پاکستان کی تباہی میں بیوروکریٹس،خوشامدی سیاستدانوں اور جرنیلوں کا ہاتھ ہے،میں سیاست دانوں کیلئے دعا کرتا ہوںکہ ان کے اندر ملک و قوم کے لئے غیرت آئے
’’مجھے جنرل پرویز مشرف پر کوئی اعتماد نہیں ہے‘ باتیں بہت کرتا ہے‘ بے انتہا مغرور و تکبر ہے اس کے اندر‘ وہ بظاہر تو ملک و قوم کی باتیں کرتا ہے لیکن اس کو درحقیقت اس سے کوئی سروکار نہیں ہے‘ اسے وردی کا نشہ ہے‘ اسے صرف اور صرف اپنی ذات سے غرض ہے۔ میں نے ہر فوجی حکمران کی مخالفت کی ہے چاہے وہ ایوب خان ہو یا ضیا الحق یا کوئی اور۔ ہمیشہ جمہوریت کے لیے آواز بلند کی ہے۔ میں نے اسی لیے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کا بے رحمانہ قتل کیا ہے۔‘‘
یہ الفاظ ہیں سردار شیربازار خان مزاری کے جنہوں نے سیاست میں اچھے نام کے علاوہ کچھ نہیں کمایا۔ سردار شیر باز مزری نے سیاست کو خیرباد کہہ دیا لیکن مفاد پرستی اور اصولوں پر سودے بازی سے انکار کر دیا۔ آج کل سردار شیر بازار مزاری علیل ہیں۔ انہوں نے اپنی علالت کے باوجود گفتگو کے لیے وقت دیا۔ ان سے موجودہ سیاسی حالات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ہم نے جب اکبر بگٹی کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے انتہائی دکھی انداز میں کہا ’’بگٹی میرے بہنوئی تھے۔ فوجی جرنیل جب آتے ہیں اپنے مطلب کے لیے آتے ہیں‘ ان کو اقتدار کی ہوس ہے‘ اس کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے۔ وزیرستان اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے انصاف کے برعکس ہے۔ انہوں نے سندھ کے حوالے سے کہا کہ یہاں تو ایم کیو ایم کی حکومت ہے‘ مشرف کے ساتھ پنجاب کے چودھری ہیں اور ایسے چمچے تو مل ہی جاتے ہیں ان لوگوں کو۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے سوال کے جواب میں سردار شیرباز مزری نے کہا کہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے‘ ان کو رسوا کر رہے ہیں فوجی حکمران اور یہ سب کچھ امریکہ کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ یہ قدیر خان کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ظلم کی انتہا ہے۔ امریکہ ان کو خرچیاں دے دیتا ہے اور یہ اس کے ظلم کے غلام رہتے ہیں‘ امریکہ جو کچھ کہتا ہے‘ یہ کرتے ہیں اور ان ہی خرچیوں پر زندہ ہیں۔ بہت کہتے ہیں کہ بلین ڈالر ہمارے پاس آگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بلین ڈالر کب تک رہیں گے ہمارے پاس؟ ’’ملکی مفاد‘‘ کے نام پر ہمیشہ فوجی جرنیلوں نے امریکہ کا تحفظ کیا ہے۔ ہمیں ان کی 1999ء کی جو پالیسی ہے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا‘ بلکہ ملک و قوم کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر فائدہ ہوا ہے تو ان جرنیلوں کی ذات کو ہوا ہے۔
ملک کی وحدت اور سلامتی کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں میرشیرباز خان مزاری نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں جنرل پرویز مشرف نے جو اقدامات کیے ہیں ان سے ہمارا ملک زیادہ خطرے میں پڑ گیا ہے‘ ہم امریکہ بہادر کے پٹھو بن گئے ہیں۔ کب تک رہیں گے امریکہ تو اپنے مفاد میں کام کرے گا‘ ہمارے لیے تو نہیں کرے گا۔ اس وقت ایران کا کردار شان در ہے‘ ہمیں وہی کردار ادا کرنا چاہیے‘ لیکن ان لوگوں نے اپنی ذات کی خاطر ملک کو قربان کر دیا ہے‘ ہم شروع سے لے کر آج تک امریکی غلام بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں غیرت ہونی چاہیے۔ غیر مند قومیں ہی وقار حاصل کرتی ہیں۔
