لوگوں نے سنجیدہ چیزیں پڑھنا چھوڑدی ہیں،پروفیسر سحر انصاری کا ایک یادگار انٹریو

288

(دوسرا اور آخری حصہ)

اے اے سید: آپ نے زندگی کے بہترین سال تدریس کو دے دیے ہیں حالانکہ زندگی کیسے گزری آپ کو اس پر کوئی ملال ہے تو کیا آپ کے پاس چوائس موجود تھی‘ اس طرح زندگی بسر کرنے کا مشورہ کسی اور کو دے سکتے ہیں جب کہ آپ کے پاس بھی چوائس موجود تھی؟

سحر انصاری: جی ہاں آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس دوسری بہت سی چوائس موجود تھیں لیکن میں نے تدریس کو اختیار کیا اور اب بھی میںیہ کہتا ہوں کہ جو لوگ ایک قناعت پسندانہ زندگی گزار سکتے ہیں اور جن کی مادّی ضروریات بہت زیادہ نہیں ہیں‘ انہیں تدریس ہی کی طرف آنا چاہیے اور یہ ایک ایسی مصروفیت ہے یا ایک ایسہ پیشہ ہے جس میں انسان کا دماغ ہمیشہ بیدار اور تخلیقی سطح پر کام کرسکتا ہے اگر اسے اپنے پیشے سے واقعی محبت‘ شفقت اور خلوص ہے اور میں اپنے طالب علموں کو‘ خاص طور پر وہ جو خواتین ہیں‘ انہیں مشورہ دیتا ہوںکہ خواتین کے لیے تدریس سے بہتر پیشہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ تو میں تو اس کے حق میں ہوں اور مجھے کوئی پچھتاوا اور ملال نہیں۔

اے اے سید: ساری دنیا کا یہ نعرہ ہے کہ ’’علم سب کے لیے‘‘ لیکن ہمارے حکمرانوںکا نعرہ لگتا ہے کہ یہ ہے ’’جہالت سب کے لیے‘‘ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کو آزاد ہوئے ساٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن شرح خواندگی 40 فیصد کو بھی بڑی مشکل سے عبور کر پا رہی ہے۔

سحر انصاری: خواندگی کی جو شرح آپ بتاتے رہے ہیں وہ اس سے بھی کم ہے۔ تو بات یہ ہے کہ جیسے میں نے عرض کیا کہ کوئی ایک تعلیمی نظام نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے معاشی دوڑ بڑھتی جا رہی ہے‘ زراندوزی کی دوڑ بڑھتی جار ہی ہے تو اس میں یہ کوشش ہو رہی ہے جس میں لفظ استعمال ہو رہا ہے کہ Job Orlonted Education یعنی ایسی تعلیم حاصل کی جائے جس سے روزگار ملے۔ اور اس کے لیے ہر آدمی اس کوشش میں ہے کہ مجھے جلدازجلد کاغذ کا ایک ٹکڑا مل جائے اور اس کی بدولت میں ملازمت حاصل کر لوں۔ تو یہ رجحان بہت خطرناک ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ تو اس لحاظ سے شرح خواندگی کم ہو رہی ہے۔ اس طرح ہم دو طرفہ عذاب میں مبتلا ہیں۔

اے اے سید: ایک تاثر یہ ہے کہ تعلیم کی طرف بحیثیت مجموعی حکومت کی کوئی توجہ نہیں‘ اگر ہے بھی تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف ہے۔ عمرانی علوم کی تعلیم کی طرف رجحان بالکل نہیں ہے اور بتدریج ان کو ختم کرنے کا بھی پروگرام ہے۔

سحر انصاری: یہ غلط رجحان ہے‘ میں اس فکر اور سوچ کے خلاف ہوں اور میں خود سائنس کا طالب علم رہ چکا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میرا یہ یقین ہے کہ جب تک آپ تمام عمرانی علوم یا جن کو آپ Social Sciences کہتے ہیں‘ نہیں ہوںگے‘ معاشرے میں توازن پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس پر میں لکھتا بھی رہا ہوں اور بہت کچھ اس پر میں نے کہا بھی ہے بلکہ جب ڈاکٹر عبدالوہاب وائس چانسلر تھے تو انہوں نے میری اس تجویز کو سرکاری طور پر قبول کیا کہ سائنس والوں کو سوشل سائنس کے مضامین سے آگاہ کیا جائے اور سوشل سائنس والوں کو سائنس کی جو فکر اور ارتقا ہے اس سے‘ تاکہ توازن پید اہو۔ اس پر کچھ دن عمل ہوا لیکن ہمارے ہاں جو رجحان ہے کہ شخص کے بدلنے سے پوری پالیسی بدل جاتی ہے‘ وہ بات جوں کی توں ہے۔

