چین کے شہر ہانگزو میں منعقدہ 19ویں ایشین گیمز اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں، پاکستان نے بدترین کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بھی گولڈ میڈل حاصل نہ کرکے اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا۔ ان گیمز میں پاکستان نے 24 کھیلوں میں حصہ لیا جس کے لیے 190 کھلاڑی بھیجے گئے اور ساتھ میں 72 آفیشلز بھی گھومنے پھرنے گئے۔ اِس مرتبہ ایشین گیمز میں پاکستان کی کُل جمع پونجی چاندی کا صرف ایک اور کانسی کے دو تمغے ہیں۔ حالانکہ 2018ء میں انڈونیشیا میں منعقدہ ایشین گیمز میں پھر بھی ایک تمغہ زیادہ جیتا تھا، یعنی گزشتہ ایشین گیمز میں پاکستان نے کانسی کے صرف چار تمغے جیتے تھے، جبکہ اُن کھیلوں میں 256 کھلاڑی شریک ہوئے تھے۔ اِس مرتبہ پاکستان نے چاندی کا تمغہ اسکواش کے مینز ٹیم ایونٹ میں جیتا۔ نور زمان بھارت کے خلاف فیصلہ کن میچ میں جیت کے بہت قریب آکر فتح سے دور ہوگئے یہ سوچنے کا مقام ہے۔ پاکستان نے کانسی کا ایک تمغہ دس میٹر فائر پسٹل میں کشمالہ طلعت کے ذریعے جیتا، جبکہ دوسرا کانسی کا تمغہ کبڈی ٹیم نے جیتا۔ اس طرح پاکستان 45 ممالک کی میڈل ٹیبل پر 31 ویں نمبر پر رہا۔
اس مرتبہ کرکٹ کو بھی ایشین گیمز کا حصہ بنایا گیا، اور دیگر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی اپنی بی ٹیم اس ایونٹ کے لیے بھیجی جس میں بیشتر انٹرنیشنل کھلاڑی بھی تھے، اور پھر امید باندھی گئی کہ پاکستان کرکٹ میں ہر صورت گولڈ میڈل حاصل کرے گا۔ مگر ہم نے پہلے افغانستان سے سیمی فائنل ہارا، پھر بنگلہ دیش سے تیسری پوزیشن کا میچ بھی ہار گئے، اور اس طرح کرکٹ میں بھی کوئی تمغہ حاصل نہیں کرسکے۔ پھر قومی کھیل ہاکی کو دیکھ لیں، اِس بارہم پہلی مرتبہ ایشین گیمز کے سیمی فائنل تک پہنچنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس سے زیادہ برا وقت ہاکی کے کھیل پر نہیں آسکتا۔ حالانکہ ہاکی کے میدان میں ایشین گیمز میں ہم نے 8مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کیاہے، اس کے علاوہ ہم 3 بار اولمپک چیمپئن رہے، 4مرتبہ ہاکی ورلڈ کپ جیتے، 3 مرتبہ چیمپئنز ٹرافی جیتے اور 3 مرتبہ ہی اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ جیتے۔ اب یہ ٹیم ایشیا کی چند ٹیموں میں بھی آخری نمبروں میں رہی تو یہ باعثِ شرم بات ہے۔ پھر ارشد ندیم انجری کی وجہ سے جیولن تھرو سے دست بردار ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے ایک ممکنہ میڈل نہ مل سکا۔ ٹیم اسکواش میں شاندار کارکردگی رہی تاہم انفرادی اسکواش میں ناکامی کا سامنا رہا، پاکستان کے رنر اور سوئمر اکثر مقابلوں میں آخری نمبر پر ہی آئے۔
پاکستان کے تیز ترین ایتھلیٹ شجر عباس اور تامین خان ہیٹس سے آگے نہ جاسکے۔ تائی کوانڈو ،کراٹے، ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ میں بھی پاکستانی ایتھلیٹ میڈل نہ لاسکے۔ اور رہی بات ٹینس کی، تو عقیل خان اور اعصام الحق قریشی 43۔43 سال کی عمر میں ٹینس کھیل رہے ہیں تو اس میں قصور اُن کا نہیں بلکہ پاکستان ٹینس فیڈریشن کا ہے کہ اُس نے ابھی تک نوجوان ٹیلنٹ تلاش ہی نہیں کیا جسے وہ اعتماد کے ساتھ ایشین گیمز میں بھیج سکے۔ آخر فیڈریشن کب تک عقیل خان اور اعصام الحق سے کام چلائے گی اور ان کی کارکردگی پر فنڈ کھاتی رہے گی؟
باکسنگ میں پاکستان نے ماضی میں مجموعی طور پر 6 گولڈ میڈل جیت رکھے ہیں، لیکن اب وقت کے ساتھ یہ تمغے بھی غائب ہوچکے ہیں اور باکسنگ کی سمجھ بوجھ رکھنے والی شخصیات بھی منظر سے غائب ہیں۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ جو کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور کوچنگ کا ذمہ دار ہے دراصل وہی اس کھیل کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بتایا جاتا ہے۔ جب کہ 4 سال تک ہر طرح کی مالی امداد اس سے ہی حاصل کی جاتی ہے، کیوں کہ یہ ادارہ حکومتوں کی بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے ہر دور میں بننے والے مختلف وزیروں کے تابع ہے۔ اسپورٹس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل بھی ہر دورِ حکومت میں تبدیل ہوتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنی پسند کا ڈائریکٹر جنرل لاتی ہے۔
