غزالہ اپنے گھر کی ہوگئی

397

”آؤ آؤ جی آیا نوں… بیٹا آج کیسے راستہ بھول گیا؟“

”چاچا یار محمد! تجھ سے ملنے کے لیے کبھی اِس علاقے تو کبھی اُس محلے کی گلیوں کا طواف کرنا پڑتا ہے۔“

”ہاں بیٹا تُو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ کرایہ داروں کی زندگی آوارہ پنچھی کی طرح ہوتی ہے جن کا ایک ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ خیر تُو سنا کیسے آنا ہوا؟“

”کوئی خاص بات نہیں، بس یونہی ملنے چلا آیا۔“

”بہت اچھا کیا، اور بتا کیسی گزر رہی ہے؟“

”چاچا میں تو بالکل ٹھیک ہوں، پَر تجھے کیا ہوگیا ہے؟ تین چار سال میں تو تیری حالت ہی بدل گئی ہے، لگتا ہے بڑھاپا آگیا ہے۔“

”ہاں بیٹا! آخر جانا بھی تو ہے نا… یہ جوانی بھی ہوا کی مانند ہوتی ہے، کب آئی کب چلی گئی پتا ہی نہیں چلا۔ اب تو زندگی کے دن پورے کررہا ہوں۔ وقت اتنی تیزی سے گزرا، خبر تک نہ ہوئی۔ تُو میری چھوڑ، اپنی طرف بھی تو دیکھ… ماشا اللہ جوان ہوگیا ہے۔ یہ بتا اتنا عرصہ کہاں غائب رہا؟“

”کہاں غائب ہونا تھا! یہیں تھا۔ جب سے نوکری پر لگا ہوں مصروفیت بڑھ گئی ہے، بس اس لیے ملاقات نہ ہوسکی۔ آج تیری یاد آرہی تھی سو ملنے چلا آیا۔ چاچا! غزالہ نظر نہیں آرہی، کہاں ہے؟ میرا مطلب ہے غزالہ دکھائی نہیں دے رہی، کہیں گئی ہوئی ہے کیا؟“

”اپنے گھر کی ہوگئی ہے۔“

”کیا مطلب؟“

”ارے شادی کردی ہے اُس کی۔“

”واہ چاچا اتنا بڑا کام کردیا اور بتایا تک نہیں! مبارک ہو۔ ویسے شادی کب اور کہاں کی ہے؟“

”بچپن سے بڑے بھائی نے مانگ رکھی تھی، اُسی کے بیٹے سے کی ہے۔ یہیں قریب رہتی ہے۔ ماشاء اللہ اب تو دو بچے ہیں اُس کے۔ بڑی بیٹی شبو تو اب چار سال کی ہوگئی ہے۔“

”بڑی خوشی کی بات ہے۔“

”کیسی خوشی! وہ بدقسمت تو کملا کر رہ گئی ہے، دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے، اپنے گھر کے ساتھ ساتھ میرا بھی دھیان رکھتی ہے، ابھی آتی ہی ہوگی۔“

”کیا کہہ رہا ہے چاچا! تیرا بھتیجا، میرا مطلب ہے اُس کا شوہر کچھ نہیں کرتا؟“

”ابا کون آیا ہے؟کس سے باتیں کررہا ہے؟“

”لے وہ آگئی۔ آجا آجا بیٹی، رفیق آیا ہے۔“

”کون رفیق؟“

”آرے پرانے محلے والا رفیق… وہ جس نے کبوتر پال رکھے تھے۔“

”اچھا اچھا رفیق بھائی آیا ہے۔ اسے کیسے یاد آگئی! شادی پر تو آیا نہیں، اتنا عرصہ غائب رہ کر اب کہاں سے آن ٹپکا!“

”واہ غزالہ واہ، کیا خوب کہا، تُو نے کون سا دعوت نامہ بھیجا تھا جو میں آتا!“

”ابا سے پوچھ، یہ اسی کی غلطی ہے۔“

”اچھا اچھا رہنے دے، یہ بتا اتنی گرمی میں ہانپتی کانپتی کہاں سے آرہی ہے؟“

”گھر چکر لگانے گئی تھی، اب نذیر صاحب کے گھر جارہی ہوں۔“

”پاگل، اتنی شدید دھوپ میں تھوڑا آرام کرلیتی، لُو لگ گئی تو بیمار پڑ جائے گی۔“

”آرام کیا کرنا! ہماری زندگی میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، بس سارا دن یونہی بھاگ بھاگ کر گزر جاتا ہے، اگر آرام کرنے کے لیے بیٹھ جائیں تو دو وقت کی روٹی سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔“

