(ایک سچی کہانی، جس کے کردار فرضی ہیں)
استنبول میں سردیوں کا خوب صورت موسم اپنے جوبن پر تھا۔ یخ بستہ پارک میں سورج کی سنہری کرنیں ہلکی ہلکی تپش سے ماحول میں ایک تازگی پیدا کررہی تھیں۔
تانیہ اپنی بیٹی کو دھوپ لگوانے پارک لائی تھی اور ایک بینچ پہ بیٹھی تھی کہ اسے آج پھر وہی ٹرکش لڑکی زہرہ اپنی طرف آتی دکھائی دی۔
زہرہ نے آتے ہی گرم جوشی سے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اپنائیت سے سلام کیا، تو تانیہ نے بھی گلے لگاکر اسے سلام کا جواب دیا۔
’’کہاں غائب تھیں تم، اتنے دنوں سے نظر ہی نہیں آئیں؟‘‘ ساتھ ہی تانیہ نے اپنائیت بھرا شکوہ بھی کیا۔
’’کیا بتاؤں تانیہ! بس گھر والوں کو راضی کرنے میں مصروف تھی۔‘‘
’’خیریت ہے بھئی، کیا بات منوانی تھی تمہیں جو اتنے جتن کررہی تھیں؟‘‘
’’یاد ہے میں نے ذکر کیا تھا کہ میرا کلاس فیلو مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے، اور گھر میں اسی حوالے سے بات چیت چل رہی تھی۔ پہلے تو کوئی نہیں مان رہا تھا دیوران سے شادی کے لیے، لیکن الحمدللہ اب سب راضی ہوگئے ہیں۔‘‘
’’اوہو، تو یہ بات تھی زہرہ کہ تم اتنے دن پارک نہیں آئیں!‘‘
’’ہاں تانیہ! انہی چکروں میں اتنی مگن تھی کہ نہ دن کا ہوش تھا نہ رات کا۔ بس ایک دعا اور خواہش تھی کہ کسی طرح سب راضی ہوجائیں۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ سب نے رضامندی دی اور دیوران سے رشتہ فائنل ہوگیا۔‘‘
’’ماشاء اللہ زہرہ! اللہ نے تمہاری سن لی۔ یہ تو بہت خوشی کی خبر ہے۔ اچھا یہ بتاؤ شادی کب ہے تمہاری؟‘‘
’’دو ماہ بعد کی تاریخ طے ہوئی ہے۔ تانیہ! اب ہمیں ایک ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، جو رکاوٹ بن رہے تھے اب وہ خوشی سے سب کررہے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں تانیہ! میری چاہت دیوران میرا شریکِ سفر بننے جارہا ہے… اور ہاں سنو! تمہیں میری شادی میں ضرور آنا ہے۔ میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں زہرہ! میری پیاری سی بہن جیسی دوست کی شادی ہے، میں ضرور آؤں گی اِن شاء اللہ۔‘‘
اچھی خاصی دھوپ سینک لینے کے بعد دونوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔
…٭…
تانیہ بہت خوش تھی کہ اس کو پہلی مرتبہ ترکی میں شادی اٹینڈ کرنے کا موقع مل رہا تھا۔
’’ارے صائمہ باجی کو بتاتی ہوں، وہ بھی سن کر بہت خوش ہوں گی۔‘‘ تانیہ نے صائمہ باجی کو بھی اپنی خوشی میں شریک کرنے کا سوچا جو کراچی میں رہتی تھیں۔ ویسے بھی تانیہ اپنے دل کی ہر بات اپنی صائمہ باجی سے لازمی کرتی تھی۔
…٭…
آج جب تانیہ پارک پہنچی تو خلافِ توقع زہرہ کو پہلے سے موجود پایا۔ اس کے چہرے پر پریشانی اور الجھن کے آثار صاف دیکھے جا سکتے تھے۔
تانیہ کی حیرانی اور سوالیہ نظروں کو بھانپ کر زہرہ نے کہا کہ وہ کچھ الجھی ہوئی ہے۔
’’مجھ پر بھروسا کرو زہرہ! مجھے بتاؤ کیا بات ہے، میں تمہاری الجھن کو سلجھانے کی پوری کوشش کروں گی۔‘‘
’’اچھا تو پھر یہ بتائو کہ تم جانتی ہو ’’احمدی مسلم‘‘ کون ہوتے ہیں؟‘‘
’’احمدی مسلم…؟‘‘ تانیہ نے زیر لب دہرایا اور پھر کہا ’’کیوں زہرہ! خیریت، تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ ویسے ادھر ترکی میں تو احمدی مسلم بہت کم ہوتے ہیں، ایسی صورت میں تمہارا یہ سوال…؟ مجھے بتاؤ میری بہن اصل ماجرا کیا ہے؟‘‘
