ایک ارب 72کروڑ عوام کا مستقبل

312

برعظیم ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش کی مجموعی آبادی ایک ارب 72 کروڑ ہے۔ ہندوستان کی مجموعی آبادی ایک ارب 25 کروڑ، پاکستان کی 25 کروڑ اور بنگلہ دیش کی 22 کروڑ ہے۔ تینوں ملکوں کی آبادی پوری دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ بھارت دنیا کا سب سے بڑا سیکولر اور جمہوری ملک ہے، اس کا سیکولرازم اب آخری سانس لے رہا ہے کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کھلم کھلا ہندوتوا کی علَم بردار ہے اور مودی جیسا انتہا پسند گزشتہ ایک دہائی سے بین الاقوامی دباؤ کے باوجود بڑی ہٹ دھرمی اور بے شرمی کے ساتھ اکھنڈ بھارت کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے مشن پر عمل پیرا ہے۔

یوں تو بھارت آزادی کے فوراً بعد سے اپنے علاقائی توسیع پسندانہ عزائم کو پورا کررہا ہے۔ تازہ واردات اگست 2019ء میں بھارت کے آئین کو پامال کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت کا صوبہ قرار دینا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے کپل شرما کی درخواست پر بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمہ بھی چل رہا ہے۔

بھارت میں شیڈول کے مطابق جنوری 2024ء میں پارلیمنٹ کے عام انتخابات ہونے ہیں جس پر آگے چل کر حاشیہ آرائی کروں گا۔

بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی پاکستان تھا، 1971ء میں عوامی لیگ کی آزادی کی تحریک، بھارت، اور پاکستان دشمن عالمی طاقتوں کی سازشوں اور استحصالی رویّے کے نتیجے میں پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا جو مختلف ادوار میں فوجی بغاوتوں کے بعد خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد کی جمہوری حکمرانی میں اپنی منازل طے کررہا ہے۔ فی الحال گزشتہ ایک دہائی سے حسینہ واجد حکومت کی جانب سے جمہوریت کے نام پر حزبِ اختلاف بالخصوص جماعت اسلامی کے قائدین، ارکان و کارکنان کے ماورائے انصاف قتل اور قید و بند کا نہ رکنے والا جابرانہ اور منتقمانہ سلسلہ جاری ہے۔

بنگلہ دیش میں بھی جنوری 2024ء میں پارلمینٹ کے انتخابات ہونے ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ بنگلہ دیش بھارت کا بغل بچہ ملک بن کر رہ گیا ہے اور بھارتی حکومت کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ بنگلہ دیش بھارت کی بین الاقوامی پالیسی سے انحراف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بنگلہ دیش کے انتخابات کا نتیجہ بھی بھارتی اثر رسوخ کا مرہونِ منت ہے۔ بنگلہ دیش کی درآمدات پر بھارت کے گہرے سائے ہیں۔

پاکستان اپنی آزادی سے لے کر اب تک اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے،اور فوجی حکمرانوں اور کٹھ پتلی جمہوری حکمرانوں کے درمیان سانپ اور سیڑھی کے کھیل کے باعث دلدل میں دھنس گیا ہے۔

یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پاکستان میں بھی جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں قومی و صوبائی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک ہے جس کا شمار 25 کروڑ آبادی رکھنے اور اہم جغرافیائی محلِ وقوع، بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ملکوں میں کیا جاتا ہے، جو کرپشن میں بدترین ملک کے طور پر جانا جاتا ہے اور دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ 76 سال میں پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملا اور نہ عوام کو اس سے فوائد حاصل ہوئے۔ بار بار مارشل لا اور فوجی مداخلت نے بین الاقوامی سطح پر ریاست کے تمام اداروں کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکی۔ اب تک ملک میں ہونے والے انتخابات کو شفافیت حاصل نہ ہوسکی۔ سیاست دانوں کا کردار بھی عوامی سطح پر اب قابلِ قبول نہیں رہا۔ سیاست دانوں کی اکثریت نظریۂ ضرورت کے تحت پارٹی بدل لیتی ہے جسے عوام الناس میں ’’لوٹا کریسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عوام کی اکثریت انتخابی سیاست پر عدم اعتماد رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی بھی پچاس فیصد سے زائد ووٹ نہیں ڈالے گئے۔

