گھروندے کی سلامتی؟

515

سلیم: شازی تم اتنی ماڈرن ہوکر کیسی دقیانوسی کی باتیں کرتی ہو۔ تم جانتی ہو یہاں میاں بیوی دونوں کماتے ہیں اور گذارا کرتے ہیں، اب اگر اس مرتبہ مہینے کا سارا خرچہ تم نے آٹھا لیا تو کون سی قیامت آگئی ۔

شازی : سلیم ایسا اکثر ہوتا ہے تم اکثر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتے ہو بلکہ اب تو مسلسل یہ ہو رہا ہے۔ اور میں سارا بوجھ اٹھا لیتی ہوں اور اب تو نعیم کے اسکول کا تمام خرچہ بھی میرے اوپر ہے ،آخر تم اتنا پیسا کہاں خرچ کرتے ہو؟

سلیم : پاکستان میرے ماں باپ ہیں میرا بھائی ہے؛ کیا میں ان کو فراموش کردوں کیسی عورت ہو تم ۔

شازی: میں نے ایسا نہ کبھی سوچا ہے اور نہ کہا ہے ۔

امی:(فون پر) یہ تمہاری بیوی کہاں ہے جو بچے کو تم سنبھال رہے ہو، بچے اور گھر سنبھالنا عورت کا کام ہے۔

سلیم: وہی سنبھالتی ہے آج اسے اوور ٹائم کرنا تھا اس لئے آج نعیم کو واپسی میں اسکول سے لیتا آیا ہوں ۔

امی : کھانا بنا کر گئی تھی یا…؟

سلیم:(ہنس کر) کھانا تو وہ آفس سے آکر دونوں وقت کا ساتھ ہی بنا لیتی ہے۔

امی: پتا نہیں کیسا بناتی ہوگی پردیس میں اس لڑکی نے میرے بچے کا نا جانے کیا حال کر دیا ہے مجھے تو تیری فکر کھائے جارہی ہے۔

سلیم:شاید شازی آگئی ہے چلیں امی بعد میں بات کرتے ہیں میں ذرا شازی سے کہوں چائے بنا دے میرے لیے… اللہ حافظ…

شازی:اسلام وعلیکم !کیسا ہے میرا بیٹا پاپا کو تنگ تو نہیں کیا؟؟

سلیم (غصہ سے) تنگ: اس نے تو میرے سر میں درد کردیا ہے، اچھا چلو اب ایک کپ مزے دار چائے پلادو۔

شازی:یار تھک کر تو میں آئی ہوں، چائے تو تمہیں مجھے پلانی چاہیے۔

سلیم: چائے بنانا میرا کام نہیں ہے ایک تو تین گھنٹے تمہارے بیٹے کو سنبھالا ہے اور۔

…٭…

’’امبر : بیٹھو یار تھوڑی دیر اتنے دنوں کے بعد ملیں ہیں ابھی تو سب بیٹھے ہیں ‘‘۔

شازی :نا بابا مجھے تو جانے دو سلیم بھوکا بیٹھا ہوگا۔

حانیہ :ہاں یاد بیٹھو… ایک تو تم نے سلیم کو سر پر چڑھا رکھا ہے ملازمت بھی کر رہی ہو اور سارے گھر کی ذمہ داری بھی تمہاری۔

شازی :اصل میں سلیم گھر کے کاموں کا عادی نہیں ہے۔

معاف کرنا یار… جیسا دیس ویسا بھیس، یہاں میاں بیوی اگر دونوں ملازمت کرتے ہیں تو گھر کی ذمہ داریاں بھی مل کر اٹھاتے ہیں۔

جبکہ اب گھر کا تمام خرچہ تم اٹھا رہی ہو، دیکھو ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں اور میں تو تمہاری رشتہ دار بھی ہوں، جو تم کر رہی ہو۔آگے چل کر تمہیں مزید پریشانی ہوگی اس لئے تھوڑا اسے سمجھاو۔

…٭…

سلیم: کیا ہوا آفس نہیں جانا تمہیں؟؟

شازی: تھوڑا ٹمپریچر محسوس ہورہا ہے ، بلکہ تم نعیم کو بھی اسکول چھوڑتے جانا۔

سلیم :اور ناشتہ؟

شازی:وہ میں نے کوشش کر کے بنا لیا ہے۔

شازی: پلیز سلیم میری آج تھوڑی مدد کردو،مجھے دیر ہورہی ہے یہ کپڑے صرف الماری میں رکھ دینا، نعیم کو اسکول بھی چھوڑنا ہے مجھے ۔

سلیم :میں نے ہزار مرتبہ کہا ہے یہ کام مجھ سے نہیں ہوتے تم واپس آکر رکھ دینا؛ اور ہاں دو انڈوں کا آملیٹ بنایا ہے نا ۔