تانیہ کے کھٹکنے پر زہرہ نے بتایا کو دیوران اصل میں احمدی مسلم ہے۔ یہ سن کر تانیہ کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ پاؤں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ اپنی حالت کو کنٹرول کرکے تانیہ نے بس اتنا پوچھا کہ ’’کیا دیوران بھی ٹرکش ہے؟‘‘
’’ہاں بھئی دیوران اور میں ٹرکش ہیں… اور بہت عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ لیکن یہ بات ابھی پتا چلی کہ وہ احمدی مسلم ہے۔‘‘
تانیہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور زہرہ کو بتایا کہ ’’احمدی اصل میں تو اپنے آپ کو مسلم ہی کہتے ہیں، ان کے حال احوال، حلیے، طور طریقے، عبادات سب بالکل مسلمانوں جیسے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک اللہ اور محمدؐ کو نبی مانتے ہیں لیکن درحقیقت یہ مرزا غلام قادیانی کو اپنا آخری نبی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ محمدؐ ہمارے آخری نبی ہیں۔ لیکن خود کو احمدی مسلم کہنے والے اسلام کی شناخت استعمال کرکے اسلام کو کمزور کرنے والے گروہ کا نام ہے۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں تمہاری بات!‘‘ زہرہ نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’ایک بات بتائو زہرہ! نبی کریمؐ کے متعلق ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ یہی نا کہ نبیوں کی تعداد حضورؐ کے دنیا میں تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے۔ حضورؐ کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کسی بھی انسان کو نبوت یا رسالت نہیں ملے گی۔ یعنی تاقیامت نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ نہیں ہوگا۔‘‘
’’بالکل تانیہ! میرا یہی عقیدہ ہے الحمدللہ…‘‘
’’اچھا، اب اگر کوئی ان کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرے تو کیا تم اس کو نبی مان لو گی؟‘‘
’’نہیں ہرگز نہیں۔ تانیہ! اگر کوئی یہ بات مان لے گا تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اور میرے لیے اپنا دین اسلام وہ قیمتی متاع ہے جس کے لیے میں اپنا سب قربان کرسکتی ہوں۔‘‘
’’شاباش میری بہن! اللہ تم سے راضی ہو… اب سنو، اس شخص مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ حضورؐ سے افضل ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے (نعوذباللہ)۔ اپنے آپ کو مسیح موعود بھی کہتا ہے اور وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا قائل ہے۔‘‘
تانیہ نے گوگل سے ڈھونڈ کر مرزا غلام قادیانی کی تصویر زہرہ کو دکھائی جس کو دیکھ کر زہرہ کے چہرے کا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا۔