ملکی سطح پر اور دنیا میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں انتخابات اسٹیبلشمنٹ کے اشارے اور فیصلوں کے مطابق ہوتے ہیں، اور اسٹیبلشمنٹ جس پارٹی کو چاہتی ہے اور جب تک چاہتی ہے مسندِ اقتدار پر بٹھا کر رکھتی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی جیت اور کرسیِ اقتدار پر قبضہ اور پھر 2022ء میں اقتدار سے بے دخلی اسٹیبلشمنٹ کی ہی کارستانی تھی۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت… یہ سب پس پردہ مقتدرہ کا ہی کارنامہ ہے۔ گو کہ ملک کو منجدھار میں ڈالنے کے بعد غیر جانب داری کا اعلان خوش آئند تو لگتا ہے مگر قابلِ اعتماد نہیں۔ لہٰذا آئندہ سال جنوری میں ہونے والے انتخابات کا اعلان بھی عوامی سطح پر توقعات کے بین بین ہے۔ نیز اس کی شفافیت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

ہندوستان میں ہونے والے گزشتہ دو انتخابات میں پاکستان دشمنی اور اندرون ملک مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی پروپیگنڈہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کا سبب بنا، اور اب آنے انتخابات سے پہلے پاکستان کے خلاف پلوامہ جیسی کوئی نہ کوئی حرکت بعید از امکان نہیں۔ اس کے علاوہ پورے ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ حرکت میں آچکے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف روزانہ ہزاروں کی تعداد میں نفرت انگیز پوسٹیں اور وی لاگز آن ائر کیے جارہے ہیں۔ جب سے بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات ہوئے ہیں یہ الزامات اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لگائے جاتے ہیں کہ EBM کے سافٹ ویئر میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ ووٹرز کی منشا کے خلاف ووٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی پڑتا ہے۔ بار بار مطالبے کے باوجود الیکشن کمیشن اس کی جانچ کرنے سے قاصر ہے۔ بھارت میں پاکستان کی طرح انتخابات سے قبل نگراں حکومت کا قانون نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت انتخابات پر پوری طرح اثرانداز ہوتی ہے اور ہوگی، لہٰذا بڑے پیمانے پر دھاندلی کا امکان موجود ہے۔ جبکہ ملک میں ہندوتوا کا بھوت رقصاں ہے۔ عوامی رائے عامہ کچھ بھی ہو، نتیجہ مودی سرکار کے حق میں ہی آنے کا خدشہ ہے۔

بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدگی کے بعد اب تک مختلف ادوار میں فوجی بغاوتوں اور مجیب الرحمن کے پورے خاندان کے ساتھ قتل کے بعد سیاسی افراتفری کا شکار رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے حسینہ واجد کی عوامی لیگ دھاندلی کے ذریعے برسرِاقتدار ہے اور خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد تو بلا شرکتِ غیرے جابرانہ پالیسی کے تحت حکومت کررہی ہے۔ وہ جماعت اسلامی پر نہ صرف پابندی لگا چکی ہے بلکہ بڑے پیمانے پر ماورائے انصاف اور قانون ہلاکتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ نگراں حکومت کے قانون کو بھی وہ کالعدم قرار دے چکی ہے جس کو بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ امریکہ، یورپی یونین اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے دباؤ بھی ڈال رہے ہیں مگر حسینہ واجد کی پشت پر بھارت کی حمایت موجود ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان ہے کہ حسینہ واجد کی سربراہی میں ہی انتخابات ہوں گے اور پچھلی دھاندلی کا ریکارڈ برقرار رہے گا۔ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر ہنگاموں اور قتل و غارت گری کا خدشہ بھی ہے۔

یہی برعظیم ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے جمہوری نظام حکومت، کلچر اور انتخابات کی روایات ہیں۔ جب کہ عوامی خواہشات کے برعکس دھن، دھونس اور دھاندلی سے حکومتیں بنتی ہیں۔

جنوری میں ہونے والے انتخابات اس پورے خطے کے عوام کی تقدیر اور مستقبل کا فیصلہ کریں گے، جب کہ یوکرین اور روس کی نہ ختم ہونے والی جنگ نے دنیا کے مختلف ملکوں میں نئی دھڑے بندی کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے ایشو بھی عالمی امن کے لیے خطرناک صورت حال پیدا کرسکتے ہیں۔ دنیا میں معاشی برتری اور استحصال کی کشمکش بھی زوروں پر ہے۔ اس تمام صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ خطہ اور یہاں کے لوگ مستقبل میں سخت ترین حالات سے دوچار ہونے والے ہیں۔

چینی ڈریگن عالمی معیشت کو آہستہ آہستہ نگل رہا ہے، تائیوان کسی وقت بھی عالمی امن کو تہہ و بالا کرسکتا ہے۔ بھارت میں G-20 کا حالیہ اجلاس چین کے خلاف امریکہ کی نئی صف بندی ظاہر کررہا ہے اور بھارت فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ لہٰذا مودی کی جیت ہی اس کو آگے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرنے والی ہے۔

وقت کی گردشوں کا بھروسا ہی کیا
مطمئن ہو کے بیٹھیں نہ اہلِ چمن
ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے
کھو گئے رہنما، لٹ گئے راہزن

حصہ