اے اے سید: آپ ایک عرصے سے استاد کی حیثیت سے ملک کی سب سے بڑی جامعہ‘ جامعہ کراچی میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا واقعی طلبہ تنظیمیں تعلیم اور تحقیق کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہیں یا وہ شعور اور ترویج کا ایک ذریعہ ہیں؟ ان پر پابندی دو دہائیاں پار کر چکی ہے‘ اس کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

سحر انصاری: اصل میں‘ میں خود بھی طالب علمی کے زمانے میں الیکشن میں حصہ لیتا رہا ہوں‘ میرے کلاس فیلوز میں منور حسن صاحب شامل ہیں۔ اس طرح اور بھی بہت سی شخصیات ہیں جو مختلف شعبوں میں ہیں جیسے نفیس صدیقی‘ امیر حیدر کاظمی اور معراج محمد خان‘ یہ حضرات جو سیاست میں نمایاں ہیں یہ ہمارے ساتھ ہی تھے۔ تو ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک آپ طلبہ تنظیموں کو الیکشن کا حق نہیں دیں گے آپ کا ملک سدھر نہیں سکتا‘ اس لیے کہ وہ تربیت گاہ ہے جہاں سے لوگ سیاسی اور جمہوری شعور لے کر نکلتے ہیں اور یہ بات چونکہ ایوب خان کے زمانے میں سختی سے نافذ کی گئی تھی اس لیے آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں لیڈر شپ کا پیدا ہونا ہی ختم ہو گیا ہے کیوں کہ یہ آتے تھے تعلیمی درس گاہوں سے‘ کوئی انفرادی طور پر کچھ بن جائے تو بن جائے لیکن جسے آپ سیاسی تربیت کا ادارہ کہتے تھے وہ ختم ہو گیا ہے‘ اساتذہ کا بھی چونکہ ایک خود مختار پیشہ ہوتا تھا تو وہ پڑھاتے بھی تھے اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے اور اس سے کسی کو کوئی شکایت بھی نہیں ہوتی تھی کیوں کہ وہ معاشرے کو سدھارنے کا عزم ذہن میں لے کر آتے تھے نا کہ تخریب کاری ان کے ذہن میں ہوتی تھی۔ تو میں تو اس کے خلاف ہوں کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔

اے اے سید: آپ کا شمار ہمارے ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے یہاں تخلیق اور تنقید دونوں دھارے بہتے ہوئے ملتے ہیں‘ آپ کے شعری مجموعے تو دیکھنے کو ملے ہیں لیکن آپ کی کوئی تنقیدی کتاب منظر عام پر نہیں آسکتی ہے‘ اس کی کوئی وجہ ہے؟

سحر انصاری: اس میں میری اپنی کچھ بے ترتیبی اور کاہلی کو بھی دخل ہے کہ میں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ مضامین تو بہت لکھے اور وہ اخباروں میںچھپے بھی‘ لیکن اب ان شاء اللہ میرا ارادہ ہے کہ بہت جلد اپنی کچھ نثری کتابیں بھی لے کر آئوںگا۔

اے اے سید: ماضی میں احتجاجی شاعری کو بہت وسعت حاصل رہی۔ یہ بتدریج ختم ہوتی جا رہی ہے بلکہ کہہ سکتے ہیںکہ ختم ہو گئی‘ اس کی کیا وجوہ ہیں؟

سحر انصاری: نہیں ایسا نہیں ہے‘ کیوں کہ احتجاج کے بھی کئی راستے ہیں‘ ایک تو سیاسی احتجاج ہوتا ہے‘ تو وہ تو اُس وقت ہوتا ہے جب معاشرے پر پابندی ہو‘ اگر لکھنے والے پابندی محسوس کر رہے ہیں تو وہ لکھ رہا ہے لیکن اس کے علاوہ احتجاج ہمارے سماجی اور مذہبی رویوں پر بھی ہوتا ہے‘ جیسے کاروکاری ہے‘ بچوںکو محنت بنانا یا ہمارے ہاں جو جسم فروشی ہے‘ تعلیم کی کمی ہے اس پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کو بھی احتجاجی شاعری میں شمار کیا جائے گا۔

