قیصروکسریٰ قسط(124)

322

عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں اُن کروڑوں انسانوں میں سے ایک ہوں۔ جنہیں ماضی کی تاریکیوں سے نکلنے کے لیے کسی روشنی کی ضرورت ہے۔ کاش مجھے یہ معلوم ہوتا کہ وہ روشنی کب اور کہاں نمودار ہوگی۔ مجھے ایک نجات دہندہ کا انتظار ہے لیکن کاش میں اِس یقین کے ساتھ اُس کا انتظار کرسکتا کہ وہ ضرور آئے گا‘‘۔

مرقس نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ یہاں کوئی خدا کا بندہ تمہاری تسکین کا سامان فراہم نہیں کرسکا۔ لیکن ممکن ہے کہ دمشق پہنچ کر تمہیں کوئی روشنی دکھانے والا مل جائے‘‘۔

تیسرے دن عاصم اور فسطینہ جہاز پر کھڑے تھے، اور بندرگاہ پر مرقس، کلاڈیوس، ولیریس، انطونیہ اور جولیا، سائمن اور شہر کے چند اور معززین ہاتھ کے اشاروں سے انہیں الوداع کہہ رہے تھے۔ جب بندرگاہ اُن کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تو فسطینہ نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’عاصم! کیا یہ ممکن ہے کہ ہم کسی دن دمشق سے یروشلم جائیں۔ میں ایک بار پھر وہ راستہ دیکھنا چاہتی ہوں جس پر میں نے بچپن میں تمہارے ساتھ سفر کیا تھا‘‘۔

’’یہ ممکن ہے، لیکن کاش ہم ماضی کے گزرے ہوئے ایام واپس لاسکتے‘‘۔

ہرقل فاتحانہ جاہ و جلال کے ساتھ قسطنطنیہ سے روانہ ہوا۔ اُس کی رعایا اپنے حکمران کے علاوہ اُن صلیب کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھی جسے پرویز یروشلم کی فتح کے بعد اپنے ساتھ لے گیا تھا، اور جسے دوبارہ یروشلم واپس لانا عیسائیوں کے نزدیک ہرقل کی سب سے بڑی نیکی تھی۔ شام کے ساحل تک بحری سفر کے دوران جن بندرگاہوں پر ہرقل کا سفینہ رُکتا تھا وہاں لوگوں کا میلہ لگ جاتا تھا۔ اور وہ جو چند برس قبل اُسے بزدلی اور بے حسی کے طعنے دیا کرتے تھے اُس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا یا دورانو ہو کر اُس کی قبا کو چھولینا بھی اپنے لیے باعث سعادت خیال کرتے تھے۔ جب مقدس صلیب لوگوں کے سامنے لائی جاتی تھی تو وہ عقیدت اور محبت کے جذبات سے مغلوم ہو کر دیوانہ وار اُس پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ہر شخص اُسے بوسہ دینے میں دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا، پھر جب قیصر اگلی منزل کا رُخ کرتا تھا تو وہ مقامات جہاں تھوڑی دیر کے لیے اس صلیب کی نمائش کی جاتی تھی، عقیدت مندوں کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے تھے۔

ہرقل نے بحری سفر ختم کرنے کے بعد خشکی کا راستہ اختیار کیا تو یروشلم تک لاکھوں انسان اُس کے لیے چشم براہ تھے۔ اور ہر منزل پر اُس کے جلوس میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔ یہ وہ حکمران تھا جس نے انتہائی مایوس کن حالات میں اپنی رعایا کو سہارا دیا تھا اور آج یہ رعایا تشکر کے آنسوئوں سے اپنے محسن کا خیر مقدم کررہی تھی۔ صلیب کو اپنی پرانی جگہ نصب کرنے، کلیسا کے اکابر سے دعائیں لینے اور عوام سے عقیدت اور محبت کے نذرانے وصول کرنے کے بعد ہرقل نے جشم عام کا حکم دیا۔

