خوف و ہراس کے آداب

485

-1 اعداء دین کی قتل و غارت گری، ظلم و بربریت اور فتنہ و فساد کی ہیبت ہو یا قدرتی عذابوں کی تباہ کاریوں کا خوف ہو۔ ہر حال میں مومنانہ بصیرت کے ساتھ اس کے اصل اسباب کی کھوج لگائیے اور سطحی تدبیروں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے کتاب و سنت کی بتائی ہوئی حقیقی تدبیروں پر اپنی ساری قوتیں مرکوز کر دیجیے قرآن پاک میں ہے:

وَمَا أَصَابَكُم مِّنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ (الشورى 30/42)

”اور تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت سی خطاؤں سے در گزر کرتا رہتا ہے۔“

اور قرآن پاک ہی نے اس کا علاج بھی بتا دیا ہے

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

” اور تم سب مل کر اللہ کی طرف پلٹو، اے مومنو! تا کہ تم فلاح پاؤ۔“
تو بہ کے معنی ہیں پلٹنا ، رجوع کرنا، گناہوں کی ہیبت ناک دلدل میں پھنسی ہوئی امت جب اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ کی طرف پھر جذ بہ بندگی کے ساتھ پلٹتی ہے اور اشک ہائے ندامت سے اپنے گناہوں کی گندگی کو دھو کر پھر اللہ سے عہد وفا استوار کرتی ہے تو اس کیفیت کو قرآن تو بہ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے اور یہی توبہ و استغفار ہر طرح کے فتنہ و فساد اور خوف و ہیبت سے محفوظ ہونے کا حقیقی علاج ہے۔

-2 اعداء دین کی فتنہ انگیزی اور ظلم و ستم سے گھبرا کر بے ہمتی دکھانے اور بے رحموں سے رحم کی بھیک مانگنے کی ذلت سے کبھی اپنی ملی زندگی کو داغدار نہ کیجیے ، بلکہ اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے کمر ہمت باندھیے۔ جس کی وجہ سے آپ میں بزدلی پیدا ہو رہی ہے اور اعداء دین کو آپ پر ستم ڈھانے اور آپ کو ہڑپ کرنے کی جرات پیدا ہورہی ہے۔

نبیؐ نے اس کی دوو جہیں بتائی ہیں:

(1) دنیا سے محبت (2) موت سے نفرت

یہ عزم کیجیے کہ آپ نہ صرف اپنے سینے سے بلکہ ملت کے سینے سے ان روگوں کو دور کر کے ہی دم لیں گے نبی ؐکا ارشاد ہے :

میری امت پر وہ وقت آنے والا ہے جب دوسری قومیں (لقمہ تر سمجھ کر) تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹتے ہیں۔ کسی نے پوچھا یار سولؐ اللہ کی اس زمانے میں ہماری تعداد اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں نگل لینے کے لیے قو میں متحد ہو کر ہم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ارشاد فرمایا نہیں ! اس وقت تمہاری تعداد کم نہ ہوگی البتہ سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح بے وزن ہو گے اور تمہارار عب نکل جائے گا اور تمہارے دلوں میں بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو جائے گی۔ اس پر ایک آدمی نے پوچھا یار سولؐ اللہ ! یہ بزدلی کیوں پیدا ہو گی ؟ فرمایا اس وجہ سے کہ تم :

.دنیا سے محبت کرنے لگو گے

.اور موت سے بھاگنے اور نفرت کرنے لگو گے“۔ (ابوداؤد) ۔

-3 نفس پرستی، عیاشی، عورتوں کی سر براہی اور معاصی سے اپنے معاشرے کو پاک کیجیے ، اور اپنی اجتماعیت کو مضبوط سے مضبوط تر بنا کر اجتماعی قوت کے ذریے فتنہ و فساد کو مٹانے اور ملت میں شجاعت، زندگی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

”جب تمہارے حکمران اچھے لوگ ہوں اور تمہارے خوشحال لوگ سخی اور فیاض ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہوں تو یقیناً تمہارے لیے زمین کی پشت (پر زندگی) زمین کی گود ( میں موت) سے بہتر ہے اور تمہارے امراء اور حکمران بد کردار لوگ ہوں اور تمہارے معاشرے کے مالدار زرپرست اور بخیل ہوں اور تمہارے معاملات تمہاری بیگمات کے ہاتھوں میں ہوں تو پھر تمہارے لیے زمین کی گود یعنی موت زمین کی پشت یعنی زندگی سے کہیں بہتر ہے“۔ ( ترندی)

-4 حالات کیسے بھی لرزہ خیز ہوں، حق کی حمایت میں کبھی کو تا ہی نہ کیجیے۔ حق کی حمایت میں جان دے دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی بے دینی اور بے غیرتی کی زندگی گزارے۔ سخت سے سخت آزمائش اور شدید سے شدید خوف کی حالت میں بھی حق کا دامن ہر گز نہ چھوڑیئے۔ کوئی موت سے ڈارئے تو مسکرادیجیے اور شہادت کا موقع آئے تو شوق و جذبے کے ساتھ اس کا استقبال کیجیے۔ نبی ؐفرماتے ہیں:

” اسلام کی چکی گردش میں ہے تو جدھر قرآن کا رخ ہو اسی طرف تم بھی گھوم جاؤ، ہوشیار رہو! قرآن اور اقتدار عنقریب الگ الگ ہو جائیں گے ( خبر دار ) قرآن کو نہ چھوڑنا، آئندہ ایسے حکمراں ہوں گے جو تمہارے بارے میں فیصلے کریں گے۔ اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں سیدھی راہ سے بھٹکا دیں گے اور تم ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمہیں موت کے گھاٹ اتار دیں گے“ ۔ صحابی نے کہا پھر ہم کیا کریں ؟ رسول ؐاللہ نے فرمایا: ”وہی کرو جو عیسیٰ کے ساتھیوں نے کیا، وہ لوگ آروں سے چیرے گئے ، سولیوں پر لٹکائے گئے، اللہ کی نافرمانی میں زندہ رہنے سے بدرجہ بہتر ہے کہ آدمی اللہ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے جان دے دے“۔