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو دیکھ لیں، ایک عرصے سے سید عارف حسن اس عہدے پر براجمان ہیں، مگر مجال ہے کوئی بہتری آئی ہو، بلکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتی ہے کہ کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور کوچنگ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کی ذمہ داری ہے، ہَم تو ڈاک خانے کا کام کرتے ہیں، ہمارا میڈل جیتنے یا کھلاڑیوں کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں۔
فٹ بال کو دیکھ لیں، ہمارا تو رینکنگ میں بھی کہیں نام نہیں آتا۔ فٹ بال میں آج تک پاکستانی ٹیم نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے ذریعے بڑوں کے وارے نیارے ہوتے رہے ہیں، اور ان میں فیصل صالح حیات پیش پیش ہیں۔ وہ 2003ء سے فٹ بال فیڈریشن کے (تقریباً تاحیات) صدر)ہیں کیونکہ گزشتہ بیس برس سے تاحال‘ ہر مرتبہ وہ چار سال کے لیے صدر منتخب ہو جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ اُن کی صدارت میں فٹ بال ٹیم نے کوئی ’’معرکہ‘‘ سر کیا ہو یا کبھی کوئی اچھی خبر سننے کو ملی ہو۔ ہمارے کھلاڑیوں کو تربیت اچھی نہیں ملتی۔ دنیا میں اسپورٹس کو سائنسی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے جب کہ ہمارے ملک میں و ہی فرسودہ نظام تربیت ہے۔
حد یہ ہے کہ یہ ادارے تو شہروں یا شہروں کے باہر آج تک نئے گرائونڈ ہی نہیں بنا سکے۔ ایک وقت تھا جب اس شہر میں 70سے زائد گرائونڈ ز ہوا کرتے تھے، لیکن اب یہ تمام قبضہ گروپوں اور حکومتوں کی طرف سے ختم کر دیے گئے ہیں۔یہی حال کراچی کا ہے۔ چائنا کٹنگ میں بڑے بڑے گراؤنڈ قبضہ مافیا کھا گیا،اور کاغذوں میں اسپورٹس سٹی بنا دیے گئے۔
25کروڑ آبادی والے ملک کاایک چاندی اور دو کانسی کے تمغے لینا کس قدر شرمناک بات ہے، جبکہ بھارت نے اس وقت میڈلز کی سنچری بھی مکمل کر لی ہے۔ پھر چین 383 تمغوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جن میں دو سو طلائی تمغے ہیں۔ جاپان 188 تمغوں کے ساتھ دوسرے، کوریا 190کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جاپان نے 52 طلائی جبکہ کوریا نے 42 طلائی تمغے جیتے ہیں اس لیے جاپان دوسرے نمبر پر ہے، وگرنہ تمغے کوریا کے زیادہ ہیں۔ اس بار تو عرب میڈیا بھی چیخ اٹھا ہے اور اکثر اخبارات میں سرخیاں لگائی گئی ہیں کہ ’’پاکستان نے ایک بار پھر مایوس کیا ہے‘‘۔
ہمارے اسپورٹس کے کرتا دھرتا کھیل کے معیار کے بجائے ہمیشہ تعداد پر توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی کھیلوں میں کارکردگی ایسی ہوتی ہے کہ شرم کے مارے ان کا ذکر بھی نہ کیا جا سکے۔ اسکولوں کی سطح سے بچوں کو کھیلوں کی جانب راغب کیے بغیر اس مسئلے سے نمٹنا مشکل ہے۔ یہ نہیں کہ کچھ بچوں کو کلاس میں کھیلوں کے لیے سلیکٹ کیا جائے۔ کھیل تمام بچوں کے لیے لازمی ہونے چاہئیں، اور پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ پر بھی نظر رکھی جانی چاہیے جس نے ہمارے ملک کے اسپورٹس کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان اسکولوں کے پاس نہ گرائونڈ ہیں، نہ ہی ہال۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچے جب 10-12 سال کھیلوں سے دور رہیں گے تو ٹیلنٹ کہاں سے آئے گا! کھیل سے دماغ چست اور جسم توانا رہتا ہے۔ موبائل اسکرین پر مسلسل کئی گھنٹے گزارنے والی نسل کئی طرح کے نفسیاتی عوارض اور بیماریوں کا شکار ہورہی ہے جس کا علاج صرف اور صرف کھیل اور جسمانی ورزش ہے، اور اس بار ے میں سنجیدگی سے نہ سوچا گیا تو ایسی منتشر الخیال نسل پروان چڑھے گی جو چاند پر جانے کے بجائے ’’چن‘‘ چڑھانے میں پیش پیش ہوگی۔