اے اے سید: ذرائع ابلاغ کی یلغار اور بدلتے ہوئے ذوق کے پیش نظر یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ادب کے دن گنے جا چکے ہیں۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ موجودہ نوجوان نسل ہمارے ادب کی تخلیقی روایات کو زندہ بھی رکھے گی اور آگے بڑھائے گی؟

سحر انصاری: دیکھیں صاحب! میں تو نئی نسل سے کبھی مایوس نہیں ہوتا‘ کیوں کہ میں نے اب سے سات ہزار سال پہلے کی ایک تحریر پڑھی تھی جو مصر سے تعلق رکھتی ہے‘ اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ نئی نسل بہت بے راہ رو ہو گئی ہے۔ تو نئی نسل سات ہزار سال پہلے بھی بے راہ رو تھی اور آج بھی ہے‘ لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ اگر ان کے اندر تھوڑا سا اجنبی ہونے یا اپنے ہدف سے ہٹنے کا رخ ملتا ہے تو یہ ہمارے معاشرے کی بہت کچھ غلطیوں کا شاخسانہ ہے‘ ورنہ میں دیکھتا ہوں کہ نئی نسل میں بڑا جذبہ ہے‘ کام کرنے کے اس کے اندر بڑے حوصلے ہیں۔ آپ کسی بھی موقع پر اسے دیکھ لیں‘ پچھلے زلزلے کے اندر اس نے کیا خدمات انجام دی ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ آپ ان کی ترجیحات کی جانب لا نہیں رہے مثلاً لائبریریاں نہیں ہیں‘ ادارے نہیں ہیں‘ نوجوانوں کے لیے اخبارات نہیں ہیں‘ کوئی فورم نہیں‘ تنقیدی نشستیں نہیں‘ ایسی بیٹھکیں نہیں ہیں جہاں بیٹھ کر وہ بزرگوں سے کچھ حاصل کریں۔ تو بتدریج یہ چیزیں ختم ہوتی جا رہی ہیں‘ پہلے کیفے کلچر تھا‘ لوگ ہوٹلوں میں آکر بیٹھتے تھے‘ بحث ہوتی تھی‘ اب یہ چیزیں رفتہ رفتہ ختم ہو گئیں۔ لیکن میں اس سے مایوس نہیں ہوں کیوں کہ دائرہ وار ایک چیز سفر کر رہی ہے۔ Cycle ہوتا ہے یہ معاملہ تو اس کے بعد یقینا ایک ایسا رخ آئے گا جس میں دوبارہ یہ چیزیں زندہ ہوں گی۔

اے اے سید: کراچی اور لاہور میں کن نوجوان شاعروں کو آپ اہمیت دیتے ہیں؟

سحر انصاری: (کافی سوچنے کے بعد) لاہور میں عباس تابش بہت اچھے شاعر ہیں‘ اس کے علاوہ وہاں خواتین میں یاسمین حمید ہیں‘ شہنازمزمل ہیں۔ یہ اچھا شعر کہتے ہیں اور یہاں کراچی میں بھی جیسے خالد معین ہیں‘ حجاب عباسی ہیں اور اجمل سراج ہیں‘ نعمان جعفری ہیں‘ شاہدہ تبسم ہیں‘ شاہنواز فاروقی ہیں‘ فراست رضوی ہیں اور دیگر کئی افراد ہیں۔ کئی نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہے لیکن ان لوگوں کو نوجوان شاعر کہنا بھی مشکل ہوتا ہے کیوں کہ تیس‘ پینتیس سال تک وہ اپنی شناخت ہی بنا پاتا ہے‘ لیکن بہر حال یہ لوگ بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔

اے اے سید: آپ نے مجلسوں اور بیٹھک کا ذکر کیا‘ یہ کراچی میںختم ہوگئی ہیں۔ ماضی میں ریڈیو پاکستان اس کا مرکز تھا اور سلیم احمد اور قمر جمیل کے گھر پر بھی شعرائے کرام کی تعداد جمع ہوتی تھی‘ لیکن اس کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور یہ ساری چیزیں بھی اپنے ساتھ لے گئے تو میں یہ پوچھنا چاہوں کہ اس کا شہر کے مزاج پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