شازی کو غصہ تو بہت آیا اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بھی اسے دو سنائے لیکن آج ویسے ہی اسے دیر ہو گئی تھی لہٰذا وہ بیٹے کو لےکر اپنی گاڑی میں روانا ہوگئی ۔

دفتر سے واپسی میں اس نے بیٹے کو اسکول سے لیا مارکیٹ سے کچھ خریداری کی ، گھر پہنچی تو سلیم گھر میں موجود تھا، تم آج آفس نہیں گئے؟

سلیم :نہیں۔

(شازی نے سامنے صوفے پر صبح والے بکھرے ہوئے کپڑے دیکھے،) آج چھٹی کی تھی تو مارکیٹ سے سودا ہی لے آتے،اور یہ کپڑے۔

سلیم :تم پیسے دے کر جاتی تو لے آتا۔

شازی :کیا مطلب ہے تمہارا۔

تمہیں شرم آنی چاہیے برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے۔

نہ گھر کے لیے اور نہ ہی اپنے بیٹے کے لیے تمہاری کوئی کنٹری بیوشن ہے، کم از کم گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاو وہ بھی تمہیں گوارا نہیں، آخر تم چاہتے کیا ہو،

یہی صورت حال رہی تو میں ملازمت چھوڑ دوں گی؛ میں گھر سنبھالوں گی۔

…٭…

مشکل سے دو دن سلیم پر اثر ہوا کہ وہ بیٹے کو اسکول بھی چھوڑ نے گیا اور اپنے کھانے کے برتن دھوکر رکھتا۔

شازی نے اسے بھی غنیمت سمجھا اور سوچا کہ آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی آجائے گی ۔

امی:اتنی دیر سے فون کر رہی تھی فون کیوں نہیں رسیو کر رہے تھے خیریت؟؟

سلیم کے منہ سے غلطی سے نکل گیا کہ برتن دھو رہا تھا۔

پھر تو امی کا پارہ آسمان پر تھا۔ بے غیرت ہو جورو کے غلام، وہ کیا کرتی ہے سارا دن بچہ بھی تم سنبھالو برتن بھی تم دھونا، ناک کٹوادی کل کو کہے گی ہنڈیا بھی تم بنالو۔

ہم نے تو کبھی تمہارے باپ سے ایک پلیٹ بھی کچن میں رکھنے کو نہیں کہا شادی کے بعد کچھ عرصہ میں نے بھی اسکول میں پڑھایا تھا (وڈیو کال تھی اتفاقاً شازی کمرے میں آئی تو ساس کی بات اس کے کان میں پڑی اسے ساس کی بات سن کرانتہائی افسوس ہوا)…

اگلے دن صبح اٹھتے ہی سلیم نے شازی کو کہا مجھے آج کہیں اور بھی جانا ہے اس لیے نعیم کو اسکول تم چھوڑنے جانا۔

شازی نے دیکھا آج میز پر ناشتہ کے برتن بھی ویسے ہی پڑے ہیں اسے رات میں ساس کی بات سن کر اندازہ تو ہو گیا تھا کہ اس کے اثرات جلد سامنے آئیں گے، اسے اس وقت دیر ہورہی تھی لہٰذا وہ بھنبھناتی کمرے میں تیار ہونے کےلیے چلی گئی لیکن اس نے. مصمم ارادہ کر لیا کہ آج واپس آکر دو ٹوک بات کرے گی۔

شازی تھکی ہاری گھر پہنچی؛تو چاروں طرف بکھری ہوئی چیزیں اس کا منہ چڑا رہیں تھیں، ابھی وہ انہیں سمیٹنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہی تھی کہ نعیم روتی صورت بناکر بولا مما مجھے بھوک لگی ہے میں پاستا کھاوں گا۔ بیٹے کی طرف دیکھا تو ممتا جیت گئی۔

نعیم کو کھانا کھلا کر وہ گھر کو ٹھیک کرنے میں لگ گئی گرچہ بہت تھک چکی تھی سوچا تھوڑی دیر آرام کرکے پھر کروں لیکن پھر اس نے سوچا اٹھ کر دو وقت کا کھانا بنانا ہوگا اس سے بہتر ہے صفائی کا کام نمٹا لوں۔ نعیم تو کھانا کھا کر سوگیا تھا۔ ابھی آدھی صفائی کا کام بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ سلیم کا فون آگیا کہ شام کو دو دوست بھی کھانے پر آرہے ہیں اس لئے ایک آدھ ڈش بنا لینا۔ اس کا دل تو چاہا کہ وہ انکار کر دے۔ صرف اتنا ہی کہا کہ کل میں جو ہفتے بھر کا سامان لے کر آئی ہوں وہ تو آج ہی پورا ہو جائے گا واپسی میں اپنی جیب سے کچھ لےکر آنا ۔

