دلہے میاں کے ساتھ شادی کی تقریب سے قبل کچھ عجب سا سانحہ ہو گیا تھا۔
دلہے میاں نے جب دیکھا کہ بندر تیزی سے بھاگ رہا ہے اُس نے برق رفتاری سے اپنی اشیاء لینے کی کوشش کی مگر پائوں پھسلااور وہ کیچڑ میں یوں لت پت ہو گیا جیسے دو دوست سالوں بعد مصافہ کرتے ہیں اور بعد میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔
براتی دلہے میاں کے پاس پہنچے اور سب خوب ہنسنے لگے۔ مگر دلہے میاں کو شدید غصہ تب آیا جب سڑک کنارے کھڑی گاڑی کے پاس منکو میاں کو سر پر ٹوپی اورگلے میں ہار پہنے ہوئے ناچتے دیکھا، وہ خون کے آنسو پی گئے۔ یو ں لگ رہاتھا جیسے منکومیاں اُن کی شادی کی خوشی میں ناچ رہے ہیں۔
…٭…
دراصل گزشتہ شب منکو میاں جنگل کے پاس سے گزرتی سڑک پر ٹہل رہے تھے۔ جب ایک نئے دلہے کی کار خرابی کی وجہ سے سٹرک پر رک گئی تھی۔ دلہے میاں نے جب پھولوں کا ہار اور اپنی ٹوپی اُتاری اور گاڑی کے بونٹ پر جوںہی رکھی منکو میاں نے لپک کر دونوںچیزوں کو اُٹھایا اور دوڑے ۔
دلہے میاں نے یہ منظر دیکھا تو بھاگے تاکہ اشیاء کو چھین سکیں مگر منکو میاں کہاں گرفت میں آنے والے تھے۔ وہ یوں وہاں سے غائب ہوئے جیسے ’’گدھے کے سر سے سینگ‘‘۔
دلہے میاں نے بندر کی پھرتی دیکھ کر اشیاء چھیننے کی کوشش کی تو حادثہ رونما ہو گیا ۔ایک طرف دلہا شرمسار تھا ،دوسری طرف براتیوں کی بھی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
منکومیاں کو سلیمانی ٹوپی کا سا احساس ہو رہا تھا جیسے ٹوپی کے سر پر آنے سے وہ دنیا کی نظروں سے غائب ہو گئے ہوں۔دلہے میاں چپ کر کے گاڑی میں بیٹھے اور اپنی قسمت کو کوستے ہوئے اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گئے۔منکو میاں بھی اُچھلتے کودتے اپنے گھر کو لوٹ گئے جیسے ہفت اقلیم کا کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔
…٭…
منکو میاں خود کو سیا نا سمجھتے تھے مگر جنگل کے جانور اُن کے مشوروں سے تنگ آ چکے تھے۔
جنگل میں لومڑی بی تو اب تھیں نہیں ، وہ بوڑھی کیا ہوئیں جنگل سے ہی چلی گئیں۔اُن کی کمی کو یوں منکو میاں نے پورا کیا کہ سب اُن کی نوٹنکی سے آئے روز پریشان رہتے تھے کہ وہ ذہانت سے سب کو ستا لیتے تھے۔ اگلے روز منکو میاں سر پر سیلمانی ٹوپی پہنے ،یوں گھر سے باہر نکلے جیسے دنیا کو فتح کرنے چلے ہوں، چہرے پر مسکان یوں سجائی ہوئی تھی جیسے اُن کالاڈلا پنکو کیلے کو دیکھ کر اپنے چمکیلے دانت نکالتا تھا۔آج وہ اپنے دوست فنکو سے ملنے جا رہے تھے۔
جنگل کی فضا کافی خوش گوار سی لگ رہی تھی ،آسمان کا نیلا رنگ صاف دکھائی دے رہا تھا اور چاروں طرف بارش کے بعد خوب تیزدھوپ کی وجہ سے ہر طرف صاف ستھر ا ماحول نظر آرہا تھا ۔ منکو میاں اپنی ناک پر یوں چشمہ لگائے ہوئے تھے جیسے کوئی بوڑھا ڈاکٹر اپنی ناک کے آخری سرے پر رکھتا ہے، گلے میں پھولوں کا ہار تھا ۔منکومیاں کو کوئی اعزاز نہیں حاصل ہواتھا بلکہ انھوں نے اپنی ذہانت سے یہ سب حاصل کیا تھا، آخر کو اُن کے پاس دو دماغ جو تھے۔
…٭…
جوںہی وہ اپنے دوست فنکو کے ہاں پہنچے وہ شدید غصے کا شکار تھا ۔