”غزالہ تُو تو گھر میں سلائی کڑھائی کیا کرتی تھی نا، کیا ہوا، اب نہیں کرتی؟“

”وہ کام بھی کرتی ہوں، اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے گھر جھاڑو پوچا بھی کررہی ہوں۔“

”ٹھیک ہے، پَر اپنی صحت کا خیال بھی رکھ، اچھی رہے گی تبھی تو کام کرسکے گی۔ اتنی گرمی میں گلیوں کے چکر لگانے کی کیا پڑی ہے!“

”رفیق بھائی! یہ تو روز کا معمول ہے۔ بچہ چھوٹا ہے اس لیے دیکھنے جانا پڑتا ہے۔ یہ شبو بڑی لاپروا ہے، باہر کھیلنے نکل جاتی ہے۔“

”میں سمجھا نہیں۔ اور یہ شبو بیچ میں کہاں سے آگئی! بھئی چار سے پانچ سال کی بچی کھیلے گی نہیں تو اور کیا کرے گی! اور پھر وہ تو خود ابھی چھوٹی ہے، اتنی سی عمر میں بچے کیسے سنبھال سکتی ہے! اس کی عمر تو اسکول جانے کی ہے۔ کہیں داخلہ وغیرہ کروایا کہ نہیں؟“

”کہہ تو رہی ہوں کہ میرا بچہ ابھی چار ماہ کا ہے، صبح کام کرنے جاتی ہوں تو اسے شبو کے حوالے کرکے جاتی ہوں، اسی لیے درمیان میں گھر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اور جہاں تک پڑھائی کروانے کا تعلق ہے تو جس کے خاندان کے کسی فرد نے کبھی اسکول کا دروازہ تک نہ دیکھا ہو اس کا پڑھنے سے کیا واسطہ! آخر کو ہماری طرح لوگوں کے گھروں میں کام ہی کرنا ہے۔ اب جھاڑو پوچا کرنے کے لیے بھلا کون سی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے! اور پھر جس کے گھر روٹیوں کے لالے پڑے ہوں اُس کا کتابوں سے کیا تعلق! اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ کاغذ کی کتابیں پیٹ کی آگ نہیں بجھاتیں، اس کے لیے دو وقت گندم کی روٹی چاہیے ہوتی ہے۔ پڑھنا پڑھانا ہمارے نصیب میں کہاں! یہ پیٹ بھرے لوگوں کا ہی کام ہے۔ جو خاندانی افسر ہیں ان کی نسل میں ہی بابو پیدا ہوتے ہیں۔ ہم کمیوں کا کام تو ان خاندانوں کی سیوا کرنا اور ان کے سامنے سر جھکا کر زندگی گزارنا ہے۔ تُو تو اچھی طرح جانتا ہے کہ ابا نے ساری زندگی بچوں کو جھولا جھلا کر ہماری پرورش کی ہے۔ ایک جھولے والے کی اولاد کے نصیب میں بدحالی اور پریشانی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے!“

”غزالہ ایسی باتیں نہیں کرتے۔ تعلیم حاصل کرنا تو ہر کسی پر فرض ہے۔ اور جہاں تک رہی نصیبوں کی بات… اپنے نصیب کو برا بھلا کہنے سے رب ناراض ہوتا ہے۔ اچھے برے حالات تو انسانی زندگی میں امتحان کا درجہ رکھتے ہیں، جو ان حالات میں صبر اور شکر کے ساتھ وقت گزارتے ہیں کامیابی بھی انہی کو ملا کرتی ہے۔ تُو دل چھوٹا نہ کر، سب اچھا ہوجائے گا۔“