بلوچستان میں اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکبر بگٹی کے ساتھ بر اہوا ہے‘ وہ میرے بہنوئی بھی تھے۔ وہاں حالات انتہائی خراب ہیں‘ لوگوں میں دکھ موجود ہے۔ وہ اشتعال میں ہیں‘ جب موقع ملے گا وہ پھر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ وہاں لوگوں کے جانے آنے پر پابندی ہے۔ اختیارات کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ صحافیوں پر پابندیاں ہیں۔ اکبر بگٹی سے میری قربت بچپن سے تھی‘ ہم اسکول میں ایک ساتھ پڑھے تھے‘ میں نے بگٹی صاحب سے کہا تھا کہ میں تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں تاکہ ہم مریں تو ساتھ مریں‘ ایک ساتھ شہید ہوں۔ اکبر شہید ہو گیا‘ اس کا بڑا نام ہے‘ بلوچستان میں اس کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ یہ جنرل وغیرہ تو بہت آئے اور گئے‘ جانے کے بعد کون پوچھتا ہے ان کو۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ باتیں تو اسلام اور اصولوں کی کرتے ہیں حالانکہ اسلام تو بہت کچھ سکھاتا ہے‘ مگر بدقسمتی سے ان پر عمل ہم نے نہ مسلمانوں کی حیثیت سے کیا اور نہ بلوچ کی حیثیت سے کیا۔ میں ایک بات کہوں گا ولی خان ہو‘ خان عبدالغفار خان ہوں‘ ان سے سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی اصول پسندی پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس پر کوئی تنقید نہیں کرسکتا۔ بلوچستان کا مستقبل بہت تاریک ہے۔ پرویز مشرف مسئلے کا حل نہیں چاہتا۔ جیسا کہ میں نے کہا وہ بہت مغرور آدمی ہے۔ نواب بگٹی جب زندہ تھے تو اس نے کہا تھا کہ میں ایسا ماروں گا کہ پتا بھی نہیں چلے گا میزائل کہاں سے آیا۔ میر عطااللہ مینگل سے اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد رابطہ نہیں ہوا۔ نواب خیر بخش مری اس وقت بیمار ہیں‘ لیکن بلوچ قوم کے اندر جذبہ ہے جو پھوٹ پڑے گا۔
شیر باز خان مزاری نے وزیرستان کے حوالے سے کہا کہ وہاں لوگوں کو عمومی بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے‘ حکمرانوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان پر قابو پالیں گے‘ انہیں انگریز قابو نہیں کرسکے تو یہ کیا کریں گے۔ ان حالات کی ذمہ دار فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ فوج کے عام سپاہی پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ میں خود بھی فوج میں رہا ہوں‘ ان جرنیلوں کے ذاتی مفادات ہیں‘ ملک کی تباہی و بربادی میں ان جرنیلوں‘ بیورو کریٹس اور بے اصول‘ خوشامدی سیاست دانوں کا ہاتھ ہے جو اقتدار پر قابض حکمرانوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ جس طرح آج چوہدری ہیں اس طرح پہلے بھی ایسے لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ اس قوم اور پاکستان پر رحم فرمائے۔ غریب‘ غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ کیا ہے غریبوں کے لیے‘ سب جھوٹ اور بکواس پر مبنی ہے۔ ہم لوگوں سے ملتے ہیں تو ان کی صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ یہ جو پیسے لا رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ملک میں بہت پیسہ آرہا ہے‘ یہ کہاں جا رہا ہے؟ موجودہ حکومت مفاد پرستوں اور اپنے وفاداروں کو زمینیں تقسیم کر رہی ہے جب کہ غریبوں کے ساتھ ظلم کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ پاکستان کے مفاد کی بات کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ظلم کر رہے ہیں ملک پر اور ملک کے لوگوں پر۔ ملک کی جمہوری و سیاسی صورت حال خراب ہے‘ عوام کا اعتماد انتخابات‘ پارلیمنٹ اور جمہوری عمل سے اٹھ چکا ہے۔ اچھے لوگ اس ملک میں موجود ہیں‘ مجھے امید ہے وہ آگے آئیں گے اور لوگ ان کی سنیں تو صورت حال بہتر ہوگی۔ مشرف کے مخالف لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
شیر باز خان مزاری نے میر بلخ شیر مزاری کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ میرے بھائی ہیں‘ میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ میری ان سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا تمہیں پیپلزپارٹی جوائن کرنا مبارک ہو۔ ملک میں جب بھی فوجی حکمران آئے ہیں ملک کو بے انتہا نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے ملکی مفادات کے خلاف کام کیا ہے۔ ایوب خان نے دریا بھارت کے حوالے کردیے‘ یحییٰ خان کے زمانے میں ملک ٹوٹ گیا‘ ضیا الحق کے زمانے میں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کیا اور سندھ علیحدہ ہوتے ہوتے بچا اور اب کشمیر جنرل مشرف کے دور میں بھارت کو دیا جا رہا ہے‘ بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کو ایک منصوبے کے تحت غیر مستحکم کیا جا رہا ہے‘ ہمارا ملک اس وقت خطرناک موڑ پر داخل ہو چکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سردار شیر باز خان مزاری نے کہا کہ لوگو کا اعتماد سیاست دانوں پر سے بھی اٹھ چکا ہے۔ جب ہم نے تحریک چلائی تھی ایم آر ڈی کے زمانے میں‘ اُس وقت لوگوں کو اعتماد تھا کہ یہ لوگ ہمارے لیے کچھ کریں گے۔ اس وقت لوگ جیلوں میں گئے‘ سزائیں پائیں‘ انسانیت سوز تشدد کیا گیا۔ میں تو سیاست دان نہیں ہوں اور میں ان لوگوں سے بددل ہو چکا ہوں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کی مثال موجود ہے کہ انہوں نے فوج کو کبھی اقتدار کا راستہ نہیں دکھایا۔
انتخابات کے حو الے سے شیرباز خان مزاری نے کہا کہ ماضی میں بھی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے‘ ابھی بھی حزب اختلاف کو الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور میدان میں نکل آنا چاہیے۔ ان جرنیلوں کی موجودگی میں انتخابات ڈھونگ ہیں اور یہ شفاف نہیں ہو سکتے۔ ماضی میں ہم بھی باہر نکل آئے تھے‘ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تھا‘ قربانیاں دی تھیں‘ جیلوں میں گئے تھے۔ لوگوں کو اعتماد ہوا تھا کہ یہ لوگ باتیں ہی نہیں کرتے عمل بھی کرتے ہیں۔ (پھر انہوں نے مسکراتے ہوئے اقبال کا شعر پڑھا:)
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مجھے اس شعر سے بالکل اتفاق ہے۔ میں اوروں کے بارے میں کیا کہوں کہ اب میرے بھائی خود سیاست میں آگئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے سردار شیربازار مزاری نے کہا کہ الطاف حسین پر مجھے اعتماد نہیں ہے‘ وہ صرف باتیں کرتا ہے۔ آج کل تو بڑا چیمپئن ہو گیا ہے‘ وہ تو آج بلوچستان کے حوالے سے بھی باتیں کرتا ہے‘ لیکن (ہنستے ہوئے) ’’صرف باتیں‘‘ ہی کرتا ہے۔
بے نظیر اور نواز شریف کے حوالے سے سردار شیرباز خان مزاری نے کہا کہ انہوں نے ماضی میں مایوس کیا ہے لیکن حالات نے ان کو ایک مرتبہ پھر مظلوم بنا دیا ہے۔
عراق اور افغانستان کی صورت حال پر ایک سوال کے جواب میں شیر باز مزاری نے کہا کہ امریکہ اب ایران کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کے بعد یقینا ہمارا نمبر بھی آئے گا۔ اس کی وجہ صرف اور صرف ملک کے اقتدار پر مفاد پرستوں کا قبضہ ہے۔ ہم بدقسمت ملک ہیں اور آج بدقسمت حالات ہیں۔ پرویز مشرف نے ہمارا سب کچھ قربان کر دیا ہے‘ لیکن امریکہ اس پر بھی راضی نہیں ہوا ہے‘ وہ مفاد پرست ملک ہے‘ وہ پوری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو جمہوری قوتوں کو اقتدار دینا چاہیے‘ ان کو ہرگز اقتدار میں نہیں ہونا چاہیے ۔ اور میری سیاست دانوں کے لیے بھی دعا ہے کہ ان کے اندر ملک و قوم کے لیے غیرت آئے تاکہ و ملک و قوم کے لیے کام کریں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میری پروفیسر غفور احمد سے بڑی قربت ہے‘ وہ بڑی عظیم شخصیت ہیں‘ ہم نے ماضی میں مل کر کام کیا ہے۔ اس وقت مفتی محمود بھی ساتھ تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ تم بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے ہو‘ تو میں ان کو کہتا تھا میں مولوی نہیں ہوں لیکن کوئی ملک و قوم کے مفاد میں کام کر رہا ہے تو ساتھ دوں گا۔
بلوچستان کی صورت حال میں مذہبی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے شیر باز خان مزاری نے کہا کہ انہوں نے حکومت کا ساتھ دے کر غلطی کی ہے۔ ویسے تو وہ اس کی تردید کر رہے ہیں اور میں تنقید بھی نہیں کر رہا‘ لیکن بلوچستان کی صورت حال خراب ہے اور مجھے وہاں خطرہ ہے۔ لوگوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر انکساری ہونی چاہیے لیکن میں جنرل پرویز مشرف اور ان لوگوں کے اندر یہ نہیں دیکھ رہا جس سے معاملات خراب ہو رہے ہیں۔