’’یہ کون سا ٹوٹکا بتا یا ہے جس سے میرے دو دانت خراب ہو کر ٹو ٹ گئے ہیں؟‘‘
فتکو نے منکو میاں کی شکل دیکھتے ہی سوال داغا۔
’’ وہ ٹوٹکا تو میں نے اپنے والد بزرگوار سے اور انہوںنے دادا حضور سے سنا تھا ۔‘‘
منکو میاں نے کہا۔
’’’’ارے میرے دانت اب کہاں سے آئیں گے؟‘‘ فنکو نے خفگی سے استفسار کیا۔
’’ دودھ کے دانت تھے، غائب ہو گئے ہیں۔‘‘منکومیاں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ کمبخت منکو۔۔!بتائو ہمارے دانت سلامت کیوں نہیں رہے۔‘‘فنکو نے غصے سے کہا۔
’’ ابا اور داداحضورکے دانت کہاں سلامت رہے تھے۔ ‘‘
منکو میاں نے اتنا کہااور بھاگے کہ فتکو اب اُن سے لڑنے کے لئے آگے بڑھ چکا تھا۔ منکو میاں تیزی میں یوں بھاگے کہ ٹوپی جھاڑیوں میں گر گئی مگر اُن کو اب ٹوپی سے زیادہ اپنے سر کی پروا تھی کہ کہیں وہ فتکو زخمی نہ کر دے۔
…٭…
’’آسمان سے گرے کھجورمیں اٹکے ‘‘ کے مصداق ابھی فتکو سے بچے ہی تھے کہ سامنے سے آتے راجی گدھے نے منکو میاں کو دیکھتے ہی کہا:
’’تم نے مجھے شیر جیسا بننے کے لئے کھال پر لگانے کے لئے جو تیل کی بوتل دی تھی۔ وہ تو سادہ پانی کی بوتل نکلی۔ ڈھیچوں ڈھیچوں۔ ‘‘
’’ دیکھو! گدھے کے گدھے رہو گے تم !وہ جادوئی بوتل تھی جس کا تیل پانی بن گیا تھا۔‘‘
منکو میاں نے اتنا کہا اور فوراً آگے چھلانگ لگائی کہ ایسا نہ کرتے تو راجی گدھے کی دولتی کا شکار ہو کر جان سے جاتے ۔مگر چھلانگ ایسی لگائی کہ منہ کے بل اُوندھے گرے اور پھولوں کا ہار ایک جھاڑی سے الجھا تو وہ ٹوٹ کر گر گیا۔منکو میاں کو لگا کہ جیسے اُن کے سب ارمان ختم ہو گئے ہوں۔
…٭…
منکومیاں کو اب خود کو خوش رکھنے کا ایک عمدہ خیال آگیا تھا، ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی تو خود کو کیسے پریشان رکھ سکتے تھے۔وہ پھرتی سے چنار کے درخت پر چڑھے، آنکھیں موند ھ کر سوچنے لگے ۔ جنگل کی فضا کافی خوش گوار سی ہے ،آسمان کا نیلا رنگ اور چاروں طرف بارش کے بعد خوب تیزدھوپ کی وجہ سے صاف ستھر ا ماحول کوئی نئی دنیا ظاہرکر رہا ہے۔
خود کو منکو میاں اپنی ناک پر چشمہ لگائے ہوئے جنگل کا بادشاہ سمجھ رہے تھے۔
چشمہ ناک کے آخری سرے پر تھا، گلے میں پھولوں کا ہار تھا اور چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ سلیمانی ٹوپی سر پر شاہی پگڑی محسوس ہوئی ،جس کو پہن کر وہ شاہی دربار میںتشریف لارہے ہیں۔اُس کے بعدمنکو میاں یوں گہری نیند میں سوئے کہ اگلی صبح اُٹھے تو معلوم ہوا کہ وہ اب جنگل کی بجائے چڑیا گھر کے پنجرے میں ہیں۔ دراصل وہا ں کسی نے بندروں کو پکڑنے کے لئے جال بچھایا تھا جو منکومیاں کو اندھیرے میں نظر نہ آسکا تھا مگر جو اُن کو صاف آنکھوں سے دکھائی دیا تو وہ مرنے کو پہنچ گئے کہ یہاں اُن کی رکھوالی کا ملازم وہی دلہا تھا جس کے ساتھ شرارت کی تھی۔
منکو میاں کو پھولوں کا ہار اپنے گلے میں لگا پھندا محسوس ہو رہا تھا جو انھو ں نے چراکر پہن لیا تھا۔ اُن کی ذہانت ایک جگہ آکر ہار گئی تھی۔ شرارتوں کا انجام ایسا ہوا تھا کہ چڑیا گھر کا پنجرہ قید خانہ بن گیا تھا۔