ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کا مذاکرہ اور مشاعرہ

281

ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت گزشتہ ہفتے ریڑھی گوٹھ لانڈھی میں ممتاز شاعر رشید خان رشید کی یاد میں ایک مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں پروفیسر شاہد کمال صدر تقریب تھے۔ اختر سعیدی مہمان خصوصی اور قاسم جمال مہمان اعزازی تھے۔ محمد علی گوہر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوت کلام مجید کی سعادت محمد ارمان نے حاصل کی۔ اختر سعیدی اور محمد علی گوہر نے رشید خان رشید کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان دونوں نے اپنے اشعار میں رشید خان کی شخصیت کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالی۔ قاسم جمال نے کہا کہ رشید خان رشید کے انتقال کو تین سال ہو گئے لیکن وہ اپنی خدمات کے تناظر میں آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ مظہر ہانی نے کہا کہ رشید خان رشید زندہ دل انسان تھے۔ وہ زندگی کے مسائل سے نبرد آز ما رہے لیکن کسی بھی مقام پر ہمت نہیں ہاری۔ ان کی ترقی کا سفر جاری رہا۔ ان کی شاعری کی دو کتابیں اردو ادب میں موجود ہیں وہ مشاعروں اور دیگر تقریبات میں نظامت بھی کرتے تھے‘ وہ زندگی کے کئی شعبوں سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے نام کمایا تھا‘ وہ کسی بابِ رعایت سے میدانِ عمل میں نہیں آئے۔ ان کے اشعار ہمارے ذہنوں پر نقش ہیں‘ ان کے کلام میں جدید استعارے اور جدید لفظیات نظر آتی ہیں۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتے تھے ان کی شاعری بہت دل کش اور جاذبِ نظر ہے۔ صاحبِ صدر پروفیسر شاہد کمال نے کہا کہ رشید خان رشید صحافت کے میدان میں بھی اپنی پہچان رکھتے تھے‘ وہ پندرہ روزہ جریدہ نیکڈ آئی کے اسٹاف رپورٹر تھے اس کے علاوہ وہ ادبی سرگرمیوں کا احوال بھی لکھتے تھے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مشاعرے میں شاہد کمال‘ اختر سعیدی‘ انورانصاری‘ محمد علی گوہر‘ ڈاکٹر نثار‘ یوسف چشتی‘ افضل ہزاروی‘ مظہر ہانی‘ احمد خیال‘ تنویر سخن‘ کامران صدیقی‘ مرزا عاصی اختر اور تاج علی رانا نے اپنا کام پیش کیا۔

مشاعرہ پرفارمنگ آرٹ بن چکا ہے‘ رضوان صدیقی

مشاعرہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے لیکن اب مشاعرے کے انداز بدل گئے ہیں‘ اب مشاعرہ پرفارمنگ آرٹ بن چکا ہے جو شاعر‘ سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے گا وہ کامیاب رہے گا۔ اب زیادہ تر شعرا بیاض دیکھ کر کلام نہیں پڑھتے بلکہ انہوں نے غزلیں یاد کر لی ہیں‘ وہ انہی غزلوں کو پڑھ رہے ہیں اور خوب داد و تحسین وصول کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر‘ ادیب اور سماجی رہنما رضوان صدیقی نے شاہدہ عروج کے گھر ایک مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا شاہدہ عروج تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہیں‘ ان کے معاون و مددگار ان کے شوہر پروفیسر انور صدیقی ہیں۔ شاہدہ عروج نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ آج کا مشاعرہ کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے ادب دوست افض خان کے لیے ترتیب دیا گیا ہے جس میں گلنار آفرین اور پروفیسر رضیہ سبحان مہمانانِ خصوصی ہیں جب کہ عشرت حبیب نظامت کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر زمانے میں شعرائے کرام نے اپنے کلام سے عوام میں بیداری پیدا کی ہے۔ شعرا ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو ماضی‘ حال اور مستقبل کے روّیوں پر اپنی نگاہیں جمائے رکھتا ہے۔ مشاعرے میں گلنار آفرین‘ رضیہ سبحان‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ رانا خالد محمود‘ شاہدہ عروج ‘ محمد اسلام‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ گل افشاں اور عشرت حبیب نے اپنا کلام پیش کیا۔ صاحب اعزاز افضل خان نے کہا کہ آج کے مشاعرے میں بہت اچھی شاعری پیش کی گئی‘ ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام سنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا میں بھی اردو زبان بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے وہاں بھی مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن وہاں کی شاعری کے عنوانات پاکستان کی شاعری سے مختلف ہیں۔
بزمِ اردو پاکستان کراچی کا مشاعرہ
بزمِ ا ردو پاکستان کراچی ہر مہینے مشاعرے کا اہتمام کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک پروگرام ہوا جس کی صدارت اختر سعیدی نے کی۔ عارف ہاشمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جمیل ادیب سید نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ اس وقت کراچی کے شعرا میں گروہ بندیاں ہیں جس کی وجہ سے شعر و سخن کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تاکہ ارد ادب مزید ترقی کرے۔ عارف ہاشمی نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے‘ ہر کوئی شعر نہیں کہہ سکتا۔ ہر معاشرے میں شاعروں کی اہمیت مسلم ہے‘ وہ معاشرے کے نباض ہوتے ہیں‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم شعرائے کرام کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اختر سعیدی نے کہا کہ اس وقت ہمارا ملک بے شمار مسائل سے نبرد آزما ہے‘ شعرائے کرام اس مشکل وقت میں اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کی ہمت بڑھا رہے ہیں۔ فنونِ لطیفہ میں شاعری ایک ایسا فن ہے جو براہِ راست ہمارے ذہنوں پر اثر رکھتا ہے۔ اچھے اشعار سے معاشرے میں بہتری پیدا ہوتی ہے اور امن و امان قائم ہوتا ہے۔ اس موقع پر صاحب صدر کے علاوہ ڈاکٹر نثار‘ نظر فاطمی‘ جمیل ادیب سید‘ تنویر سخن اور عارف ہاشمی اپنا کلام پیش کیا۔
nn

حصہ