زہرہ کے دل کے ایمان کی حرارت محسوس کرکے تانیہ نے اس کو مزید بتایا کہ ’’اس کو ماننے والے قادیانی اور مرزائی کہلاتے ہیں لیکن وہ خود کو احمدی مسلمان کہتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کے لیے احمدیہ کمیونٹی کا لقب استعمال کرتے ہیں۔ اور ہم سب مسلمانوں کو جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں، کافر کہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ…! تانیہ اتنا گھناؤنا جرم…! ہمارے پیارے نبیؐ کے منصب پر ڈاکا، اور میں ایسے شخص کو اپنا شریکِ سفر بنا لوں، جو اُس کو نبی مانے جس کی تم نے ابھی تصویر مجھے دکھائی…! نہیں تانیہ نہیں، ہرگز نہیں۔ میں اپنی محبت تو کیا، دنیا کی ہر نعمت قربان کر سکتی ہوں لیکن آپؐ کے بعد کسی کو نبی ماننے والے کو… آگے سوچنا بھی میرے لیے محال ہے۔ یااللہ مجھ پر اپنا فضل کر، مجھے ہمت دے، میں اپنی محبت کو قربان کرسکوں۔‘‘
’’زہرہ! میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ تم فکر نہ کرنا۔‘‘
زہرہ نے تانیہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر آنسوؤں سے بھری آواز سے کہا: ’’تانیہ تم نے مجھے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اگر مجھے عربی زبان سے واقفیت نہ ہوتی تو ہم کبھی دوست نہ بن سکتیں۔ زبان سے واقفیت کی اہمیت کا اندازہ مجھے آج ہوا۔‘‘
’’اچھا ایک بات بتاؤ، کیا تم دیوران کو یہ سب سمجھا سکتی ہو؟‘‘
’’ہاں ایک کام ہوسکتا ہے۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘
’’اگر تم مجھے ٹرکش میں لکھا ہوا کوئی مواد سینڈ کردو تو وہ میں دیوران کو پڑھوا کے سمجھا سکوں گی۔‘‘
’’نہیں میرے پاس تو ٹرکش میں ایسا کوئی مواد نہیں۔ میری بہت اچھی باجی ہیں، صائمہ باجی، میں اُن سے معلوم کرکے تمہیں بتاتی ہوں۔ ان کا تعلق ختمِ نبوت ٹیم سے ہے۔ اس لیے اُن کے پاس یقینا ہوگا۔‘‘
’’ختمِ نبوت ٹیم؟ میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’میری بہن! یہ قادیانی لوگ پوری دنیا میں اپنے باطل مذہب اور نام نہاد نبی کو عام کررہے ہیں تو ہم محمدؐ کو آخری نبی ماننے والوں کو نہ صرف اپنے عقیدے کی حفاظت کرنی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے عقیدے کے لیے بھی فکر اور کوشش کرنی ہے، اور اس فکر اور کوشش میں لگی جماعت کو ختمِ نبوت جماعت یا ٹیم کا نام دیا جاتا ہے جو لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ عقیدۂ ختمِ نبوت اسلام اور اہلِ سنت والجماعت کے ان بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے جن کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اسلام کے اصول اور ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اگر یہ عقیدہ مجروح ہوجائے تو بندے کے دامنِ ایمان میں کچھ باقی نہیں بچتا۔ اس لیے قرآنِ مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری نجات کے لیے توحید و رسالت، قیامت، معاد و حشر کے عقیدے کو ایمان کا جزوِ لازم ٹھیرایا ہے، وہیں عقیدۂ ختم نبوت کو بھی ایمان کا جزوِ لاینفک قرار دیا ہے جس سے ذرہ بھر بھی تجاوز دنیا اور آخرت کا خسارہ ہے۔ لہٰذا عہدِ نبویؐ سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آپؐ بغیر کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔ اگر آپؐ کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے دعویٰ نبوت میں کوئی صداقت نہیں ہے، وہ محض جھوٹا اور کذاب ہے۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے! لیکن تانیہ یہ بتاؤ کہ کیا ختمِ نبوت والے ترکی میں یہ محنت نہیں کرتے؟‘‘
