’’لیکن فسطنیہ اس دُنیا میں آج بھی بے شمار لوگ ایسے ہوں گے جو حال کی مایوسیوں میں مستقبل کی امیدوں کا سہارا لے رہے ہوں گے اور کئی ایسے بھی ہوں گے جن کے مستقبل کا تصور حال سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ جن کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوگی کہ زندگی کے مہ و سال ایک آنکھ جھپکنے کی دیر میں گزر جائیں۔ کبھی مجھے بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وقت انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے‘‘۔
فسطنیہ نے جواب دیا۔ ’’ہم جس دور سے گزرے ہیں وہ واقعی انسان کا دشمن تھا۔ لیکن آج ہم یہ کیوں نہ سوچیں کہ ہمارے مستقبل کے راستے میں وہ بھنور نہیں ہوں گے جن میں پھنسنے کے بعد انسان وقت کو اپنا دشمن خیال کرتا ہے۔ بلکہ ہمارے راستے میں وہ حسین وادیاں ہوں گی جن سے گزرتے ہوئے ہم یہ محسوس کریں گے کہ کاش وقت کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی‘‘۔
’’یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب کہ قدرت دنیا میں کسی ایسے معلم کو بھیج دے جو انسانوں کو زندگی کے نئے آداب سکھا سکتا ہو۔ جو ہر انسان کو یہ احساس عطا کردے کہ وہ دوسروں کے لیے آنسوئوں کے نہیں بلکہ مسکراہٹوں کے سامان پیدا کرنے کے لیے آیا ہو‘‘۔
’’تم پھر کسی نبی کے متعلق سوچ رہے ہو؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ایک انسان اپنی سب سے بڑی احتیاج کے متعلق سوچے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘۔
فسطنیہ مسکرائی…’’اس وقت میری سب سے بڑی احتیاج یہ ہے کہ تم صرف میری طرف دیکھتے رہو‘‘۔
شادی سے پانچ دن بعد ایک شام عاصم اور فسطنیہ کچھ دیر باہر گھومنے کے بعد واپس آئے تو کلاڈیوس انطونیہ، جولیا، مرقس اور ولیریس مکان کے ایک کشادہ کمرے میں بیٹھے اُن کا انتظار کررہے تھے۔ فسطنیہ، انطونیہ اور جولیا کے درمیان بیٹھ گئی اور کلاڈیوس نے عاصم کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں اور ولیریس ابھی قبرستان سے ہو کر آئے ہیں، لیکن تم وہاں نہیں تھے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں فسطنیہ کی ماں کی قبر دیکھنے کے بعد دوسرے قبرستان میں فرمس کی قبر پر، چلا گیا تھا‘‘۔
انطوینہ نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’’اگر آپ ابا جان کی قبر پر جارہے تھے۔ تو مجھے ساتھ کیوں نہ لے گئے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میرا خیال تھا کہ میں کل وہاں جائوں گا۔ لیکن گھر سے نکلنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ کل ہمیں سفر کی تیاری کرنی ہے، اس لیے شاید فرصت نہ ملے، چناں چہ فسطنیہ کی ماں کی قبر کی زیارت کے بعد ہم وہاں چلے گئے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’ابا جان کو آپ کا اتنی جلدی دمشق جانا پسند نہیں۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ چند ہفتوں کے لیے رُک جائیں۔ ممکن ہے کہ مجھے قیصر کے ساتھ یروشلم جانا پڑے اور ہم یہاں سے اکٹھے روانہ ہوں؟‘‘۔
’’نہیں ہم دمشق پہنچ کر آپ کا انتظار کریں گے۔ اس وقت آپ مجھے سفر کا ارادہ ملتوی کرنے پر مجبور نہ کریں‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’بیٹا اگر تم اِس خوف سے بھاگ رہے ہو کہ راہب تمہاری بیوی کو زبردستی پکڑ کر خانقاہ میں لے جائیں گے تو میں اُس کی حفاظت کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہوں… شاید آپ کو یہ معلوم نہیں کہ ایک شادی شدہ عورت راہبہ نہیں بن سکتی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’جناب آپ کی پناہ میں رہتے ہوئے مجھے راہبوں کا خوف نہیں، لیکن آپ کو ہمیں یہاں ٹھہرانے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دمشق میں ہمارا جی نہ لگا تو ہم واپس آپ کے پاس آجائیں گے‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’بہت اچھا، ہم تمہیں مجبور نہیں کرسکتے۔ لیکن مجھے اِس بات کا افسوس رہے گا کہ قیصر سے تمہاری ملاقات نہیں ہوسکتی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’قیصر ان دنوں بہت مصروف ہے۔ وہ جنگ سے واپس آیا ہے اور میں اُسے بلاوجہ بے آرام نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’تم نے یہ خبر سنی ہے کہ ایران کا نیا حکمران مرچکا ہے‘‘۔