سحر انصاری: اس کا اثر پڑ رہا ہے‘ اس لیے کہ لوگوں نے سنجیدہ چیزیں پڑھنا چھوڑ دی ہیں‘ مکالمہ ختم ہوتا ہوا نظر آتا ہے‘ اس لیے کہ جب ان محفلوں میں بیٹھتے تھے تو کسی بحث کا موضوع‘ کسی کتاب کا ذکر‘ کسی زاویے سے ادب کا کوئی پہلو زیر بحث آتا تھا لیکن اب جب وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا تو کیا کہا جاسکتا ہے‘ افسوس ناک صورت حال ہے۔

اے اے سید: وہ طالب علم جو کچھ پڑھنا چاہتے ہوں‘ ان کو آپ کیا مشورہ دیں گے‘ وہ کیا پڑھیں‘ کن کو پڑھیں؟

سحر انصاری: دیکھیں فکشن میں ہمارے بہت لوگ ہیں جیسے قرۃ العین حیدر‘ عصمت چغتائی‘ ممتاز مفتی‘ اشفاق احمد‘ احمد ندیم قاسمی… ان کو پڑھا جاسکتا ہے‘ اسی طرح شاعری میں بھی علامہ اقبال سے لے کر دورِ حاضر تک بہت اچھے نام ہیں‘ ان کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ جب ان سے دل چسپی پیدا ہو تو اس سے پہلے کہ جنہیں ہم کلاسیکل یا قدیم شاعر کہتے ہیں انہیں پڑھیں‘ تنقید پڑھیں اور ذمہ داری سے پڑھیں اور کچھ سیکھیں۔مطالعہ کرکے جب تک یہ محسوس نہ ہو کہ آپ نے کچھ سیکھا‘ آپ کے ذہن میں کچھ تغیر پیدا ہوا تو وہ مطالعہ نہیں ہے‘ وہ محض وقت گزاری ہے۔ صفحات سے سرسری طور پر گزر جانے کا نام مطالعہ نہیں ہے۔ غور و فکر کرنا چاہیے اور انے مزاج کے مطابق اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اے اے سید: کن کن ممالک کا سفر کیا ہے آپ نے‘ اور ان میں سے کون سا پسند آیا؟

سحر انصاری: ممالک تو بہت ہیں‘ سب سے پہلے تو 1971ء میں افغانستان گیا تھا‘ اس کے بعد پھر سعودی عرب‘ امارات‘ ایران‘ چین‘ جاپان اور بھارت‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ جرمنی وغیرہ جب کہ مجھے ذاتی طور پر جاپان اور ایران بہت پسند آئے۔ ایران تو اس لحاظ سے کہ ان کی اپنی زبان‘ تہذیب‘ شائستگی اور ان کا ایک جمالیاتی رخ ہے۔ اور جاپان میں جو ہے وہ ان کی وقت کی پابندی‘ محنت اور ان کا اپنا یقین۔ دیکھیں انہوں نے اتنے بڑے سانحے کے بعد (ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ) بھی اپنے آپ کو سنبھالا۔ تو وہ قوم تو قابل قدر ہے‘ مجھے تو بہت پسند آئی۔

اے اے سید: قارئین کو اپنے اشعار کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہتے ہوں؟

سحر انصاری: میں تین چار شعر پڑھ دیتا ہوں‘ ان ہی سے کوئی پیغام نکلتا ہوگا۔

اپنے خوں سے جو ہم اک شمع جلائے ہوئے ہیں
شب پرستوں پہ قیامت بھی تو ڈھائے ہوئے ہیں
جانے کیوں رنگِ بغاوت نہیں چھپنے پاتا
ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں
وقت کو ساعت و تقویم سمجھنے والو
وقت ہی کے تو یہ سب حشر اٹھائے ہوئے ہیں
اس تماشے میں ہے کیا ان کا بھی کوئی کردار
ہم سے کچھ لوگ‘ جو آئے نہیں لائے ہوئے ہیں
محفل آرائی ہماری نہیں افراد کا نام
کوئی ہو یا کہ نہ ہو آپ تو آئے ہوئے ہیں
اس تبسم کو بھی انعام سمجھتے ہیں سحر
ہم بھی کیا قحطِ محبت کے ستائے ہوئے ہیں

اے اے سید: بہ شکریہ۔
سحر انصاری: آپ کا بھی شکریہ۔

حصہ