سلیم: ابھی تو اس بات کو چھوڑو پھر دیکھیں گے۔

دن بھر کے کاموں سے وہ تھک چکی تھی، رات کو بستر پر سوئی تو اس کی آنکھیں امڈ آئیں کتنے نازوں میں پلی بڑھی تھی چوبیس گھنٹے گھر میں کام والی، مما صرف کچن کو ہی دیکھتی تھی وہ کبھی کبھار چائنیز وغیرہ بنا لیتی تھی جب سلیم کا اس کے لیے رشتہ آیا تو سب کزنز اس سے رشک کرنے لگیں، وہ بڑی امیدیں اور سپنے سجا کر شوہر کے ساتھ امریکہ پہنچی چند دن کے بعد شوہر نے حکم جاری کردیا کہ تم نے ایم بی اے کیا ہے تمہیں بہت اچھی جوب ملازمت مل سکتی ہے ویسے ہی یہاں دونوں میاں بیوی ملازمت کرتے ہیں تب ہی گزارا کر پاتے ہیں: اس طرح وہ یہاں آکر ایک مشین بن گئی، اس مشین کا کام دن بدن بڑھتا ہی جارہا تھا،اس نے سوچا اب پانی حد سے اوپر چڑھ گیا ہے مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔

آج چھٹی کا دن تھا لیکن دس کام اس کے منتظر تھے، سلیم ٹی وی کے سامنے بیٹھا کوئی فلم دیکھ رہا تھا۔

شازی : میں ملازمت چھوڑ رہی ہوں۔

سلیم :کوئی نئی ملازمت؟

شازی:نہیں، میں اب ملازمت نہیں کروں گی…

سلیم: یہ تم کیا کہہ رہی ہو، یہاں اس ملک میں، ناممکن ہے ایسا، اتنے خرچے، یہ سب کیسے پورے ہونگے۔

شازی:خرچے ہو جیسے اب میری تنخواہ سے پورے ہو رہے ہیں، وہ اب تمہاری تنخواہ سے ہوںگے، میں دو دو ملازمتیں ایک ساتھ نہیں کر سکتی، یہ میرا فائنل فیصلہ ہے۔

سلیم:(تھوڑا نرمی سے) دیکھو یار یہ اس وقت ممکن نہیں ہے ’’ریحان کو ملازمت نہیں ملی مجھے پاکستان رقم بھیجنا ضروری ہے مکان بھی ابھی ادھورا ہے اوپر کی منزل باقی رہتی ہے ۔‘‘

شازی :یہ میرا آخری فیصلہ ہے ، سوچ لو، شوہر زندگی کا پارٹنر ہوتا ہے، لیکن تم… تم نے مجھے… کچھ بھی نہیں دیا ہے ۔میرے خواب تو چھوڑو، مجھے بنیادی حقوق سے بھی تم نے محروم کر دیا ہے، ایسے پارٹنر کا کیا فائدہ،

یہاں اگر میاں بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں تو سب کچھ مل بانٹ کر کرتے ہیں نہ تمہارا پیسہ میرے لیے نا تمہارا ساتھ اور رفاقت میرے لیے لہٰذا اب فیصلہ ہوجانا چاہیے میں سات سالوں سے اس امید پر کہ تم تبدیل ہو جاو گے لیکن نہیں، لوگ تو گھر کے نوکروں پر بھی رحم کرتے ہیں، لیکن افسوس تم نے تو مجھے گھر کی ملازمہ جتنے حقوق بھی نہیں دیے ہیں ۔

اس لیے میرے لئے یہ ہی بہتر راستہ ہے کہ میں یا اکیلے،اپنی زندگی گزاروں۔ ویسے بھی تو تمام ذمہ داریاں اکیلے جھیل رہی ہوں کم از کم تمہاری فرمائشوں سے تو بچ جاوں گی…تمہارے اذیت ناک روپے سے نجات ملے گی۔

سلیم : گھرداری عورت کا کام ہے، یہ میری ذمہ داری نہیں ہے۔

شازی: تو کفالت کرنا بھی مرد کا کام ہے ، اگر تم میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو ہمارے راستے الگ الگ ہیں ۔

…٭…

مولانا صاحب: سلیم صاحب تم نے جوصورت حال بتائی ہے، معاف کرنا، اس میں قصور تو سراسر تمہارا ہی ہے تمہاری بیوی بالکل صحیح کہہ رہی ہے، تم اگر اس کی ملازمت کرنا اس وقت ضروری سمجھتے ہو تو کم از کم تم گھر میں اپنا حصہ تو ڈالو، اور تم کہہ رہے ہو گھر کے کام مردوں کو نہیں کرنے چاہیے تو صحیح ہے نوکری کرکے گھر کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھانا بھی اس عورت کی ذمہ داری نہیں ہے۔