’’نہیں، لیکن آپ کو یہ اطلاع کب ملی؟‘‘
’’مدائن سے قیصر کا ایلچی یہاں پہنچا اور اُس نے یہ خبر سنائی ہے کہ شیرویہ آٹھ ماہ سے زیادہ اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی ملامت برداشت نہیں کرسکا، میں ایلچی سے مل کر آیا ہوں اور اُس کی باتوں سے میرا اندازہ ہے کہ تمہاری رہائی سے چند دن بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ اُس کے جانشین نے قیصر کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ میں روم کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھوں گا‘‘۔
مرقس نے کہا۔ جب ہم نے پرویز کو اس کا کھویا ہوا تخت اور تاج واپس دلایا تھا تو یہ کون کہہ سکتا تھا کہ چند سال بعد اُس کی افواج ہمارے مشرقی مقبوضات کو آگ اور خون کا پیغام دینے کے بعد قسطنطنیہ کے دروازوں تک پہنچ جائیں گی۔ مجھے اب بھی اِس بات کا یقین ہے کہ مجوسی زیادہ دیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ چند شکستیں ایران کی فوجی قوت کو تباہ نہیں کرسکیں، ہمیں ایران کی آخری حدود تک اُن کا تعاقب کرنا چاہیے تھا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ میں اپنی قید کے باعث بہت سے حالات سے بے خبر رہا ہوں، تاہم سفر کے دوران میں مجھے راستے کی بستیوں اور شہروں سے جو حالات معلوم ہوئے ہیں، اُن کے پیش نظر میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہرقل نے چند اہم فتوحات کے بعد صلح کرنے میں کوئی غلطی کی ہے۔ مجھے یہ بات قدرت کا ایک معجزہ معلوم ہوتی ہے کہ ایرانی لشکر میں پھوٹ پڑ گئی تھی اور پرویز نے نینوا کی شکست کے بعد حوصلہ ہار دیا تھا۔ ورنہ اگر وہ بزدلی کا مظاہرہ نہ کرتا تو رومی لشکر کو دست گرد کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے قدم قدم پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔ پھر مدائن میں اگر اُسے اپنی منتشر افواج جمع کرنے کے لیے چند ہفتوں کی مہلت مل جاتی تو اُس کا جوابی حملہ یقیناً خطرناک ہوتا۔ لیکن مجھے اپنے بیٹے کے ہاتھوں اُس کا قتل ہوجانا قدرت کا ایک اور معجزہ نظر آتا ہے۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قدرت کی اَن دیکھی اور اَن جانی قوتیں پرویز کے خلاف میدان میں آچکی تھیں، اور اُس کی تباہی کا فیصلہ ہوچکا تھا‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’میں کلاڈیوس سے یہ سُن چکا ہوں کہ جب پرویز کا لشکر ایک سیلاب کی طرح مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا تو عرب میں نبوت کے کسی دعویدار نے رومیوں کی فتح کے متعلق پیش گوئی کی تھی اور یہ وہ دور تھا جب کہ ہم زیادہ سے زیادہ قسطنطنیہ کو بچانے کے متعلق سوچ سکتے تھے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں کئی لوگوں اِس پیش گوئی کے متعلق سن چکا ہوں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ عرب کی زمین جہاں کسی نیکی کے لیے کوئی جگہ نہیں، ایک نبی کے لیے کیسے سازگار ہوسکتی ہے‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’میں کئی خدا رسیدہ لوگوں کی زبانی یہ سن چکا ہوں کہ ایک نبی کے ظہور کا وقت آچکا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی سچا نبی عرب میں پیدا ہوا ہے تو اُس کے اثرات صرف وہیں تک محدود نہیں رہیں گے۔ جب کوئی اُس کا پیغام لے کر ہمارے پاس آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ سردست ہمیں اُس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس شاندار فتح کے بعد ہم کتنا عرصہ امن اور سکون کی زندگی بسر کرسکیں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’آپ بُرا نہ مانیں، میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جب تک انسانوں کی تقدیر کسی قیصر یا کسی کسریٰ کے ہاتھ میں رہے گی، انہیں کوئی دیرپا امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ اِس دُنیا کی نجات ایک انسان پر دوسرے انسان کی خدائی میں نہیں بلکہ تمام انسانوں کی مساوات میں ہے۔ ورنہ آج کے ظالم کل کے مظلوم اور آج کے مظلوم کل کے ظالم بنتے رہیں گے۔ کل رومی مظلوم تھے، اور آج ایرانی اپنے آپ کو مظلوم سمجھتے ہوں گے۔ کاش قیصر کی فتح ایک انسان کی بجائے کسی ایسے اصول کی فتح ہوتی، جو طاقتور اور کمزور ادنیٰ اور اعلیٰ، رومی اور ایرانی، سب کے لیے یکساں قابل قبول ہو۔ اور سب انسان یہ کہہ سکتے کہ آج دُنیا پر کسی شہنشاہ کا نہیں بلکہ ہمارا پرچم بلند ہورہا ہے‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے اصول کا جھنڈا بلند کرنے والوں کو تمام قبیلوں، تمام نسلوں اور تمام بادشاہوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اُن کے خلاف جو جنگ لڑی جائے گی وہ اپنی شدت کے اعتبار سے روم اور ایران کی جنگوں سے کم نہیں ہوگی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہ درست ہے لیکن اگر قدرت کو انسانیت کی بھلائی مقصود ہے تو وہ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود اس اصول کا جھنڈا اُٹھانے والوں کے لیے فتح اور نصرت کے دروازے کھول دے گی۔ پھر جس زمین پر اُن کا خون گرے گا اُس کے سینے سے عدل و مساوات کے چشمے پھوٹیں گے۔ یہ لوگ نسلوں اور قوموں کے درمیان منافرت کی دیواریں مسمار کردیں گے اور جب قوموں اور نسلوں کے درمیان اخوت کے رشتے استوار ہوں گے تو ایسی تمام جنگوں کے امکانات ختم ہوجائیں گے، جو ایک انسان دوسرے انسان، ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ یا ایک قوم دوسری قوم پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے لڑتی ہے۔
میں یہ مانتا ہوں کہ قبیلوں کے سردار، اور قوموں کے حکمران جنہیں صرف انسانوں کی تفریق میں اپنی بھلائی نظر آتی ہے، پوری قوت کے ساتھ اِس اصول کی مخالفت کریں گے۔ ایران میں کسریٰ، روم میں قیصر اور باقی دُنیا میں ہر چھوٹا اور بڑا حکمران اس اصول کے علمبرداروں کو اپنا بدترین دشمن خیال کرے گا لیکن اِس کے لیے قربانیاں دینا ان لوگوں کا سب سے بڑا فرض ہوگا جو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے امن اور آزادی کا سودا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ آج دُنیا جس نجات دہندہ کی متلاشی اور منتظر ہے وہ بیک وقت مشرق و مغرب کے تمام حکمرانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرے گا‘‘۔
’’ہاں! میرے نزدیک اِس دنیا کی سب سے بڑی احتیاج یہی ہے‘‘۔
مرقس نے کہا۔ ’’تم کسی اور دُنیا کی باتیں کررہے ہو۔ تاہم مجھے اِس بات کا اعتراف ہے کہ اگر خدا کا کوئی بندہ قبیلوں، نسلوں اور قوموں کے جھگڑے مٹا سکتا ہو، تو میں اِس بڑھاپے میں بھی اُس کے جھنڈے تلے جان دینا اپنے لیے باعث سعادت سمجھوں گا۔ میں اور مجھ سے پہلے میرے باپ دادا صرف قیصر کی فتح کے لیے جان دینا جانتے تھے، لیکن انسانیت کی فتح کے لیے اگر کوئی دنیا کے سارے بادشاہوں کے تاج نوچ لے تو بھی مجھے اس بات کا ملال نہیں ہوگا۔ لیکن سچ کہو، تمہیں واقعی کسی نجات دہندہ کا انتظار ہے؟‘‘
(جاری ہے)