”رفیق بھائی! حالات کے ساتھ تو لڑتے آرہے ہیں، جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ ہم صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں، پَر معاشرہ بڑا خراب ہے، لوگوں کی نگاہوں میں ہماری کوئی عزت نہیں، عورت ذات ہونا بھی جرم ہے، کسی کے گھر کام کرنے جاؤ یا کسی فیکٹری میں… ہر دوسرا شخص ہمارے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتا ہے۔ تُو خود سوچ اگر ہمارے کردار میں کوئی کھوٹ ہوتا تو یوں در در جاکر غلامی کرتے؟ لوگوں کے گھروں میں جاکر اس طرح محنت کرتے؟ خیر، لوگوں کی عقلوں پر پردے پڑ جائیں تو کوئی کیا کرسکتا ہے! بھائی یقین کر، دنیا بڑی ظالم ہے، خاص طور پر غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کی تو زندگی حرام ہے۔ پہلے گارمنٹ فیکٹری میں کام کیا اور اب محلے کے چار گھروں میں جاکر کام کرتی ہوں، سارا مہینہ کولھو کے بیل کی طرح مشقت کرنے کے بعد 48 سو روپے ملتے ہیں۔ میرا شوہر مزدوری کرتا ہے، کبھی کام ہوتا ہے اور کبھی سارا دن بیٹھ کر آجاتا ہے۔ اگر پورا مہینہ کام چلے تو 24000روپے ملتے ہیں۔ تین خاندانوں نے مل کر 15000 روپے ماہوار کرائے پر مکان لے رکھا ہے۔ ہمارے حصے میں 5000روپے آتے ہیں، 5000 بجلی جبکہ 1200 روپے گیس کے بل کی مد میں چلے جاتے ہیں۔ اب بچی ہوئی رقم میں گھر کیسے چلائیں؟ کیا کھائیں؟ دوا دارو کہاں سے کریں؟ اس کے علاؤہ سو ضروریاتِ زندگی کیسے پوری کریں؟ پیٹ بھرنے کی خاطر جینے کے نام پر اپنی ہڈیوں کا عرق نکال رہے ہیں اور اس پر معاشرے کی جانب سے اٹھتی انگلیاں! جائیں تو کہاں جائیں!“

”غزالہ! سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، چند لوگوں کی وجہ سے سارے معاشرے کو موردالزام ٹھیرانا اچھی بات نہیں۔ اسی کا نام دنیا ہے۔“

”اچھا چھوڑ اس قصے کو، میں بھی کیا باتیں سنانے بیٹھ گئی، ہمیں کسی سے کیا لینا، ہمارے اپنے مسائل کم ہیں جو کسی کے بارے میں بات کریں! بے شک اس دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں، پچھلے دنوں میری بچی بیمار پڑ گئی تھی اور گھر میں زہر کھانے کے لیے بھی پیسے نہ تھے، اس کے علاج کے لیے پیسوں کی سخت ضرورت تھی، اس پریشانی میں کبھی اِس در تو کبھی اُس در ہاتھ پھیلانا پڑا۔ خدا بھلا کرے آپا کلثوم کا، جنہوں نے میری مدد کی، بچی کا علاج کروایا۔ یہ ایک دن کا مسئلہ نہیں، ایسی کئی پریشانیوں سے روز لڑنا پڑتا ہے۔ آپا کلثوم اکثر مالی مدد کرتی رہتی ہیں، خدا اُن کو اجر دے۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ کسی کے دینے سے کبھی پورا نہیں پڑتا، حالات کی چکی تلے غریب ہر روز پستا ہے۔ تجھ سے پرانی واسطے داری ہے اس لیے دل کی بھڑاس نکال رہی ہوں۔ تیرا گھر بار اسی شہر میں ہے جہاں سہولیات بھی میسر ہیں۔ ہم جن علاقوں سے آئے ہیں وہاں بنیادی سہولت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہاں لوگ بااثر وڈیروں، چودھریوں اور جاگیرداروں کے ظلم کی وجہ سے غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات غریبوں کے لیے خواب بنادی گئی ہیں۔ جہاں انسانوں اور جانوروں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔“

