گزشتہ ہفتے بزمِ تقدیس ادب کراچی نے ناظم آباد کراچی میں ایک نعتیہ مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت ساجد رضوی نے کی۔ قمر وارثی مہمانِ خصوصی جب کہ سید خالد حسن رضوی مہمانِ اعزازی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس نعتیہ مشاعرے میں صدر، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزازی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ علی اوسط جعفری، فیاض علی فیاض، آصف رضا رضوی، حنیف عابد، زاہد حسین جوہری، نسیم الحسن زیدی، آسی سلطان، عتیق الرحمن، احمد اقبال، یوسف چشتی، کشور عدیل جعفری، صفدر علی انشا، رفعت الاسلام، ضیا حیدر، اکرم راضی، فخر اللہ شاد، دلشاد زیدی، چاند علی، سرور چوہان، نعمت منصوری، وحید قریشی اور زوہیب خان نے نعتیہ کلام پیش کیا۔ ساجد رضوی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام زمانوں کے لیے نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپؐ پر نبوت ختم ہوچکی ہے، اب قیامت تک کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، ہمیں قرآن اور سنت سے استفادہ کرنا ہے، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ کے رسولؐ سے محبت کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قمر وارثی نے کہا کہ نعت نگاری میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ذرا سی غلطی سے ایمان چلا جاتا ہے، نعت میں جھوٹ اور غلو کی کوئی گنجائش نہیں ہے، عبد اور معبود کا فرق رکھا جائے، نعت کہنا اور سننا باعثِ ایمان ہے، نعت کے فروغ میں اپنا حصہ شامل کیجیے کہ نعتیہ ادب کی ترقی کا سفر جاری ہے، اب نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی ہورہے ہیں، تحقیقاتی اور مطالعاتی کام جاری ہے، یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ سید خالد حسن رضوی نے کہا کہ طریقت اور شریعت ساتھ ساتھ ہیں، شریعت پر عمل کیے بغیر ہم طریقت پر عمل نہیں کرسکتے، تمام اسلامی اصولوں پر عمل کرنے سے انسان کی نجات ہوسکتی ہے، اسوۂ رسولؐ کی پیروی میں دین اور دنیا کی بھلائی مضمر ہے۔ آنحضرت محمد مصطفیؐ کے زمانے سے تبلیغِ دین اسلام جاری ہے، ہمیں چاہیے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں، سیرتِ رسولؐ اور قرآن سے راہنمائی حاصل کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کے زریں اصول ہمارے لیے راہِ نجات ہیں، ان اصولوں پر چل کر ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ احمد سعید خان نے خطبۂ استقبالیہ میںکہا کہ ہماری تنظیم غیر سیاسی بنیادوں پر کام کرتی ہے، ہم ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، ہم بہاریہ مشاعروں اور نعتیہ مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ حُبِِّ رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی۔ نعت کہنے کے لیے اسلامی معلومات کا ہونا ضروری ہے، جب تک ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
حلقۂ اربابِ تخلیق اور بزمِ زبیر کا مشاعرہ
حلقۂ اربابِ تخلیق نے بزمِ زبیر کے اشتراک سے رسا چغتائی کی یاد میں ایک مشاعرہ منعقد کیا۔ سعیدالظفر صدیقی پروگرام کے صدر، اختر سعیدی مہمانِ خصوصی اور شبیر نازش مہمانِ اعزازی تھے، جب کہ ارشاد آفاقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت م۔ص۔ ایمن نے حاصل کی۔ حلقہ اربابِ تخلیق کے صدر خالد میر نے کہا کہ ہماری تنظیم دسمبر 2022ء میں قائم ہوئی، ہمارا منشور یہ ہے کہ ہم فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں کو پروموٹ کریں۔ اس تناظر میں ہم نے بہت سے پروگرام آرگنائز کیے ہیں۔ ہم نظرانداز قلم کاروں کو سامنے لارہے ہیں، ہماری تنظیم اُن شعرا کے مجموعے شائع کرنے جا رہی ہے جو کہ مالی مسائل سے دوچار ہیں۔ محمد زبیر نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام شعرائے کرام اور سامعین کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے غریب خانے کو رونق بخشی۔ ہم نے یہ ادبی پروگرام اس یقین کے ساتھ کیا ہے کہ اس سے ادب کا فروغ ہوگا۔ ہمیں اچھے نتائج کی امید ہے۔ ہم سب اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔ طارق جمیل نے کہا کہ ادبی گروہ بندی سے شعر و سخن کی ترقی متاثر ہورہی ہے، ہمارا فرض ہے کہ مل جل کر آگے بڑھیں اور ادب کی ترقی و اشاعت میں شریک ہوں۔ آج کا مشاعرہ یادِ رفتگاں کی ایک کڑی ہے، یہ اچھا قدم ہے کہ ہم اپنے شعرا کو یاد کررہے ہیں۔ اچھے لوگ اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ رسا چغتائی نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، وہ ہر میدانِ ادب میں کامیاب رہے۔ وہ اب ہم میں موجود نہیں لیکن اپنے کلام کی بدولت ہمارے ذہنوں میں زندہ ہیں۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی اور مہمانِ اعزازی کے علاوہ راقم الحروف ڈاکٹر نثار، سعدالدین سعد، خالد میر، عارف شیخ عارف، تنویر سخن، یاسر سعید صدیقی، شوکت چیمہ ایڈووکیٹ، افضل ہزاروی، اسحاق خان، سرور چوہان اور خالد پرویز نے بہاریہ کلام نذرِ سامعین کیا۔