-5 ان اجتماعی امراض کے خلاف برابر جہاد کرتے رہیے جن کے نتیجے میں سوسائٹی پر خوف و دہشت کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں۔ افلاس، قحط، خونریزی عام ہو جاتی ہے اور دشمنوں کے ظالمانہ تسلط میں قوم بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ”جس قوم میں خیانت کا بازار گرم ہو جائے اللہ اس قوم کے دلوں میں دشمن کا خوف اور دہشت بٹھا دے گا اور جس معاشرے میں زنا کی وبا عام ہو جائے گی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا، جس سوسائٹی میں ناپ تول میں بددیانتی کارواج ہو جائے گا وہ ضرور فاقے کی شکار ہو گی اور جہان ناحق فیصلے ہوں گے وہاں لا ز ما خونریزی عام ہو گی، جو قوم بھی بد عہدی کرے گی اس پر بہر حال دشمن کا تسلط ہو کر رہے گا“۔ (مشکوٰۃ)

-6 جب دشمنوں کی طرف سے خوف لاحق ہو تو یہ دعا پڑھیے :

الٰہی ! ہم ان دشمنوں کے مقابلے میں تجھے ہی اپنی سپر بناتے ہیں اور ان کے شر و فساد دے بیچنے کے لیے تیری پناہ لیتے ہیں“۔(ابوداؤد، نسائی، بحوالہ حصن حصین)

-7 اور جب دشمن کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہوں تو یہ دعاپڑھیے :

”الٰہی ! تو ہماری عزت کی حفاظت فرما اور خوف وہر اس سے امن عطا فرما“۔(احمد بحوالہ حصن حصین)

-8 جب آندھی یا گھٹا اٹھتی دیکھیں تو گھبراہٹ اور خوف محسوس کیجیے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبیؐ کو اس طرح قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا کہ آپؐکا پورا منہ کھل جائے ۔ آپؐ صرف مسکراتے تھے اور جب کبھی آندھی یا گھٹا آتی توآپ گھبرا جاتے اور دعا کرنے لگتے۔ خوف کی وجہ سے کبھی اٹھتے اور کبھی بیٹھتے اور جب تک پانی نہ برس جاتا آپ ؐ کی یہی حالت رہتی۔ میں نے پوچھا یا رسولؐ الله ! میں لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ جب وہ بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ پانی برسے گا اور آپؐ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ ؐبولی دیکھتے ہیں تو آپؐکے چہرے پر گرانی اور پریشانی دکھائی دینے لگتی ہے تو نبیؐنے فرمایا:

”عائشہ !آخر میں بے خوف کیسے ہو جاؤں کہ اس بدلی میں عذاب نہ ہو گا۔ جب کہ قوم عاد پر آندھی کا عذاب آچکا ہے، قوم عاد نے جب اس بدلی کو دیکھا تھا تو کہا تھا کہ یہ بدلی ہم پر پانی برسائے گی“ (بخاری، مسلم)

اور یہ دعا پڑھیے:

”الٰہی ہمارے آس پاس بر سے ہمارے اوپر نہ برسے، الٰہی ! پہاڑیوں پر، ٹیلوں پر وادیوں پر اور کھیت اور درخت اگنے کے مقامات پر بر سے“۔( بخاری و مسلم )

-10 جب بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک سنیں تو بات چیت بند کر کے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھناشروع کر دیجیے :

”اور بادلوں کی گرج اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے لرزتے ہوئے پاکی اور برتری بیان کرتے ہیں“۔(الرعد : 13/13)

حضرت عبد اللہ بن زبیر جب بادلوں کی گرج سنتے تو گفتگو بند کر دیتے اور یہی آیت پڑھنے لگتے۔ (الادب المفرد)

حضرت کعب ؓفرماتے ہیں کہ جو شخص گرج کے وقت تین مرتبہ اس آیت کو پڑھ لے وہ گرج کی آفت سے عافیت میں رہے گا ( ترمذی)

نبی &ﷺجب بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک سنتے تو یہ دعا پڑھتے :

”الٰہی ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر ، اپنے عذاب سے ہمیں تباہ نہ کر اور ایسا وقت آنے سے پہلے ہی ہمیں اپنے دامن عافیت میں لے لے “۔

-11 جب آگ لگ جائے تو اسے بجھانے کی بھر پور کوشش کے ساتھ ساتھ اللہ اکبر بھی کہتے جائیے۔ نبیﷺکا ارشاد ہے جب آگ لگتی دیکھو تو اللہ اکبر کہو، تکبیر آگ کو بجھادیتی ہے۔

-12 خوف اور دہشت کے غلبے میں یہ دعا پڑھیے، اللہ نے چاہا تو دہشت دور ہو گی اور اطمینان نصیب ہو گا۔ حضرت براء بن عازب ؓکہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے شکایت کی کہ مجھ پر دہشت طاری رہتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا یہ دعاپڑھا کرو۔ اس نے اس دعا کا ورد کیا، اللہ نے اس کے دل سے دہشت دور فرمادی۔ (معجم الطبرانی)

”پاک و برتر ہے اللہ ، بادشاہ حقیقی، عیبوں سے پاک ،اے فرشتوں اور جبریل کے پروردگار ! تیراہی اقتدار اور دبد بہ آسمانوں اور زمین پر چھایا ہواہے“۔

حصہ