رفیق اور غزالہ کی باتیں سن کر میرے پاس سوائے خاموشی کے کچھ نہ تھا۔ اس کے ایک ایک جملے سے اٹھتی آہ و فغاں سن کر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ خدارا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی اصولوں کی حامل ایسی ریاست بنادیجیے جہاں ایک غریب بھی سر اٹھا کر باعزت زندگی گزار سکے۔ غزالہ کی باتوں سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے شہروں سے آنے والی خواتین بہت باہمت اور جفاکش ہوتی ہیں، اس لیے وہ محنت مزدوری کی خاطر سخت کام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ بہت سے گھرانوں کے مرد بھی اپنی عورتوں کے ساتھ بڑے شہروں میں کام کی غرض سے عارضی رہائش اختیار کرتے ہیں، مگر زیادہ تر خاندانوں کے مرد گائوں ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ خواتین بڑے شہروں میں اپنے بچوں کے ساتھ عارضی ٹھکانوں میں سکونت اختیار کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ عورتوں کا اکیلے رہنا معیوب سمجھا جاتا ہے اس لیے خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر کی کچی آبادیوں میں یہ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ گروہ اور جتھوں کی صورت یا ایک مکان میں کئی خاندانوں کے ساتھ مل کر رہتی ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی گاڑی کھینچنے میں جُت جاتی ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے۔ ایسے خاندان انتہائی ناقص ذرائع آمد و رفت کے مصائب اُٹھاکر بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے جس حد تک اور جہاں تک ممکن ہو زندگی کی جنگ لڑتے رہتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان گھرانوں کی عورتیں دن بھر گھروں پر کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اپنے بچوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتیں، جس کا عکس ہمیں غزالہ کی باتوں میں بھی نظر آتا ہے، یعنی اس کے گھر کا بڑا بچہ، چاہے وہ پانچ چھے سال ہی کا کیوں نہ ہو، تین ماہ کے بچے کو سنبھال رہا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال ان ناتواں معصوم ہاتھوں سے کیوں کر ممکن ہے! اس کی وجہ سے ان کے بچے شدید بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ توجہ کی کمی اور صحت کی ناقص سہولیات کی بنا پر ان بچوں کی شرح اموات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ قصبات اور دیہات سے آنے والے ان خاندانوں کی طرح بڑے شہروں کی غریب بستیوں میں آباد خواتین بھی بطور گھریلو ملازمہ کام کرتی ہیں، جو روزانہ شہر کی افلاس زدہ بستیوں سے سفر کرکے متمول اور متوسط طبقے کی آبادیوں میں کام کرنے جاتی ہیں۔ ظاہر ہے ملک میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی نے جہاں ہمارے ملک کے 90 فی صد عوام کی کمر توڑ دی ہے، وہاں یہ طبقہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے! ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتے معاشی بحران کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافے کے باعث دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے پیسہ کمانا مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں ان خاندانوں کی خواتین بھی جنھوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا ہو، باہر نکل کر ’’ماسی‘‘ بننے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ شوہروں کی بے روزگاری یا کام نہ کرنے کی عادت ان عورتوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے ذرائع پیدا کرنا حکومت کا کام ہے۔ خدارا اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے بجائے بے روزگار غریب عوام کے لیے باعزت روزگار کی فراہمی جیسے منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جائے۔

جبکہ ہمارے معاشرے کے مردوں کو بھی یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اگر مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ہےتو اس کا مطلب بالکل بھی یہ نہیں کہ عورت ہمت اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد سے کم ہوتی ہے،بلکہ ہمارے دین نے مخصوص جسمانی ساخت اور ماں بننے کے عظیم رُتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے عورتوں کا خاص خیال رکھنے، انہیں عزت دینے اور چار دیواری کا سکون مہیا کرنے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔لہٰذا انہیں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ کیوں حوا کی بیٹی آج سڑکوں پر بجھا چہرہ لیے اور بوجھل پیروں کو گھسیٹتے ہوئے نظر آتی ہے! گویا زندگی کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے تھک گئی ہو۔ یہی کچھ ہمیں غزالہ کی کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ حکمران یاد رکھیں کہ غریب عوام سے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنا کر ہی لوگوں کو بھوک، افلاس اور غربت سے نجات دلائی جاسکتی ہے، ورنہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کسی طوفان کاپیش خیمہ ثابت ہو گی۔

حصہ