’’ضرور کرتے ہوں گے، میں آج ہی صائمہ باجی سے اس پر بات کروں گی۔ تم بالکل پریشان نہ ہونا زہرہ۔ تم نے نبیؐ کی ناموس پر اپنی محبت کو قربان کیا ہے، اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرمائیں گے اِن شاء اللہ۔اچھا دوست کل ملتے ہیں۔ خدا حافظ۔‘‘
…٭…
تانیہ نے گھر پہنچنے کے فوراً بعد ہی صائمہ باجی کو میسج کردیا کہ آج مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔
صائمہ باجی نے کہا کہ ہم رات کوبات کرتے ہیں۔
صائمہ باجی نے سلام کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ ’’کیسی رہی ٹرکش شادی؟‘‘
’’شادی…؟ وہ تو کینسل ہوگئی۔‘‘
’’اچھا، وہ کیوں؟‘‘
پوری کہانی سننے کے بعد صائمہ باجی نے کہا ’’یہ قادیانی دن بہ دن معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں اور ہم لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔ اب دیکھو نا ہمارے پاس مرزا غلام قادیانی اور اُس کے مذہب کے تعارف کا ٹرکش میں لکھا ایک چھوٹا مضمون تک نہیں ہے۔‘‘
’’کیا واقعی باجی؟‘‘
’’ہاں تانیہ! اُس دن بھی جب تم نے بتایا کہ ادھر ترکی میں بہت سے لوگ قادیانی بیعت فارم فل کر چکے تو میں نے اپنے استاد ِمحترم سے اس بارے میں پوچھا تھا، اور انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ بتایا کہ ہمارے پاس ٹرکش میں کوئی مواد نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوگا باجی؟ میں نے اپنی بات زہرہ کو تو سمجھا دی لیکن دیوران کو سمجھانے کے لیے تو…‘‘ دونوں ہی سوچ میں پڑ گئیں، لیکن کوئی حل سمجھ نہ آیا۔
…٭…
تو پھر میں نے یعنی صائمہ باجی نے یہ سوچا کہ میں اس کہانی کو قلمبند کروں اور اس کہانی کے ذریعے دردِ دل سے اپنا پیغام اپنے معزز علمائے کرام اور مجاہدینِ ختمِ نبوت تک پہنچاؤں کہ خدارا اتنی محنت تو کریں جتنی قادیانی اپنے جھوٹے نبی کو منوانے کے لیے کر رہے ہیں۔
قادیانی اپنا لٹریچر ہر زبان میں چھاپ رہے ہیں تو ہم کم از کم ہر زبان میں ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ و خاتم النبین کی تفسیر کو عام کریں اور مرزا غلام قادیانی کے عزائم سے لوگوں کو آگاہ کریں تو اِن شااللہ بہت سے لوگ قادیانی ہونے سے بچ جائیں گے۔
یہاں میں اپنی ایک آپ بیتی آپ سے شیئر کرتی چلوں کہ ترکی کے سفر میں، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ ٹور گائیڈ سے قادیانیت سے متعلق بات کریں۔
میرے شوہر نے اس سے سوال کیا کہ’’ وہ قادیانیوں کے متعلق کچھ جانتا ہے؟‘‘ اس کے نفی کے جواب میں میرے شوہر نے انگلش میں اس سے سوال کیا کہ ’’کیا محمدؐ کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے؟‘‘
اس نے کہا ’’نہیں‘‘، تو میرے شوہر نے اس کو گوگل سے نکال کر مرزا غلام قادیانی کی تصویر دکھائی اور پوچھا ’’کیا آپ اس کو نبی مان سکتے ہیں؟‘‘
اس نے نہایت جوش سے جواب دیا ’’نہیں ہرگز نہیں۔‘‘
ہر مسلمان کے دل میں اللہ نے نبی پاکؐ کی جو عظمت و محبت رکھی ہے، ضرورت اس محبت کی چنگاری کو ہوا دینے کی ہے۔کاش میری یہ گزارش علمائے کرام اور مجاہدینِ ختم نبوت تک پہنچ جائے۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنے دین کی محنت اور اپنے حبیبؐ کی ناموس کی حفاظت کے لیے چن لیں اور قیامت تک آنے والے فتنوں سے ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائیں،آمین۔