شہر سے باہر اُس کے خیمے اُسی ٹیلے پر نصب تھے جہاں چند برس قبل خسرو پرویز پڑائو ڈالے ہوئے تھا اور عین اُس وقت جبکہ اُس کا یہ احساس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا کہ آج اِس آسمان کے نیچے مجھ سے بڑا فاتح اور مجھ سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہیں۔ اُسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک پیش کیا گیا۔ جس کا مضمون یہ تھا:۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمدؐ کی طرف سے جو خدا کا بندہ اور رسول ہے۔ یہ خط ہرقل کے نام ہے جو روم کا رئیس اعظم ہے۔ اُس کو سلامتی ہو، جو ہدایت کا پیروکار ہے۔ اس کے بعد میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ تم اسلام لائو، تو سلامت رہو گے۔ اللہ تمہیں دُگنا اجر دے گا۔ اگر تم نے نہ مانا تو اہل ملک کا گناہ تمہارے سر ہوگا۔ اے اہل کتاب کسی ایسی بات کی طرف آئو جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور ہم میں سے کوئی (اُس کے سوا) کسی کو خدا نہ بنائے۔ اور اگر تم نہیں مانتے تو گواہ رہو کہ ہم مانتے ہیں‘‘۔

ہرقل کے دربار میں اسلام کی آواز اُس آواز سے کہیں زیادہ اجنبی تھی جو چند سال قبل اہل مکہ نے سنی تھی۔ وہ نینوا کے میدان میں اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت کو پامال کر چکا تھا۔ اُس نے بازنطینی سلطنت کو سیمتین قوم کی وحشت اور بربریت سے نجات دلائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: ہرقل کے نام سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط حضرت دُحیہؓ کلبی لائے تھے۔ اسلام کے قریباً سارے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ حضورؐ نے۶ھ؁ کے شروع میں بیک وقت ایران کے خسرو پرویز، قیصر روم، عزیز مصر، رئوسائے یمامہ اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دی تھی۔ لیکن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ پرویز کو حضورؐ کا خط ہرقل کی نسبت کئی مہینے قبل اُن ایام میں ملا تھا جب کہ ابھی اُسے فیصلہ کن شکست نہیں ہوئی تھی۔ اور ہرقل کے پاس حضورؐ کا خط اتنی تاخیر کے بعد اِس لیے پہنچا تھا کہ وہ اپنے دارالحکومت سے سیکڑوں میل دور ایران کے میدانوں میں پیش قدمی کررہا تھا۔ حضرت دُحیہؓ کلبی قسطنطنیہ جانے کی بجائے بصریٰ کے مقام پر جو شام کے غسانی حکمرانوں کا پایہ تخت تھا رُک گئے تھے۔ اور انہوں نے یہ خط حارث غسانی کے سپرد کردیا تھا جو رومیوں کا باجگزار تھا۔ پھر جب ہرقل فتوحات کے بعد قسطنطنیہ سے ہوتا ہوا یروشلم پہنچا تو حارث غسانی نے یہ خط اُسے پہنچادیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضورؐ کا ایلچی ایک طویل عرصہ بصریٰ میں قیام کرنے کے بعد ہرقل کی آمد پر بذات خود یروشلم پہنچا ہو۔

بہرحال مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ہرقل کو حضورؐ کا نامہ مبارک یروشلم میں ملا تھا اور یہیں اُس نے ابوسفیان کے ساتھ جو ابھی تک مشرکین مکہ کے سرکردہ لیڈروں میں تھا، ملاقات کی تھی۔

کوچک میں عیسائیوں کے وہ لاتعداد گرجے دوبارہ کلیسا کو دلوائے تھے، جنہیں مجوسیوں نے آتشکدوں میں تبدیل کردیا تھا۔ ان عظیم کامیابیوں کے بعد اُس کی شان و شوکت کا نظارہ دیکھنے والے اِس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ صحرائے عرب سے نبوت کا ایک دعویدار دُنیا کے اُس عظیم فرمانروا سے ہمکلام ہونے کی جرأت کرے گا جس نے انسانی تاریخ کا رُخ بدل دیا تھا۔

