھایا اور والدین کے گھر کی طرف چل پڑی۔ اب ساس اپنے گھر واپس جا چکی ہیں، سبین اپنے میکے، اور دانش اکیلا اپنے گھر میں بے سکون زندگی گزار رہا ہے۔ یوں چند دنوں میں ایک ہنستا بستا گھر بکھر گیا۔ اب اگر اس کیس پر عمیق نگاہ ڈالی جائے تو تینوں ہی اس صورتِ حال کے کسی نہ کسی صورت میں ذمہ دار ہیں۔ بس کسی کی غلطی زیادہ اور کسی کی کم ہے۔
سب سے پہلے تو ہم گھر کی بڑی کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں جسے بڑی بن کر اپنا بڑا پن دکھانا چاہیے تھا۔ ایسی ماؤں کے لیے تو میں بس ایک بات کہنا چاہوں گی کہ ایک ماں کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے جہاں آپ نے اپنے بیٹے کو جنم دینے سے لے کر اسے پروان چڑھانے تک ہر طرح کی تکلیف، بے آرامی اور مشقت برداشت کی ہے، اپنی ذات کو پسِ پشت رکھ کر ہمیشہ اس کی بھلائی سوچی، وہاں اب اس کا گھر بسانے اور اسے پُرسکون رکھنے کے لیے اپنا دل بڑا کرکے برداشت کا مظاہرہ کریں۔ بہو کی جو عادات ناپسند ہوں یا اس کے کاموں میں کمی کوتاہی دیکھیں تو مکمل نظرانداز کریں۔ عمر بڑھنے اور وقت کے ساتھ وہ خود ہی سیکھ جائے گی۔ بہو کو اگر اللہ تعالیٰ سُکھ کی زندگی دے رہا ہے تو اس پر خوش ہوں کہ آپ کے گھر کو اللہ تعالیٰ نے اس بچی کے لیے نعمت کدہ بنایا ہے اور آپ کا بیٹا اپنی ازدواجی زندگی کے امتحان میں کامیاب جا رہا ہے، نہ کہ اس کا موازنہ اپنے ماضی یا اپنی بیٹیوں کی تلخ زندگیوں سے کریں۔ اس طرح کرکے آپ بہو کے دل سے اپنی قدر ختم کردیں گی اور بہو کے خلاف بیٹے کے کان بھر کر آہستہ آہستہ بیٹے کے دل سے بھی اپنی قدر گنوا دیں گی۔ دوسرے نمبر پر دانش کی غلطی نظر آتی ہے۔ اسے حالات کی حقیقت کو اپنی نظر سے دیکھنا چاہیے تھا، نہ کہ ماں کی عینک سے۔ اگر اُس پر اُس کی ماں کے حقوق تھے تو بیوی کے بھی کم حقوق نہیں تھے۔ اسے حکمت سے کام لے کر اپنے دونوں رشتوں کو نبھانا چاہیے تھا۔ ماں کی باتوں میں آکر بیوی سے اکھڑ مزاجی اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ماں نے جب بیوی کے ساتھ گھر کا کام کرنے سے منع کیا تو اسے خود اپنی ماں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دے کر سمجھانا چاہیے تھا، کیوں کہ سبین کا ابھی زچگی کا نازک دور ہی چل رہا تھا۔ جب سبین نے اس کے رویّے سے تنگ آکر اپنے گھر کی بے سکونی کا ذمہ دار اس کی ماں کو ٹھیرایا تو اُس نے معاملے کو سمجھنے کے بجائے سبین کو تھپڑ مار کر مزید غلطی کردی۔ اپنے گھر کا سکون خراب کرکے اس نے خود ہی سبین کو اپنی ماں کے خلاف بھی کیا۔
اب آتے ہیں سبین کی طرف۔ زندگی کے یہ اتار چڑھاؤ ہی تو زندگی کا امتحان ہوتے ہیں۔ آندھی طوفان میں وہی درخت اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے جو ہوا کے رخ کے موافق جھک جاتا ہے۔ اکڑ کر کھڑا رہنے والا درخت جڑ سے ہی اکھڑ جاتا ہے۔ وہ ان دو مہینوں کو اپنی آزمائش سمجھ کر گزار لیتی۔ ساس سے خشک مزاجی اختیار کرکے انہیں مزید شکایت کا موقع نہ دیتی۔کبھی اُن کے سر میں تیل لگا کر، کبھی کچھ اضافی خدمت کرکے، اُن کی باتوں سے درگزر کرکے، کبھی اُن کے ساتھ محبت کے دو چار بول بول کر اپنے لیے اُن کے دل میں محبت کی جوت جگاتی۔ محبت اور توجہ ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی اپنا بنا سکتی ہے۔ اسے دانش کے سامنے اس کی ماں کے خلاف ایسے سخت الفاظ نہیں بولنے چاہیے تھے۔ ماں چاہے جیسی بھی ہو بیٹے کے لیے سرعام اس کے خلاف سننا مشکل ہوتا ہے۔
یہ زندگی تو عارضی ہے، ایک مسلمان کے لیے رشتے نبھانا ہی اِس دنیا کا ایک بڑا امتحان ہے۔ اگر اس امتحان میں کامیاب ہو کر اللہ کے حضور سرخروئی اختیار کرنی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارک کے مطابق چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں سب رشتوں کو خلوص کے ساتھ نبھانا ہے، ورنہ آخرت کے خسارے سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ ہی وہاں ہمارے حصے کی سزا کوئی اور بھگتے گا۔