سلیم میاں تم گزشتہ پانچ چھ سالوں سے اس مسجد میں باقاعدہ نماز پڑھنے آتے ہو کبھی کبھار یہاں بیٹھ کر اسلامی لیکچر بھی سنتے ہو. روزے بھی رکھتے ہو، میرے بیٹے دین صرف نماز روزہ وغیرہ تک ہی محدود نہیں ہمارا دین اسلام تو زندگی کے تمام معاملات کے بارے میں بھی مکمل ایک دستور ہے جو قرآن اور ہمارے نبی کریم کی سیرت واسوہ حسنہ کے توسط سے ہمارے درمیان موجود ہے۔

میاں بیوی کا رشتہ تو ایک دوسرے کی ضرورت سے جڑا ہوا ہے، اس سلسلے میں ہماری نبی کریم ؐکی ذات اقدس ایک بہترین نمونہ تھے آپ کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ایک خوبصورت اور مثالی رشتہ تھا۔

کائنات کی افضل ترین ہستی وقت ضرورت بیویوں کی دلجوئی بھی فرماتے گھر کے کسی کام میں بھی ہاتھ بٹاتے؛ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ سب لوگوں سے اچھا وہ ھے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہوں (مشکوات شريف)۔

صرف یہ ایک حدیث اس بارے میں نہیں ہے بلکہ اپنے بارہا بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے اور عورت کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی تاکید فرمائی اور سختی کرنے سے روکا ہے انہیں اچھا کھانے پلانے کی تاکید فرمائی اس سلسلے میں ابو داؤد کی حدیث مبارکہ ہے کہ جب تم کھانا کھاؤ اس کو بھی کھلاؤ جب کپڑا پہنو اس کو بھی پہناؤ (نافرمانی اور گستاخی پر) اس کے منہ پر مت مارو اور اس کو برامت سنانہ دو اور اس سے ملنا نہ چھوڑو، مگر گھر کے اندر اندر۔

اس حدیث مبارکہ میں ایک خوبصورت پیغام ہے شوہروں کے لیےعورت اور بچوں کی کفالت شوہر کے ذمہ ہے اگر تمہاری بیوی تمہاری معاشی طور پر مدد کر رہی ہے تو اس کی اس خوبی کا تم اعتراف کرو اور تم بھی اس کے معاملاتِ میں معاونت کرو اس سے ہی تمہارے گھروندے کو استحکام پہنچ سکتا ہے اور طلاق سے اور خلع سے بچ سکتے ہو ۔

تم تنہائی میں اپنا محاسبہ ضرور کرنا اور کہیں غلطی نظر آئے تو ضرور تلافی کرنا یہ تمہاری کمزوری نہیں بلکہ دور اندیشی ہوگی۔

مولانا صاحب نے جس طرح اسے کھول کر مثبت طریقے سے اس کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی وہ گھر آکر بھی بار بار اسے جھنجھوڑ رہی تھی کہ کہاں کہاں مجھ سے کوتاہیاں سرزد ہوئیں ہیں ضد اور انا پرستی کی وجہ سے نہ صرف بیوی بلکہ اپنے بیٹے کے ساتھ بھی نا انصافی کا مرتکب ہوتا رہا ہوں، جتنا وہ سوچتا جارہا تھا اس کی غلطیاں اور کوتاہیاں اس کے سامنے آتی جارہی تھیں۔

سات برس کا بیوی کا رویہ اور اس کا کردار اس کے سامنے تھا اگر وہ اس مغربی ملک کی لڑکی ہوتی تو کب کی اسے چھوڑ کر جاچکی ہوتی، یہ تو اس کی تعلیم وتربیت پاکستان میں ہوئی تھی۔ اب اسے اپنی ہر زیادتی کا احساس ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ شازی اسے چھوڑ کر اپنے راستے بدل لیتی۔ اس نے اپنے آپ کو بدلا۔

…٭…

آج شازی صبح اٹھی تو اسنے سلیم کو ایک نئے روپ میں دیکھا

سلیم؛؛ شازی آپ ناشتہ بناو میں نعیم کو اٹھا رہا ہوں…ابھی وہ سلیم کے اس رویے سے باہر بھی نہیں نکلی تھی کہ ناشتہ بناکر کچن سے باہر آئی تو سلیم کو اپنے کپڑے استری کرتے دیکھا۔ اسے ایک گوناگون تسکین محسوس ہوئی۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا شکر الحمد للہ…

سلیم کی شخصیت کی تبدیلی

اس کے گھروندے کی بقا و سلامتی کے لیے بہت ضروری تھی جسے خود سلیم نے بھی محسوس کیا۔

حصہ