لیکن ہرقل، پرویز سے مختلف تھا۔ سرکارِ مدینہ کا خط موصول ہوتے ہی اُس نے حکم دیا کہ اگر عرب کا کوئی باشندہ یہاں موجود ہو تو اُسے ہمارے سامنے پیش کیا جائے، اتفاق سے عرب تاجروں کا ایک قافلہ غزہ میں مقیم تھا۔ اور مکہ سے ابوسفیان اُن کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ قیصر کے آدمی انہیں تلاش کرکے یروشلم لے آئے۔ ہرقل نے بڑے ٹھاٹھ سے دربار منعقد کیا اور جب حکومت کے عمال اور کلیسا کے اکابر اُس کے تخت کے گرد جمع ہوگئے تو عرب تاجروں کو حاضر ہونے کا حکم ملا اور پھر جب یہ صحرا نشین انتہائی مرعوبیت کے عالم میں ہرقل کا جاہ و جلال دیکھ رہے تھے، اُس نے مترجم کی وساطت سے سوال کیا۔ ’’تم میں سے نبوت کے مدعی کا رشتہ دار کون ہے؟‘‘۔

عربوں کی نگاہیں ابوسفیان پر مرکوز ہو کر رہ گئیں اور اُس نے جواب دیا۔ ’’میں ہوں‘‘۔

قیصر نے پوچھا۔ ’’اس نبی کا خاندان کیسا ہے؟‘‘۔

’’اُس کا خاندان شریف ہے‘‘۔ ابوسفیان نے جواب دیا۔

’’اِس خاندان میں سے کسی اور نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا‘‘۔

’’نہیں‘‘۔

’’اِس خاندان میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟‘‘۔

’’نہیں‘‘۔

’’جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، وہ صاحب اثر ہیں یا کمزور؟‘‘۔

ابوسفیان نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔ ’’یہ کمزور اور بے بس لوگ ہیں‘‘۔

’’اُسے ماننے والوں کی تعداد کم ہورہی ہے یا بڑھ رہی ہے؟‘‘۔

’’بڑھ رہی ہے‘‘۔

’’تمہیں ان لوگوں کی نسبت کبھی جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے؟‘‘۔

’’نہیں‘‘۔

’’مدعی نبوت نے کبھی اپنے عہد و اقرار کی خلاف ورزی بھی کی ہے؟‘‘۔

’’ابھی تک تو ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اب ہمارے درمیان جو صلح کا معاہدہ ہوا ہے اُس کے متعلق ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں تک اُس کی پابندی کرے گا‘‘۔

’’تم نے کبھی اُس کے ساتھ جنگ بھی کی ہے؟‘‘۔

’’ہاں‘‘۔

’’پھر اِس کا کیا نتیجہ رہا؟‘‘

’’کبھی ہم غالب آئے اور کبھی وہ‘‘۔

’’وہ کیا سکھاتا ہے؟“

’’وہ یہ کہتا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرو اور کسی کو اُس کا شریک نہ بنائو، نماز پڑھو، پاکدامنی اختیار کرو، سچ بولو اور صلہ رحم کرو‘‘۔

ہرقل کچھ دیر سر جھکا کر سوچتا رہا، بالآخر اُس نے کہا۔ ’’تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ شریف النسب ہے پیغمبر ہمیشہ اچھے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ تم یہ کہتے ہو کہ اس خاندان سے کبھی کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ یہ خاندانی اثرات کا نتیجہ ہے۔ تم یہ مانتے ہو کہ اِس خاندان میں کوئی بادشاہ نہ تھا، اگر ایسا ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ اُسے بھی بادشاہت کی خواہش ہے۔ تم یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ اُس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اب جو شخص انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا، وہ خدا پر کیوں کر جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ اُس کے پیروکمزور اور غریب ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ پیغمبروں کے ابتدائی پیرو ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ تم نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اُسے ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہمارے نزدیک یہ بھی اُس کے دین کی سچائی کی علامت ہے۔ تم تسلیم کرتے ہو کہ اُس نے کبھی فریب نہیں کیا۔ پیغمبر یقیناً کبھی فریب نہیں کرتے۔ تم کہتے ہو کہ وہ نماز، تقویٰ اور عفو کی ہدایت کرتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو میری قیام گاہ تک اُس کا قبضہ ہوجائے گا۔ مجھے اِس بات کا احساس ضرور تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ وہ عرب میں پیدا ہوگا۔ اگر میں وہاں پہنچ سکتا تو اس کے پائوں دھوتا‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