خود غرضی انسانی جبلت کا وہ منفی پہلو ہے جو دنیا داری اور ہوس زر کے کوکھ سے پیدا ہوتا ہے۔ تاریخ میں یہ بات رقم ہے کہ پتھر کے دور کا انسان تنہا جیتا تھا اور خود کے لیے جیتا تھا۔ اس کا نہ کوئی خاندان تھا نہ کوئی قبیلہ اور نہ ہی معاشرتی زندگی کا کوئی نظام تھا۔ بس وہ تھا اور اس کی ذات تھی۔
مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسانوں کی خدمت اور غم گساری کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے جسم میں دھڑکتا ہوا دل دیا ہے جو خوشی اور غم کو محسوس کرتا ہے۔
میر درد ؔنے اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
٭
بانٹ ڈالے ہم نے ایسے دل کے ٹکڑے کاٹ کر
جنم دن پہ بانٹنے ہیں کیک جیسے کاٹ کر
( انکت موریا)
خود غرضی انسان کو پتھر دل بنا دیتی ہے۔ خود غرض انسان صرف اور صرف اپنے فائدے کی سوچتا ہے‘ اُس کے لیے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آج کے دور کو مادہ پرستی کا دور کہا جاتا ہے اور مادہ پرستی ہی خود غرضی کی ماں ہے۔
آج جن ملکوں کو ہم ترقی یافتہ ممالک میں شمار کرتے ہیں وہاں کا خاندانی نظام با لکل تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ نیویارک ٹائمز میں تصویر کے ساتھ ایک اسٹوری چھپی تھی کہ ایک نوجوان لڑکی ایک اپارٹمنٹ کے نیچے رو رہی تھی اخبار کے رپورٹر نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگی ’’میرے باپ نے مجھے گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا ہے کہ دوسرا شخص تم سے زیادہ کرایہ دے رہا ہے۔‘‘
آج ترقی یافتہ دنیا میں اولڈ ایج ہوم اسی خود غرضیوں کا تحفہ ہے۔ اب تو یہ بیماری ہندوستان، پاکستان اور تیسری دنیا میں بھی پھیل چکی ہے۔ مادہ پرستی اور زر پرستی جو خود غرضی کی نرسری ہے‘ اس نے والدین جیسی ہستیوں کو بھی بے سہارا کر دیا ہے۔
جاپان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہاں ایک مقدس پہاڑ ہے جہاں لوگ معذور اور لاعلاج مرض میں مبتلا اپنے ماں باپ کو اُس پہاڑ کے نیچے لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر کسی گھر میں تمام افراد نوکری نہ کریں تو گزارہ ہو نہیں سکتا‘ وہاں کوئی کسی کی کفالت کا روادار نہیں۔
اگر اقوام متحدہ کے ادارے اور خدمت خلق کے فلاحی ادارے نہ ہوتے تو جنگوں اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے لاکھوں انسانوں کی داد رسی ممکن نہیں ہوتی۔خود غرض انسان میں اَنا کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ یہ متکبر بھی ہوتا ہے اور اپنے سے کم حیثیت والے سے نفرت بھی کرتا ہے جب کہ اپنے سے برتر حیثیت والے سے حسد کرتا ہے۔ لہٰذا یہ فطرت اس کو سماجی اعتبار سے تنہا کر دیتی ہے۔
خود غرض انسان جب ملک کے اداروں میں کسی منصب پر فائز ہوتا ہے تو عوامی مفادات کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور ہر طرح کے بدعنوانی کے ذریعے قومی خزانے کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ اگر اتفاق سے ایسا فرد ملک کا صدر، وزیراعظم یا سپہ سالار بن جائے تو الاماں الحفیظ۔
ہندوستان پر مسلمان حکمرانوں کا زوال اسی خود غرضانہ عیش پرستی کا نتیجہ تھا۔ ترکی کی خلافت کے آخری ایام میں خلیفہ کی نا اہلی اور درباری چپقلش نے تین براعظموں پر قائم خلافت کا دھڑن تختہ کر دیا جب برطانوی سامراج کا سورج نصف النہار پر تھا تو مسلم دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دی گئی اور لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔آج بھی امریکی اور اشتراکی جارحیت نے گزشتہ نصف صدی میں 50 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ہلاک کرکے ان کے ملکوں پر قبضہ کیا ہے۔
Men are being slaughtered for glory sake and to take over their national wealth.
