برقی قمقموں سے منور کوٹھی رات کی تاریکی کو مات دے رہی تھی۔ دور سے ہی عمارت کی آرائش و زیبائش مکینوں کے شوق و ذوق کا پتا دے رہی تھی۔ لڑکیوں بالیوں کے نقرئی قہقہے اور سریلے گانوں کی مدھم دھنیں خوشیوں کی بارات کی ضامن تھیں۔ آج صبیحہ بیگم کی بھانجی کی مہندی تھی، ان کی بہن ساجدہ آسٹریلیا سے اپنی بیٹی زویا کی شادی کا فریضہ انجام دینے پاکستان آئی ہوئی تھیں اور اپنی بہن کے گھر میں ٹھیری ہوئی تھیں۔
ان دو بہنوں کے سوا کوئی قریبی رشتے دار نہ تھا، اس لیے رشتہ غیروں میں طے پایا تھا۔ صبیحہ کی اکلوتی بیٹی فاطمہ ماسٹرز کررہی تھی اور صبیحہ کی خواہش تھی کہ اس کا رشتہ ساجدہ کے پڑھے لکھے، شاندار اور قابل بیٹے سے ہوجائے۔ آج کی تقریب کے لیے انہوں نے فاطمہ کے لیے بوتیک سے بہت ہی پیارا لباس بنوایا تھا۔
فاطمہ عموماً باریک اور غیر ساتر کپڑے پہننا پسند نہیں کرتی تھی، وہ تو کالج اور یونیورسٹی میں بھی حجاب کے ساتھ جاتی تھی۔
’’دیکھو فاطمہ! باہر تو غیر لوگ ہوتے ہیں اس لیے میں تمھارے حجاب اور نقاب کے لیے راضی ہوگئی تھی، مگر آج کی محفل میں تو تقریباً تمام لوگ اپنے قریبی عزیز اور گھر والے ہوں گے، اور لڑکیوں کے رشتے اسی طرح محفلوں میں سج سنور کر سب کے سامنے آنے سے ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے تم سوچنا بھی نہیں کہ میں تمہیں اس حلیے میں گوارا کروں گی۔‘‘ صبیحہ بیگم نے قطعی لہجے میں باور کراتے ہوئے اسے لباس پکڑوایا اور فوراً لباس تبدیل کرکے نیچے آنے کا کہا، تاکہ اسے بھی اپنے ساتھ پارلر لے جا سکیں۔
فاطمہ شروع ہی سے کم گو اور ڈری سہمی رہنے والی لڑکی تھی، اس کا نام اس کی دادی نے رکھا تھا، اور انہوں نے ہی اپنی پوتی کی تربیت کی تھی۔ صبیحہ بیگم کو تو پارٹیوں اور شاپنگ سے ہی فرصت نہ تھی۔ کالج پردے میں جانے میں بھی دادی ہی کا ہاتھ تھا، انہوں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا تھا: ’’ابراہیم میں تمہارے گھر کے کسی معاملے میں دخل نہیں دیتی، بہو سیاہ کرے یا سفید میری بلا سے، مگر میں اپنی نسل کو تباہ نہیں ہونے دوں گی۔‘‘
فاطمہ بھی فطرتاً شرمیلی اور متحمل مزاج تھی، دادی کی ڈھال اسے بہت غنیمت لگتی تھی۔ اُن کے آگے اُس کی مما کچھ بول نہ پاتی تھیں مگر شومیِ قسمت چند ماہ پہلے ہی اُن کا انتقال ہوگیا۔
بابا تو مما کے سامنے کچھ بولتے ہی نہیں تھے۔ مما نے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق فاطمہ کو تمام تقریبات میں شرکت کروائی۔ انہیں پتا تھا کہ ساجدہ کے دونوں بچے بیرونِ ملک پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ زویا کی آزاد خیالی تو وہ محسوس کرچکی تھیں اس لیے شادی سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی بہن سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’سجو! میں چاہتی ہوں کہ میری فاطمہ تمہاری بہو بنے، مجھے شہزاد بہت پسند ہے، تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے! میرا خون ہے، پڑھی لکھی ہے، اتنی خوب صورت اور معصوم… بس شہزاد کی رائے لے لوں تو بات پکی کرتے ہیں۔‘‘ ساجدہ نے نہایت خوش دلی سے جواب دیا۔
ابھی دونوں بہنیں بیٹھی باتیں ہی کررہی تھیں کہ شہزاد وہاں سے گزرا۔
’’بیٹا! ذرا ادھر آؤ، کچھ بات کرنی ہے۔‘‘ ساجدہ نے ابھی بات کرنے کی ٹھانی۔
’’شہزاد! میں اور تمہاری خالہ چاہ رہے ہیں کہ تمہارا رشتہ فاطمہ کے ساتھ طے کردیا جائے، ابھی نکاح کرلیں گے، پھر جب کاغذات بن جائیں گے تو آکر دھوم دھام سے شادی کرکے فاطمہ کو ساتھ لے جائیں گے۔ کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘
شہزاد ماں کی بات سن کر تھوڑا سا جزبز ہوا ’’امی آپ تو اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ میں ابو کی طرح مشرقی خیالات کا مالک ہوں، حالانکہ ابو میرے لڑکپن میں ہی ہم سے جدا ہوگئے تھے، مگر بچپن سے انہوں نے مجھے اپنی اقدار کے بارے میں جو بھی سمجھایا، وہ میرے دل پر نقش ہے۔ اپنی شریکِ حیات کے طور پر میں نے جیسی لڑکی سوچی ہوئی ہے، فاطمہ اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ مجھے کٹے بالوں، ناکافی لباس میں ملبوس بے باک لڑکی نہیں چاہیے، البتہ فاطمہ کی پھوپھی زاد طوبیٰ جو ہر تقریب میں حجاب میں ملبوس رہی اگر آپ چاہیں تو اُس کے ساتھ میری بات چلا سکتی ہیں۔‘‘ شہزاد اپنا مدعا بیان کرکے وہاں رکا نہیں۔
شہزاد کی بات صبیحہ بیگم کو تازیانہ بن کے لگی اور وہ ہکا بکا بیٹھی رہ گئیں۔