انسان اپنی بالادستی کے لیے ذبح کیے جا رہے ہیں اور ان کے املاک اور وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ تازہ مثال عراق، شام، لیبیا، افغانستان، فلسطین اور کشمیر کی ہے۔ یوکرین کی جنگ بھی روس اور پیوٹن کی خود غرضی اور ہوس پرستی کا نتیجہ ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اور دنیا بھر کے سرمایہ دار صرف اور صرف خود غرضیوں کی وجہ سے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا اپنی ضرورت سے زائد گندم کو سمندر برد کر دیتے ہیں مگر غریب ممالک کو نہیں دیتے تاکہ وہ عوام کا استحصال کر سکیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ جب ایک اولاد خود غرضی کی وجہ سے اپنے بوڑھے والدین سے نظر پھیر لیتی ہے تو وہ کس طرح صاحبِ منصب اور صاحبِ اختیار ہو کر عوام بھلائی کرے گی۔
یورپ کے بارے میں یہ بات حقائق پر مبنی ہے کہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد خوش گوار عائلی اور ازدواجی زندگی سے محروم ہیں۔ ان کی شادیاں چند ماہ یا سال دو سال کی ہوتی ہے۔ ہوس زر اور جنس نے پورے معاشرے کو بازار میں تبدیل کردیا ہے اور بدقسمتی سے اس کے اثرات پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی نظر آرہے ہیں۔ عرب دنیا میں نکاح مسیار کو عملاً اجازت مل گئی ہے جس میں شوہر بیوی کی کفالت سے بری الذمہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش جو کہ مسلم ملک ہے‘ وہاں زنان بازاری کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔
پاکستان میں ایک 72 سالہ بڑ بولے اور ہر دور میں وزارت کا مزا لوٹنے والے سیاست دان سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ ’’آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘ تو اس نام نہاد قومی لیڈر نے بڑی بے شرمی سے کہا کہ ’’جب دودھ دکان سے مل جاتا ہے تو بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
باورچی ہانڈی کے چند دانوں کو ٹٹول کر دیکھتا ہے اور پتا چلا لیتا ہے کہ گَل گیا ہے کہ نہیں ٹھیک اسی طرح قومی مزاج اور فرد کے رویے مجموعی شناخت بن جاتے ہیں۔ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں۔
خود غرضی نے مسلمانوں کے مشترکہ خاندانی نظام کو منتشر کر دیا ہے۔ دو بھائی بھی ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنے کے روادار نہیں۔ نصف صدی قبل تک اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ قبائلی معاشرے میں بھی اب مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ شہروں میں رہنے والے اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جو بچے اپنے والدین یا بیوی بچوں کو چھوڑ کر نوکری یا بہتر معاش کی تلاش میں غیر ممالک بالخصوص یورپ یا امریکہ جاتے ہیں وہ چند سال میں وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ خال خال ہی اپنے خاندان والوں کی خبر گیری کرتے ہیں۔
ذوقِ ستم جنوں کی حدوں سے گزر گیا
کم ظرف زندہ رہ گئے انسان مرگیا
باہر میں کوئی دوست بھی مخلص نہیں رہا
کم ظرف کم نظر شناسائیاں ملیں
خود غرضی جب سیاسی، مذہبی جماعتوں یا کسی انقلابی تحریک کی قیادت میں پیدا ہو جاتی ہے تو پہلا ردعمل اس کے تنظیمی ڈھانچے میں کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں سامنے آتا ہے اور با لآخر وہ ٹکڑوں میں بٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنی بنا سے اب تک کئی کئی ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں جن کا نام لے کر تذکرہ کرنا مناسب نہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور انقلابی تحریکوں کے پاس بے شمار وسائل اور اختیارات و ذرائع ہوتے ہیں اور اگر وہ بر سر اقتدار بھی ہو تو ان کی قیادت اگر مخلص ہے تو ان کے اندر استحکام در استحکام ہوتا جاتا ہے اور اگر قیادت خود غرض ہو تو وہ اپنی ذاتی مفادات اور شہرت کے لیے حاصل شدہ وسائل کو بے دریغ استعمال کرتی ہے اور نتیجہ تحریک اور جماعتیں اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہیں۔ اَنا پرستی نفرت کے انداز اور خود غرضی کا شجر لگانے والے ظاہراً بڑے درویش صفت لوگ ہوتے ہیں۔
کون رکھے گا ہمیں یاد اس دور خود غرضی میں
حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں